عالم اسلام کو یوگ سے متعارف کرانے والے شیخ محمد غوث گوالیاری

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
عالم اسلام کو یوگ سے متعارف کرانے والے شیخ محمد غوث گوالیاری
عالم اسلام کو یوگ سے متعارف کرانے والے شیخ محمد غوث گوالیاری

 

 

یوگاڈے پرخاص تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی
سرور کے حصول اورڈپریشن سے تحفظ کے لئے اِن دنوں نشیلی دواؤں کا استعمال عام بات ہے۔روزانہ میڈیا میں خبریں آرہی ہیں کہ منشیات کے خلاف مہم چلاتے ہوئے پولس چھاپے مار رہی ہے اور عوام ہی نہیں بلکہ سیلیبریٹیز کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔ حالانکہ قدیم زمانے میں بھی منشیات موجود تھیں مگر قلبی سکون کے لئے لوگ مراقبے اور یوگا وغیرہ کا سہارا لیا کرتے تھے۔ جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھانتے تھے اور قدرت کے حسین ودلکش نظاروں کے درمیان خود کو گم کر دیتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو دنیا صوفی اور یوگی کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ غیرمضر لوگ تھے جن سے نقصان کسی کونہیں ہوتا تھا اورفائدہ سب کو ہوتا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ دنیا کی بھلائی کے لئے کام کیا اورانسانوں کو امن وآشتی کا پیغام دیا۔

دوالفاظ

تصوف‘ اور’یوگ‘ کے الفاظ جس قدر پرانے ہیں،اس سے کہیں زیادہ قدیم ہیں۔ ان دونوں کے رشتہ کی مثال کے طور پر آپ ’مراقبہ‘ کولے سکتے ہیں، جس کے فوائد کی سائنٹفک طریقے سے پرکھ ہوچکی ہے۔ ہزاروں سال قبل مراقبہ کا رواج  جس طرح یونان کے فلسفیوں کے درمیان تھا، اسی طرح ہندوستان کے جوگیوں کے بیچ میں بھی تھا۔ ظہورِاسلام کے وقت اہل عرب میں بھی مراقبہ کے چلن کا پتہ چلتا ہے۔ آج برصغیرسے لے کر یوروپ اور امریکہ تک اس کا رواج ہوچکا ہے اور مغرب میں تو سالانہ اربوں ڈالرکا اس کا بازار ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی قوت کارکردگی کو بڑھانے کے لئے یوگا کے ماہرین کی مدد لے رہی ہیں۔

مراقبہ کب سے؟


اسلام کے مطابق حضرت آدم، انسان اول ہیں جب کہ ہندووں کے قدیم عقیدے کے مطابق شیوسے کائنات کا آغاز مانا جاتا ہے اور شیو کی تصویرکشی، یوگ آسن یا مراقب کی شکل میں روایتی طور پر ہوتی آئی ہے۔ اگرآدم اور شیو کو ایک مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یوگ، انسان اول سے اب تک چلا آتا ہے۔یوگ کا آغاز لفظ’اوم‘ سے ہوتا ہے۔ ’اوم‘ کا اگرعربی میں ترجمہ کیا جائے تو اس کے لئے سب سے مناسب لفظ ہوگا ’نور‘ جو اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے۔

تہذیب انسانی کے آغازکے ساتھ

یوگاکو ہندوستان کے قدیم عاملوں کا عمل قراردیا جاتاہے اور علماء اسلام کے مطابق انسانِ اول کی آمد اسی سرزمین پرہوئی تھی اور انسان کو ابتدا میں اسی خطے میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا تھا۔ گویاتہذیب انسانی کا آغاز یوگا جیسے فن کے ساتھ ہوا تھا۔ عرب وہندکے تعلقات صدیوں سے قائم ہیں اور دونوں خطوں کے عرفاء ایک دوسرے سے اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔حالانکہ ہندوستانی یوگا سے اہل فارس وعرب کو متعارف کرانے کا کام معروف صوفی شیخ محمد غوث گوالیاری نے کیا جنھوں نے اس موضوع پر لکھی گئی کتاب ’امرت کنڈ‘ کافارسی میں ترجمہ کیا۔ شیخ نے ابتدائی مغل بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور عہداکبری میں ان کی شہرت عروج پر تھی۔ ان کا قیام گوالیار (مدھیہ پردیش)میں تھا مگر اسی سال کی عمر میں جب وہ آگرہ آئے تو شہنشاہِ وقت جلال الدین محمد اکبر نے ان کا استقبال کیا۔

