مشاعروں کی شاہجہانی شخصیت :ملک زادہ منظور احمد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-03-2024
  مشاعروں کی شاہجہانی شخصیت :ملک زادہ منظور احمد
مشاعروں کی شاہجہانی شخصیت :ملک زادہ منظور احمد

 

عمیر منظر 

اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی 
لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ۔یوپی
 
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی شناخت کے مختلف پہلو ہیں ۔البتہ نظامت کی عوامی مقبولیت اور شہرت کی وجہ سے ان کی یہ حیثیت عام طور پر جانی پہچانی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ وہ ایک کامیاب ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے ہی یاد کیے جانے لگے ۔ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک انھوں نے مشاعروں اور سامعین کے دلوں پر حکمرانی کی ۔
عام طور پر مشاعروں میں شعرا کے تعارف کے حوالے سے جو لوگ مشہور ہیں ان میں تعلیمی اور علمی لیاقت کے اعتبار سے انھیں فوقیت حاصل ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ملک زادہ منظور احمد نے نظامت کو فن بنادیا ۔ شعرا کے تعارف کے لیے شوخی اور شگفتہ مزاجی جو کہ بنیادی ضرورت تھی، ان میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ان تمام خوبیوں کی وجہ سے ہی ان کی شخصیت اور نظامت کا فن لازم و ملزوم بن گئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ نظامت کے بجائے گورنری کرتے ہیں ۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے اپنے انداز تعارف کے کچھ کچھ اشارے‘ رقص شرر’ میں دیے ہیں ۔اگر ان سب کا مجموعی محاکمہ کیا جائے تو اس کی ایک دلآویز تصویر سامنے آتی ہے لیکن ان سب کے باوجود ان کی ذہانت اور ان کا وہ تہذیبی رویہ جس کے خمیرمیں منکسرالمزاجی اور اعلی ظرفی کی صفات شامل تھیں ،اس نے انھیں ممتاز کررکھا تھا۔ پہلا مشاعرہ جس میں شعر اکے تعارف کا فریضہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے انجام دیا تھا وہ اعظم گڑھ کا مشاعرہ تھا ۔اس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
 
چونکہ اس زمانے میں شعرا کا تعارف خود مشاعرہ کمیٹی کا سکریٹری کراتا تھا اس لیے میں نے سب کا تعارف کرایا اور مختلف اکابر کے جو پیغامات آئے تھے پڑھ کرسب کو سنایا...شہر میں مشاعرے کی کامیابی کے ساتھ ساتھ میرے انداز تعارف کا بھی چرچا رہا ۔(رقص شرر :۱۱۳) 
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کے انداز تعارف میں کلیدی کردار ان کی آواز کا تھا ۔بہت سے لوگ اپنی آواز کو بھاری اور بہتر بنانے کے لیے بڑے جتن کرتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے اس کے لیے شاید ہی کبھی کوئی اہتمام کیاہومگر اس کے باوجو ان کی آواز کا جادوہمیشہ سر چڑھ کر بولا ۔ایسی پاٹ دار آواز اور اتنی کشش کہ اس کی کوئی دوسری مثال مشکل سے ملے گی ۔ایک بار وہ دلی کے ایک مشاعرہ میں شعرا کے تعارف کے لیے تشریف لائے مگر ان کا گلا بیٹھاہوا تھا ۔اس مشاعرے کی نظامت تو نہیں کرسکے مگر ابتدا میں انھوں نے ریاض خیرآبادی کاایک شعر پڑھ کر محفل ضرور لوٹ لی ۔وہ شعر یہ تھا ۔
