شمس الرحمن فاروقی : شخص وعکس اور تنقیدی ا فکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
شمس الرحمن فاروقی کے علمی کارناموں کے  تناظر میں یہ کہنا مناسب ہوگا  کہ ہم عہد فاروقی میں سانس لے رہے ہیں
شمس الرحمن فاروقی کے علمی کارناموں کے تناظر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم عہد فاروقی میں سانس لے رہے ہیں

 

 

       سلمان عبدالصمد ۔ نئی دہلی   samad

یادیں گویا عذاب ہے۔ گذشتہ برس کی یادیں ہمیں ہمیشہ ستاتی رہیں گی۔ کیوں کہ ایک طرف کورونا کی وجہ سے لاتعداد عام لوگوں کی اموات ہوئیں، وہیں بے شمار ادبی شخصیات بھی ہم سے جداہوگئیں۔ ہم انھیں بھلائے بھی بھلا نہ پائیں گے۔ کیوں کہ ان شخصیات کا عکس ہمارے دلوں میں پیوست ہے۔ ان کے کارنامے ہماری آنکھوں میں روشن ہیں۔

نابغہ روزگار اور ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی بھی ہم سے جدا ہونے والوں سے ایک ہیں۔ ان کے علمی کارناموں کا ایک زمانہ معترف ہیں بلکہ ادبی تناظر میں یہ کہنا مناسب ہوسکتاہے کہ ہم عہد فاروقی میں سانس لے رہے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی(1935-2020) کو بحیثیت ناقد زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم انھوں نے فکشن اور شاعری کی دنیا میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ان کا افسانوی مجموعہ ”سوار اور دوسرے افسانے“ دراصل تجرباتی افسانوں کے ذیل میں آتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حقائق کو افسانوی رنگ عطا کیا ہے اور ان کے افسانے قدرے طویل بھی ہیں۔

اسی طرح ان کے شاہکار ناول”کئی چاند تھے سرآسماں“ اور ”قبضِ زماں“ اپنی مثال آپ ہیں۔ کیوں کہ ان میں دستاویزی معاملات اور تاریخی اقدار کو فکشن کا رنگ دیاگیا ہے۔ رہی بات ان کے شعری مجموعے ”آسمان محراب“ کی تو اسے جدید شاعری میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔سچی بات یہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کو وقار واعتبار عطا کرنے میں جہاں ان کی علمیت کا کردار ہے،وہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی۔

اگر وہ تخلیق کار نہ ہوتے تو جس طرح انھوں نے ادب پاروں کے معانی ومفاہیم متعین کیے، اس طرح وہ قطعاً نہیں کرپاتے۔کیوں کہ ایک تخلیق کار لفظی انتخاب اور موضوعاتی برتاؤمیں فن کاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب معتبر تخلیق کار کے پاس علمی خزانہ، بالیدہ فکر اور تجزیاتی ذہن ہوتووہ خالص ناقد سے کہیں زیادہ بہتر طور پر فن پاروں کا تجزیہ کرسکتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے پاس تخلیقی صلاحیت بلا کی تھی اورتجزیاتی ہنرمندی بھی، اور ساتھ ہی وسعت مطالعہ بھی۔

اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے فاروقی نے الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں اے ایم کیا تھا۔ کچھ دنوں کے لیے درس وتدریس سے بھی وابستہ ہوئے۔ اسی دوران انھوں نے انڈین سول سروسز کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور ایک طویل عرصے تک انڈین پوسٹل سروس میں خدمات انجام دیں۔ دفتری امور کی بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود انھوں نے خود کوکا غذ وقلم سے الگ نہیں کیا۔ تقریباً چار دہائیوں تک رسالہ”شب خون“ نکالتے رہے اور تالیف وتصنیف میں بھی مصروف رہے۔ ان کی چند معروف کتابیں یہ ہیں:اثبات و نفی،اردو غزل کے اہم موڑ،اردو کا ابتدائی زمانہ: ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو،افسانے کی حمایت میں،انداز گفتگو کیاہے،تعبیر کی شرح،تفہیم غالب،شعر شور انگیز،شعر غیر شعر اور نثر،لغات روزمرہ،ہمارے لیے منٹو صاحب،لفظ ومعنی،عروض آہنگ اور بیان، وغیرہ۔

شمس الرحمن فاروقی تقریباً گذشتہ چار دہاہیوں سے اردو تنقید میں حوالے بنتے رہے، اور برسوں حوالہ بنتے بھی رہیں گے۔یہ تو حقیقت ہے کہ اتنے طویل عرصے تک اردو میں کسی ایک ناقد کی علمی بالادستی قائم نہیں رہی۔ شاعری کے حوالے سے ”عہد میر، عہد غالب“ کی اصطلاح تو استعمال کی جاتی ہے تاہم اردو تنقید میں فاروقی تنہا ہیں کہ ان کے عہد کو ”عہد فاروقی“ کا نام دیا جاسکتاہے۔ فاروقی کی تنقید کو ان کے حافظے،وسعت مطالعہ،گہری علمیت، زبانوں کے علوم اور تجزیاتی ہنرمندی نے انفراد کا درجہ دیا ہے۔ یہ بھی واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے ادبی ادوار پر خود سوالات اٹھائے اور خود ان سوالوں کے مدلل جوابات بھی دئے۔

