کووڈ19کے دورمیں شب برات‘اورمسلمانوں کی ذمہ داریاں’

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
شریعت کی روشنی میں شب برات  کی اہمیت مسلم ہے
شریعت کی روشنی میں شب برات کی اہمیت مسلم ہے

 

 

ڈاکٹرافضل مصباحی

اسسٹنٹ پروفیسر، اردو ایم ایم وی، بنارس ہندویونیورسٹی، وارانسی، اترپردیش

بھارت ہرسال کی طرح امسال بھی ’شب برأت‘کامتبرک موقع ہم سب کونصیب ہورہا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس بابرکت شب کی اہمیت کوذہن میں رکھتے ہوئے اس رات کوعبادت وریاضت کرتے ہیں اور اپنے اہل خانہ، اعزا واقربا اور احباب کوبھی تمام طرح کے خرافات سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ اس وقت پوری دنیا انتہائی خطرناک وباکوڈ19-کے دورسے گزررہی ہے۔ گزشتہ ایک برس میں لاکھوں افراد اس وباکے شکارہوچکے ہیں اور یہ خطرہ ابھی ٹلانہیں ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہے کہ ’شب برأت‘ کی اس متبرک گھڑی کو اپنے لئے، اپنے پڑوسیوں کے لئے، اپنے سماج اورمعاشرے کے لئے مفیدسے مفیدتربنانے کی کوشش کریں۔ایک طرف مسلمانوں کویہ کوشش کرنی ہوگی کہ وہ اس بابرکت رات سے مستفیض ہوں اوردوسری طرف اس رات کسی کوبھی ذرہ برابرشکایت بھی نہ ہو۔اس پرسنجیدگی سے غوروفکرنااور عملی قدم اٹھاناانتہائی اہم ہے۔

اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخروہ کون سے اقدامات ہیں جن کو بروئے کارلاکرمسلمان اس رات کواپنے لئے کارآمداور دوسروں کے لئے مفیدبناسکتے ہیں۔دراصل اس رات اگرمسلمان شریعت کی روشنی میں عبادت وریاضت کااہتمام کریں، غرباء ومساکین اور ضرورتمندوں کواپنی خوشی میں شامل کریں، حکومت کی طرف سے جوہدایات دی گئی ہیں؛ان پرعمل کرتے ہوئے قبرستان جائیں، مساجدمیں عبادت کریں، بلکہ سب سے بہترتویہ ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں عبادت وریاضت کااہتمام کریں توسب سے اچھاہے۔ اس موقع پربھیڑبھاڑسے بچنا، قبرستان میں ایک ساتھ بڑی تعدادمیں اکٹھانہ ہونا، مساجدمیں جسمانی دوریوں کاخیال رکھنا، صاف صفائی اور سینٹائزیشن وغیرہ کی پابندی کرنابے حدضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شب برأت انتہائی بابرکت ہوتی ہے۔ شریعت کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتواس میں قیام کرو(یعنی عبادت کرو)، اور دن کوروزہ رکھو، بیشک اللہ تعالیٰ اس رات(ازراہ شفقت) آسمان دنیاکی طرف نزول فرماتاہے(یعنی رحمت کے لحاظ سے اپنے بندوں کے قریب ہوتاہے)، اورغروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک فرماتاہے،’کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے اورتوبہ کرے کہ میں اس کے گناہوں کومعاف کردوں اوراسے بخش دوں،ہے کوئی طالب رزق جسے میں روزی دوں، ہے کوئی آفت (مصیبت زدہ) جسے میں عافیت عطاکردوں، ہے کوئی فلاح اورحاجت وطلب والاجس کی میں ضرورت پوری کردوں۔ روایتوں میں آتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ شعبان المعظم کی پندرہویں رات آسمان دنیاپرتجلی فرماتاہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہوں کوبخش دیتاہے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے پندرہویں شعبان اور اس میں عبادت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایاکہ میں اس رات کوتین حصوں میں تقسیم کرتاہوں۔ ایک حصے میں اپنے ناناجان پردرودشریف پڑھتاہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتاہوں کہ اس نے حکم دیا،”اے ایمان والو!تم بھی اس پردرود بھیجاکرواورخوب بھیجاکر“۔ رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے فرمایاکہ (اورنہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والاکہ وہ اس سے مغفرت طلب کررہے ہوں)اوررات کے تیسرے حصے میں نماز(نوافل)پڑھتاہوں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پرعمل کرتے ہوئے ”واسجد واقترب“۔ مسلمانوں کوبھی چاہئے کہ وہ اس رات کو زیادہ سے زیادہ درودشریف کاوردکریں، استغفارکریں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اللہ سے مانگیں، گناہوں کی توبہ کریں، مرحومین کی مغفرت کے لئے دعاکریں، عالم انسانیت اور اپنے دیش کی ترقی کے لئے رب کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائیں۔ لیکن آج کاالمیہ ہے کہ عام طورپرمسلمان اس رات کولہوولعب اوربیکارکی رسومات میں ضائع کردیتے ہیں۔ پٹاخے چھوڑنا، راتوں کوبرق رفتار کے ساتھ سرپھرے نوجوانوں کابائک اسٹنٹنگ کرنا، چوک چوراہوں پر گپ شپ لڑانا، آپس میں توتومیں میں کرنا، قانون کواپنے ہاتھوں میں لینا، محلے میں شورشراباکرنا، قبرستانوں میں جمع ہوکربیکارکی باتیں کرنا، راہ چلتے لوگوں سے نوک جھونک کرنااوردوسروں کواذیتیں پہنچاناوغیرہ اس رات کوعام چکاہے۔ جویقینی طورپربے حد شرمناک اورقبیح حرکت ہے۔ اس طرح کاپیغام دوسروں تک جانابے حدافسوسناک ہے۔ اس پہلوپرسنجیدگی سے غوروفکرکرنااور عملی اقدامات کرناضروری ہے۔