گلا بیٹھا ہوا حکم اذاں اور وہ بھی کعبے میں 
بھلا ہو میں چرالایا تھا ناقوس برہمن کو
شعرا کے تعارف /نظامت کی دوسری اہم خوبی اس کا اختصار ہے ۔ممکن ہے انھوں نے بعض ضرورتوں کے تحت شعرا کا طویل تعارف بھی کرایا ہو مگر ان کا کمال یہی تھا کہ وہ بہت مختصر تعارف کراتے تھے اور بات بھی مکمل ہوجاتی تھی۔ایک مشاعرہ میں احمد فراز شاعرات کے درمیان گھرے ہوئے تھے ڈاکٹر صاحب نے ان کا بس اتنا ہی تعارف کرایا کہ ‘‘اب میں احمد فراز سے درخواست کررہا ہوں کہ وہ کوئے یار سے فراز دارپرتشریف لائیں ۔ رقص شرر کے مطالعہ سے نظامت کے بارے میں بعض دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں ۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں 
میں عموماً شعرا کے تعارف میں اتنا وقت لیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر لاؤڈسپیکر تک آجائیں (رقص شرر:۱۵۹) 
ایک مشاعرہ میں ڈاکٹر بشیر بدر کو ان کلمات کے ساتھ زحمت سخن دی 
جدید اردو غزل کا کوئی منظرنا مہ بغیر ڈاکٹر بشیر بدر کے تذکرہ کے مکمل نہیں ہوتا میں ان سے گزارش کررہا ہوں کہ وہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے ہم لوگوں کونوازیں ۔ 
ذہانت اور فی الفور اچھا جملہ اس سلیقے سے کہتے تھے کہ وہ بس انھیں کو زیب دیتا تھا۔دلی کے ایک مشاعرہ میں احمد علوی نے جب یہ مزاحیہ قطعہ پڑھا کہ 
موٹی ہو کہ پتلی ہو ہلکی ہو کہ بھاری ہو 
بیوی وہ ہماری یا بیوی وہ تمہاری ہو
ہر عمر کے شوہر کے شوہر کا علوی یہی کہنا ہے 
بیوی وہی پیاری جو اللہ کو پیاری ہو
تو سامعین نے شعر کا خاطر خواہ لطف لیا اور لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے مگراس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک جملہ کہہ کر کہ ‘‘ اللہ کو پیاری’’ ہونے کامطلب صوم و صلوۃ کا پابند ہونا بھی ہوتا ہے ’’پوری فضا کو تبدیل کردیا ۔اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے ان کی ذہانت اور ایک کامیاب ناظم مشاعرہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔کنور مہند سنگھ بیدی سحر کے اعزاز میں لکھنؤ کے رویندرالیہ میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں مہمان خصوصی کے طور پر دلیپ کمار نے شرکت کی ۔یہ زمانہ دلیپ کمار کی غیر معمولی شہرت اور مقبولیت کا تھا ۔مشاعرہ میں جب دلیپ صاحب کو تقریر کے لیے دعوت دی گئی تو مائک پر آکر انھوں نے ‘جناب صدر،شعرائے کرام اور حضرات کہہ کر سامعین کو مخاطب کیا ’ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے بیچ میں لقمہ دیا :
‘‘دلیپ صاحب یہ خواتین جنھیں آپ بہترین ملبوسات میں دیکھ رہے ہیں مدتوں سے آپ کو دیکھنے کے لیے بے چین تھیں خدا کے لیے ان کو بھی مخاطب کرلیجیے۔’’ ہال میں ایک زبردست قہقہہ پڑا ۔دلیپ کمار نے فلمی انداز میں مجھے دیکھا اوربولے ‘‘خواتین و حضرات ’’دوبارہ پھر قہقہہ گونجا ۔(رقص شرر:۲۳۲)
 
اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ڈاکٹر ملک زادہ کے تعارف میں