اس میں شک نہیں کہ اردو کے بہت سے ناقدین نے مغربی ادبیات سے استفادہ کیا ہے۔ کلیم الدین احمد، آل احمد سرور اور وہاب اشرفی کے علاوہ معاصربہت سے ناقدین نے مغربی نقادوں کو اپنی اردو تنقید میں حوالہ بنایا۔ یاد رہے کہ متقدمین اور معاصرین اردو ناقدوں نے فقط اپنی تنقید کو مستند بنانے کے لیے مغربی دانشوروں اورناقدین کو بطور حوالہ پیش کیا تاہم فاروقی کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کیوں کہ انھوں نے مغربی ناقدین کے اقوال ونظریات سے نہ صرف اپنی رائے کو استناد بخشا بلکہ مغربی ناقدین سے بہت سے مقامات پر خاصا اختلاف بھی کیا۔

شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی مروجہ بہت سی تاریخ پر انگلی رکھ دی ہے۔ بطور مثال: ولی کی دلی آمد کا مسئلہ ادب کی تاریخ میں زور وشور سے اٹھایا جا تا ہے، تاہم فاروقی نے اس تاریخی حقیقت پر بہت سے سوالات اٹھائے۔ اس کے علاوہ میر کو یاسیت کے پس منظر میں ہی دیکھنے کی کوشش کی جاتی تھی مگر انھوں نے میر کے رنگ رنگا کلام کو پیش کرکے ان کے چونچال پن کو ثابت کیا۔ اس کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی کی تنقید میں لغوی حوالے بہت ملتے ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے شاعروں کے کلام کی معنویت کو اجاگر کرنے میں فقط الفاظ کے مروجہ معنوں سے کام نہیں لیا بلکہ بیشتر لغات سے رجوع کرکے نئے نئے معانی متعین کیے۔ لغت کے سہارے ہی ”شعرِ شور انگیز“میں انھوں نے ایک نئے میر کو دریافت کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے مشرقی ادبیات سے استفادے کے دوران اسلامی پس منظر کو بھی کہیں کہیں زیر بحث لایا ہے۔

فاروقی ایک سخت گیر نقاد تھے۔اس سخت گیری میں ان کی علمی انانیت کادخل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت سے شعرا وادبا کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔اگر لاتے بھی ہیں تو اپنی علمیت کے سانچوں میں انھیں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔بے شک میر یگانہ ویکتا شاعر تھے مگر کبھی کبھی فاروقی نے اپنی علمی انانیت کے دم پر میر کے سامنے بہت سے معتبر شاعروں کے کلام کو کمزور گردانا۔ رہی بات کلاسیکی سرمایوں کی تو انھوں نے بے شمار شعرا کے علاوہ مولانا حسین آزاد کی ”آب حیات“ پر بھی بہت سے سوالات اٹھائے، اس کے باوجود انگریزی میں ”آب حیات“ کا ترجمہ کیا۔ گویا انھوں نے قدیم سرمایوں پر بیشک سوالات اٹھائے،تاہم انہیں تحسین آمیز نظروں سے بھی دیکھا۔

اردو داستان کی شعریات متعین کرنے کی جو انھوں نے کوشش کی، وہ بھی قدیم سرمایوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے۔ ”شعرِ شور انگیز“ کا اچھا خاصا حصہ کلامِ میر کی تشریح پر مبنی ہے۔ تاہم اس کتاب کی چار جلدوں میں طویل طویل ایک درجن سے زائد مضامین شامل اشاعت ہیں،جن میں نظریاتی بحث کی گئی۔ اس بحث سے دراصل شاعری کی شعریات متعین کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ گویا فاروقی نے نہ صرف قدیم شاعروں کی شاعری کا تجزیہ کیا بلکہ ان کے اشعار سے شعریات متعین کرنے کا التزام بھی کیا کہ جن سے استفادہ کرنا موجودہ ادباکے لیے سودمند ہے۔

الغرض شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی امتیازات میں ان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ عظمت ان کے تنقیدی دعوؤں او ردلائل سے واضح ہوتی رہتی ہے۔ کیوں کہ انھوں نے بے شمار مروجہ ادبی تاریخ کو الٹ پلٹ کردیا، فکر کے روایتی بتوں کو ڈھاد یا۔ اسی طرح اندازِ تشریح، معانی کی گہرائی اور مطالب کی گیرائی سے اپنی تنقید کو امتیازی شان کا حامل بنا دیا۔ تاریخی حوالوں سے اپنے دلائل کو مضبوطی عطا کرنا اور اسی کے سہارے بت شکنی کرتے چلے جانا بھی ان کا ایک عجیب علمی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ فکری، نظری اور اصطلاحی مباحث کو تجزیاتی عمل سے مدغم کرتے ہوئے مضمون کو اختتام تک پہنچانابھی ان کی تنقید کا نادر پہلوہے۔

ان تمام اوصاف سے متصف ہونے کے بعد ان کی تنقید میں علمیت کے ساتھ ساتھ ایک کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ جس طرح قاری بہت سی تخلیقات کے سحر میں ڈوب جاتا ہے، بالکل اسی طرح فاروقی کی تنقیدقاری کو خود سے لپٹا ئے رکھتی ہے۔فاروقی کی تنقید قدیم وجدید، مغرب ومشرق اور افکار وشعریات سے لبریز ہے۔ اس لیے ان کی تنقید نہ صرف ہمیں متاثر کرتی ہے بلکہ قائل ہوجانے پر بھی مجبور کردیتی ہے۔