یادرکھیں! مبارک موقع پرجوگناہ کیاجاتاہے اس کی سزابھی دوسرے ایام سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگراس رات عبادت کاثواب بہت زیادہ ہے تودوسری طرف اس رات گناہ کی سزابھی نسبتاًزیادہ ہوگی۔ تہواروں کاجوموقع ہمیں نصیب ہوتاہے وہ بہت ساری ذمہ داریو ں کوساتھ لے کرآتاہے۔ جیسے ایک ماہ روزہ رکھنے کے بعد عیدنصیب ہوتی ہے لیکن عید کی نمازسے قبل صدقہئ فطردینا واجب قراردیاگیاہے، تاکہ غرباومساکین بھی دوسرے مسلمانوں کی خوشی میں شامل ہوسکیں، اسی طرح عیدالاضحی کے موقع پرقربانی کے جانورکے گوشت کے تین حصے کرنے کاحکم دیاگیاہے۔ ان تین حصوں میں سے ایک حصہ اپنے لئے، دوسراحصہ رشتہ داروں کے لئے اورتیسراحصہ غریبوں کے لئے مختص کرنے کاحکم دیاگیاہے۔ اسی طرح شب برأت کے موقع پراگرہم لذیذکھاناپکاتے ہیں تواس کاایک حصہ ہمیں اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غرباومساکین کوبھی ضروردیناچاہئے۔ یہ ایساسنہراموقع ہوتاہے کہ اگرہم اپنی خوشی میں اپنے اہل خانہ، پڑوسی اورضررتمندوں کوشامل کرتے ہیں تواس کی افادیت دوبالاہوجاتی ہے۔ پڑوسی کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب کاماننے والاہو، ان کواپنی خوشی میں شامل کرناہمارادینی اوراخلاقی فریضہ ہے۔ اس طرح کے مواقع کو صحیح طورپراستعمال کرنا، اپنے اور دوسروں کے لئے انہیں مفیدبنانااورعالمی برادری کوان مواقع کے تعلق سے مثبت پیغام دینااپنے آپ میں قابل تحسین اور لائق ستائش اقدامات ہیں۔ مجھے پوری امیدہے کہ میری اس تحریرکے قارئین ان گزارشات پرغورفرمائیں گے اور اپنے معمولات کوشریعت کی روشنی میں مرتب کرنے کی کوشش کریں گے۔