اختصار جامعیت سے عبارت تھا۔بہت سے نئے شعرا کے تعارف میں وہ عموماً یہی کہتے تھے کہ ‘‘شاعر کا کلام خود اس کا تعارف ہے ۔ جامعیت اور اختصار ہی غالباً وہ بنیادی خصوصیات تھیں جس کی وجہ سے ان کے انداز تعارف کو سراہا گیا اور اسی وجہ سے انھوں نے رفتہ رفتہ نظامت کو ایک فن میں تبدیل کردیا۔ یہ اسی فن کا ہی کرشمہ رہا ہوگا کہ جب پہلی بار انھیں دلی کلاتھ مل کے بزم شنکر و شاد کے ہندو پاک مشاعرہ میں شعرا کے تعارف کے لیے مدعو کیا گیا تو تقریباً پچیس برسوں تک وہ مسلسل اس ذمہ داری کو اداکرتے رہے ۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی نظامت کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اردو کے تعلیم یافتہ حلقوں میں ان کی نظامت مزید نکھر جاتی اور اگر شعرا کا انتخاب بھی اچھا ہوتو پھر ان کی نظامت کی ادبی شان میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا۔دبئی کے ایک مشاعرہ میں کہ جس میں حفیظ میرٹھی ،علی سردار جعفری ،شمس الرحمن فاروقی ،حمایت علی شاعر،محمود شام وغیرہ بطور شاعر شریک ہوئے تھے دوران نظامت انھوں نے یہ کہاتھا :
 شمس الرحمن فاروقی کے آجانے کی وجہ سے ان لوگوں کی فہرست میں اضافہ ہوا ہے کہ جن کی وجہ سے ہمارا ادبی بھرم قائم ہے ۔ انھوں نے ہمارے ادب میں اضافہ کیا ہے ۔نئی جہتیں اور امکانات تلاش کیے ہیں ۔
حمایت علی شاعر کے تعارف میں ان کی ثلاثیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا
ان کے اشعار میں انکشاف ذات کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات کے بھی مسائل آتے ہیں اور وہ مسائل بھی آتے ہیں جو ماورائے ذات ہیں ۔یہ ایک عجیب وغریب سعادت ہے کہ خود اپنے آپ میں اتنا گم نہ ہوجانا کہ گردو پیش کے حالات کو نہ دیکھ سکیں اور نہ گرد و پیش کے حالات میں اتنا منہمک ہوجانا کہ اپنے دل کے داغوں کی بہار کو نہ دیکھ سکیں یہ جو متوازن امتزاج ہے جناب حمایت علی شاعر کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔
رقص شرر میں انھوں نے پانچ چھے مقامات پر اپنی نظامت کا ذکر کیا ہے لیکن صرف ایک دوجملے سے زیادہ نہیں۔ نظامت کے بہت سے واقعات رقص شرر میں ملتے ہیں ۔خاص طور پر وہ شعرا جو کسی وجہ سے مشاعرہ میں ناکام ہوجاتے تو وہ اپنی ناکامی کا سبب ناظم مشاعرہ کو قرار دیتے کہ میرا مناسب تعارف نہیں کرایا گیا یا مجھے فلاں شاعر سے پہلے پڑھوا دیاوغیرہ وغیرہ ۔ ایسا ہی واقعہ نیاز حیدر کا تھا جسے رقص شرر میں ڈاکٹر صاحب نے تحریر کیا ہے ۔
 گزشتہ شب میں نے مؤ میں جس طرح نیازحیدر کا تعارف کرایا تھا اس سے وہ مطمئن نہ تھے ۔چنانچہ اعظم گڑھ کے مشاعرہ میں انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کا تعارف نہ کراؤں اور صرف ان کا نام پکارلوں۔چنانچہ جب ان کی باری آئی تو میں نے کہا ۔‘‘حضرات جی تو چاہتا تھا کہ تفصیل سے تعارف کراؤں مگر چونکہ خود شاعر نے منع کردیا ہے اور یہ کہا ہے کہ صرف ان کا نام پکارا جائے ۔اس لیے میں صرف اتنا ہی عرض کرسکتا ہوں کہ آنے والے شاعر کا نام نیاز حیدر ہے ۔(ایضاًص:۱۴۵)
ساغر نظامی کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ جس مشاعرہ میں بھی ان کا تعارف میں نے کرایا انھیں وہ کام یابی نہیں مل سکی جس کا وہ خود کو مستحق سمجھتے تھے ۔ملک زادہ منظور احمد کا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ ان کا وہ کلاسیکی موسیقی والا ترنم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ قصہ پارینہ بنتا جارہا تھا:
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک بارجب وہ(ساغر نظامی ) مشاعرہ میں ہوٹ ہوئے تو ان کے بھائی شہر یار پرواز نے اس حادثے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی...آج نہ تو آپ نے ان کا تعارف تفصیلی انداز میں کرایا اور نہ مناسب موقع پر دعوت سخن دی ۔(رقص شرر:۲۳۵)
کچھ دنوں بعد غالب صدی کا ایک مشاعرہ کان پور میں ہوا ،جس کا افتتاح اترپردیش کے گورنر بی ۔بالا ریڈی نے کیا ۔اس مشاعرہ میں ساغر نظامی بھی شریک تھے ۔اس مشاعرہ میں ملک زادہ صاحب کے اندازہ تعارف نے ساغر نظامی کو بے حد کامیاب کیا ۔رقص شرر کے مطابق اس دن میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ آج چاہے جو کچھ ہوجائے مجھے اپنے انداز تعارف سے ساغر صاحب کوبہر صورت کام یاب کرانا ہے ۔چنانچہ جب ان کی باری آئی تومیں نے ان کا تعارف کھڑے ہوکر کرایا ۔اردو کی رومانی تحریک میں ان کا جو ادبی حصہ رہا اس کی مبالغہ آمیز تصویر پیش کی اور جب اس پر بھی مجھے ان کی کامیابی کا یقین نہیں ہوا تو میں نے ان کے قلبی دورہ کا تذکرہ کرکے سامعین کی ہمدردیوں کو ان کے حق میں بیدار کیا اور ساغر صاحب نے غزل شروع کی ،اور ان کے ایک ایک شعر پر چھتیں اڑگئیں ،دادو تحسین کا یہ منظر ابھی تک کسی مشاعرے میں ،میں نے نہ دیکھا تھا ۔(رقص شرر:۲۳۶) 
 
نصف صدی تک مشاعروں کا مرکزی کردار رہنے والے پروفیسر ملک زادہ
منظور احمد کے حالات زندگی پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے مشاعرہ کے لیے خاص تیاری اور اہتمام کیا تھا یہاں تک کہ بعض جملوں کو زبانی یاد بھی کیا تھا۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر ایسا کوئی موقع آئے تو نظامت کے لیے باقاعدہ تیاری بھی کرنی چاہیے ۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب کبھی گئے نہیں تھے لیکن یہاں کے ادیبوں کی تحریروں سے علی گڑھ کو سمجھنے کی ضرور کوشش کی تھی ۔پہلی باضابطہ حاضری شعرا کے تعارف کی تھی ۔مشاعرہ میں انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس طرح کیا :
جناب صدر ،خواتین و حضرات !یہ میرے لیے باعث اعزاز و افتخار ہے کہ آج میں اس دانش گاہ میں شعرا کے تعارف کے لیے مدعو کیا گیا ہوں جس کی ادبی افق پر اسلاف و معاصرین کے کارناموں کی زریں کہکشاں کھینچی ہوئی ہے ۔(رقص شرر:۱۴۸)
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ‘ ان چند جملوں نے جو میں نے زبانی یاد کرلیے تھے جادوکا کام کیا’،دہلی کلاتھ مل،مشاعرہ جشن جمہوریت لال قلعہ،اور اس طرح کے دیگراہم مشاعروں میں پہلے دن سے اپنی انداز تعارف سے نظامت کے جھنڈے گاڑ دینا اور کئی دہائیوں تک اس فریضہ کی انجام دہی آسان نہیں تھی۔
 دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے میں اپنی شرکت کے روز اول ہی سے میں نے اپنی نظامت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلسل پچیس چھبیس برس تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔کچھ دوسرے لوگ ضرور آزمائے گئے مگر وہ کامیاب نہ ہوئے ...ان مشاعروں میں پاکستان کے جن اہم شعرا سے میرا رابطہ پیدا ہوا ان میں خصوصیت کے ساتھ فیض احمد فیض ،حفیظ جالندھری ،شوکت تھانوی ،پروین شاکر،زہرہ نگاہ ،ساغر نظامی،سلام مچھلی شہری،حمایت علی شاعر،شہریار،احمد فراز ،افتخار عارف،جون ایلیا،ماہر القادری،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔(ص:۲۵۶)