بحرالحیات اورحوض الحیات


شیخ نے ’امرت کنڈ‘ کے فارسی ترجمہ کا نام ’بحر الحیات‘ رکھاہے۔ فارسی سے عربی میں کتاب کا ترجمہ شیخ رکن الدین نے کیا اور اس کا نام ’حوض الحیات‘ رکھا۔ اصل کتاب کے بارے میں مشہور ہے کہ سنسکرت میں تھی مگر بحرالحیات کے مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ اصل کتاب’ہندوی‘ میں تھی۔بحرالحیات کے صفحات کی تعداد 38ہے۔کتاب میں یوگا کے علاوہ فلکیات، طب اورریاضی کے مضامین ہیں نیز جسم انسانی کی تخلیق وبناوٹ کا بھی نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ فارسی اور عربی میں یوگا کی پہلی کتاب ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اصل کتاب ’امرت کنڈ‘ اب دستیاب نہیں ہے لہذا، بحر الحیات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ اہم کتاب اپنے ترجمے کی شکل میں ہی محفوظ ہے۔

شیخ محمد غوث گوالیاری ایک وسیع المشرب صوفی تھے جن کا دروازہ ہرکسی کے لئے کھلا رہتا تھا۔ وہ زبردست ماہرموسیقی بھی تھے اور انھیں کی تربیت کا نتیجہ تھا مشہور موسیقار تان سین، جس کی شہرت زمان ومکاں سے ماوریٰ ہے۔ تان سین کی قبر،  شیخ کی قبرکے پہلو میں ہے جسے شیخ نے اپنا منہ بولا بیٹابنالیا تھا۔

صوفیوں اور یوگیوں کا میل جول
  صوفیوں اور یوگیوں کامیل جول عہد وسطیٰ کے لئے عام بات تھی۔ وہ تصوف وعرفان کے موضوعات پر عموماً ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ بابافرید شکر گنج کی خانقاہ میں یوگیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا جس کا ذکر متعدد سوانح نگاروں نے کیا ہے۔شیخ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کے مجموعہ فوائدالفواد میں بھی اس کا بیان ہے۔اکبربادشاہ ایسی مجلسوں کا اہتمام کیا کرتا تھا جن میں مختلف مذاہب کے علماء شریک ہوتے تھے اورمغل شہزادہ داراشکوہ تو،تصوف اور یوگ کا عالم تھا۔وہ علماء اسلام کے علاوہ سادھووں، سنتوں اور ہندودھرم کے گیانیوں سے ملتا رہتا تھا۔ اس کے اتالیق اور شاہجہاں کے دیوان چندربھان برہمن خودتصوف اوریوگ کے عالم تھے۔ بابالال بیراگی کا ذکر انھوں نے اپنی ایک کتاب’   مکالمہ داراشکوہ بابا لال بیراگی‘ میں کیاہے جو شہزادہ سے ملے تھے اور شہزادہ نے ان سے کئی سوالات پوچھے تھے۔
  شہزادہ نے صوفیوں اور یوگیوں کے نظریات کے تقابل کے سلسلے میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا جس کا نام ’مجمع البحرین‘ ہے۔شہزادہ نے خود لکھا ہے کہ ”اس رسالہ میں صوفیاء اسلام اور جوگیان ہند کے تصوف موحدہ کی ہم نے تحقیق کی ہے۔“وہ لکھتا ہے:
فقراء ہندسانسوں کی آمدورفت کو دو لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں۔یعنی جب سانس باہر آتا ہے تو اس وقت لفظ ’او‘ کہتے ہیں اور جب سانس اندرجاتا ہے تو ’من‘کہتے ہیں جس کا مجموعہ ”اوم نم“ ہوجاتا ہے اور صوفیاء اسلام بجاے ’اوم نم‘ کے ’ھواللہ‘کا شغل کرتے ہیں۔یعنی جب سانس باہرجاتا ہے تو’ھو‘ کہتے ہیں اور جب اندرآتا ہے تو ’اللہ‘ کہتے ہیں۔“ (مجمع البحرین۔شغل کا بیان)

مماثلت؟
مجمع البحرین کے مطابق فقراء ہند کا نظریہ ہے کہ صفات الٰہیہ تین ہیں جنھیں ’ترگُن“ کہتے ہیں۔ یہ برہما،وشنو اور مہیش ہیں جب کہ اہل تصوف کے نزدیک جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کوتین موکل مانا گیا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو صوفیوں اور یوگیوں کے نظریات میں کئی سطح پر مماثلت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کئے ہیں۔صوفیہ کے ہاں ذکر جلی، ذکر خفی اور حبس دم کے تصورات اس بات کے شاہد عدل ہیں۔