 ڈاکٹر صاحب کے انداز تعارف کی اہم خوبی اس کا اختصار تھا لیکن اس کے علاوہ مشاعروں میں شعرا کے تعارف کے حوالے سے بہت سے ایسے جملے ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے تخلیق کیے ہیں اور یہ جملے شعرکی طرح مشہور ہیں ۔اس نوع کے جملوں یا انداز کی کاپی کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر اصل اور نقل کا فرق واضح ہوجاتاہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
شاعر کے کلام میں چاہے حدیث حسن رہی ہو یا حکایت روزگار، غم جاناں کی بات رہی ہو یا غم دوراں کا تدکرہ ،زمین کے ہنگامے رہے ہوں یا اندیشہ ہائے افلاکی ،آرائش خم وکاکل رہی ہو یا اندیشہ ہائے دوردراز بہر حال ابھی تک یہ محسوس ہورہا تھا کہ ان کے الفاظ کے زیروبم میں آپ کے دلوں کی دھڑکنیں شامل ہوگئی تھیں۔ 
ایک دوسرے تعارف میں وہ کہتے ہیں :
حسن و عشق ،ناز ونیاز ،ہجر و وصال ،شوق و انتظار کی باتیں ہم لوگ اکثر کیا کرتے ہیں لیکن عزم کی باتیں ،استقلال کی باتیں ،بصائر و تاملات کی باتیں کم لوگ کرتے ہیں اس کے لیے میں دعوت سخن دے رہا ہوں ...
ڈاکٹر صاحب کا یہ تعارفی جملہ بھی خوب ہے ۔متعدد بار معمولی تبدیلی کے ساتھ اسے سننے کا موقع ملا بعض شعرا کے کلام پر مقدمہ کے طورپر بھی یہ حصہ ملتا ہے وہ کہتے ہیں :
...ان کے کلام میں روایت کے صنم کدوں کا نورہے اور ماضی کے مقدس آتش خانوں کی آنچ بھی ہے ۔حسن و عشق ،ناز ونیاز ،ہجر و وصال ،شوق و انتظارکے موضوعات بہت خوب صورت انداز میں ابھر کر سامنے آئے ہیں مگر اسی کے ساتھ غزل کی ریزہ کاری سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے ان ناہمواریوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو ہمارے معاشرے میں چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ۔
یہ اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔وہ مشاعرے جویوٹیوب پر محفوظ ہیں ان سے کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ۲۰۱۰کے بعد تک آپ نے مشاعروں کی نظامت فرمائی ۔دلی اردو اکیڈمی کا جشن جمہوریت کا مشاعرہ لال قلعہ کے سبزہ زار پر ہوتا ہے ،متعدد بار ڈاکٹر صاحب کو وہاں سننے کا اتفاق ہوا ۔اس وقت بھی یہی احساس تھا اور آج بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب شعرا کا تعارف کراتے تھے تو دل یہ کہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں مگراب جس انداز سے شاعروں کا تعارف کرایا جاتا ہے اسے سن کر یہی دل کہتا ہے کہ کتنی جلد ناظم صاحب اپنی گفتگو سمیٹ لیں ۔خود ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا احساس تھا ۔انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :
اس صدی کی پانچویں دہائی میں جب میں مشاعروں میں آیا تو وہ نسل باقی تھی جو آزادی کے پہلے پیداہوئی تھی اوراس کا رشتہ اردو زبان و ادب کے ساتھ استوار تھا مگر رفتہ رفتہ حالات کے دباؤ سے سامعین کا رشتہ اردو زبان سے کٹتا چلا گیا اور مشاعروں میں شعرا کا تعارف عوامی جذب و شوق کا آئینہ دار بن گیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ لطیفہ بازی ہی نہیں بلکہ پھکڑ پن کو جگہ مل گئی اور مشاعرہ کا ادبی اور تہذیبی معیار گر گیا ۔رقص شرر ۲۰۴) 
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد مشاعرہ کو ‘‘اردو کا ادارہ رابطہ عامہ ’’قرار دیتے تھے نیزان کے نزدیک مشاعرہ لسانی جمہوریت کی توسیع کا ایک ذریعہ بھی تھا۔اسی لیے وہ مشاعروں کے ایک کام یاب ناظم ہی نہیں بلکہ ایک معتبر وکیل بھی تھے ۔انھوں نے بارہا کہا کہ یہ ادارہ بذات خود خراب نہیں ہوتا بلکہ لوگ اسے خراب کرتے ہیں ۔
اگر ہم نے مشاعروں کی اصلاح کی جانب توجہ نہ دی تو اردو کا یہ ادارہ رابطہ عامہ غیر معتبر ہاتھوں میں پڑک کر اپنی افادیت کھو دے گا اور سماجی زندگی میں اسے جو مثبت فریضہ ادا کرنا چاہیے نہ کرسکے گا ۔کوئی ادارہ بِذات خود خراب نہیں ہوتا اس سے اچھا اور برا دونوں کام لیا جاسکتا ہے ۔مشاعرہ بھی اسی المیہ کا شکار ہے ۔اس کا دن بدن گرتا ہوا ادبی وقار اور انحطاط پذیر تہذیبی رکھ رکھاؤ،ہماری بے توجہی کے سبب پیدا ہوا ہے ۔اگر ہم توجہ دیں اور شعرا کے انتخاب میں ادبی پہلو کو مد نظر رکھیں تو کوئی وجہ نظرنہیں آتی کہ مشاعرہ دور حاضر میں خاطر خواہ اپنا فریصہ انجام نہ دے سکے ۔(رقص شرر:۲۲۴)
ان چندمثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک شاعری کا ادبی حسن اور اس کی تخلیقی ہنرمندی ضروری تھی مگر اسی کے ساتھ ساتھ عوامی جذب و شوق کو دیکھتے ہوئے وہ شاعری کے اس عوامی لہجے کی طرف بھی اشارہ کرتے تھے جس سے مشاعرہ کے سامعین زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے ۔
پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد نے ایک نعتیہ مشاعرہ کی نظامت بھی فرمائی ۔اس مشاعرہ کے ابتدا میں انھوں نے نعت اور نعتیہ شاعری سے متعلق بہت اہم گفتگو کی ۔ابتدائی گفتگو سے ایک اقتباس بطور مثال یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔یو ٹیوب پر اس مشاعرہ کی تین ویڈیو موجود ہیں ۔
میں اس وقت آپ کے سامنے دو ملے جلے جذبات کے ساتھ کھڑا ہوں پہلا جذبہ تو احساس ندامت کاہے اور دوسرا جذبہ احساس سعادت کا ۔احساس ندامت اس لیے کہ کم وبیش گزشتہ پچاس برسوں سے میں اُن شعرا کا تعارف کرارہا تھا جن کے بارے میں قرآن میں واضح طو رکہاگیا ہے کہ وہ مختلف وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ احساس سعادت اس لیے ہے کہ آج مجھے یہ شرف حاصل ہورہا ہے کہ زندگی میں پہلی بار کہ ایک نعتیہ مشاعرہ میں شعراکا تعارف کرارہا ہوں ۔
 اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کو نہ صرف شعرو ادب کی روایت پر دسترس حاصل تھی بلکہ اس کے اظہار میں بھی غیر معمولی خلاقیت رکھتے تھے ۔ جب تک وہ مشاعروں میں سرگرم رہے ان کی مقبولیت اور محبوبیت میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ مشاعروں کے اسٹیج کی وہ شاہجہانی شخصیت تھی ۔ وہ فن نظامت کے موجد و خاتم بھی تھے۔ان کے جانے سے عوامی اسٹیج کی ایک باغ و بہار شخصیت چلی گئی ہے ۔