شب برات۔۔۔ رحمتوں، برکتوں والی رات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
عبادت کی رات
عبادت کی رات

 

 

لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی ۔ "

سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی،ج2،ص182، حدیث: 736)

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی،ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً)

معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص290)

 بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان، پ25، الدخان،تحت الآیۃ:3،ج8،402) 

اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لیے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ، جز: 3،ج2،84 ملخصاً) 

بہت سے مفسرین نے سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 (انا انزلناه فی ليلة مبارکة) کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں۔

 اس رات میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اس رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔

 اس رات میں رحمت کا نزول ہوتا ہے۔

 اس رات میں شفاعت کا اہتمام ہوتا ہے۔

 اس رات بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔

(زمخشری، الکشاف، 4: 272 تا 273)

شب برات کی وجہ تسمیہ۔

 اس مبارک رات کو شب برات کہا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ شب کا معنی رات اور برات کا معنی نجات حاصل کرنا، بری ہونا ہے۔ عربی میں اسے لیلۃ البرات کہا جاتا ہے۔ لیلۃ بمعنی رات جبکہ البرات کا معنی نجات اور چھٹکارا کے ہیں۔ علماء کرام بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ رات گناہوں سے چھٹکارے اور نجات پانے کی رات ہے بایں وجہ اسے شب برات کہا جاتا ہے۔

 شب برات قرآن کی روشنی میں۔

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 میں اس مبارک رات کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا۔

 انا انزلناه فی ليلة مبرکة۔

بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) ایک بابرکت رات میں اتارا ہے‘‘۔

-(الدخان، 44: 3) مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں لیلۃ مبارکۃ (بابرکت رات) سے مراد کون سی رات ہے۔ اس بارے علماء کرام کے دو اقوال ہیں۔ صاحب ضیاء القرآن نے دو اقوال اسی آیت کے تحت نقل کئے ہیں۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، قتادہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے کیونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔

انا انزلناہ فی لیلۃ القدر

حضرت عکرمہ اور ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ پندرہ شعبان کی رات تھی۔

 اسی طرح صاحب خزائن العرفان رقمطراز ہیں۔

 اس رات سے مراد شب قدر مراد ہے یا شب برات۔ اس شب میں قرآن پاک بتمام لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا۔ پھر وہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑ اتھوڑا لے کر نازل ہوئے۔ اس شب کو شب مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس میں خیرو برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔

شب برات احادیث کی روشنی میں۔

حضرت امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

اذا کان ليلة النصف من شعبان فاذا مناد هل من مستغفر؟ فاغفرله، هل من سائل؟ فاعطيه، فلايسئل احد ا عطی الا زانية بفرجها اومشرک ۔

 ’’جب نصف شعبان کی شب آتی ہے تو ندا کرنے والا پکارتا ہے: کوئی ہے جو گناہوں سے مغفرت چاہے؟ میں اسے معاف کردوں۔ کوئی مانگنے والا ہے کہ اسے عطا فرمائوں؟ پس کوئی سائل ایسا نہیں مگر اسے ضرور دیا جاتا ہے، بجز زانیہ عورت یا مشرک کے‘‘۔

(بيهقی، شعب الايمان، 3: 383، رقم الحديث: 3836) حضرت امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جناب سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

 اذا کانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها فان الله ينزل فيها لغروب الشمس الی سماء الدنيا، فيقول: الا من مستغفرلی؟ فاغفرله، الامسترزق؟ الا مبتلی فاعافيه، الاکذا الا کذا حتی يطلع الفجر۔

’’جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور فرماتا ہے: کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ اسی طرح صبح تک ارشاد ہوتا رہتا ہے‘‘۔

(ابن ماجه، السنن، رقم: 1388) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

نصف شعبان کی رات رحمت خداوندی آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک کے یا جس کے دل میں کینہ ہو۔

(شعب الايمان، رقم: 3827)

شب برات اور معمول مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

حضرت ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں نے ایک رات سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری حق تلفی کریں گے۔

میں نے عرض کیا: یارسول اللہ!( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

 ان الله تبارک وتعالیٰ ينزل ليلة النصف من شعبان الی سماء الدنيا فيغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب۔

’’بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخشش دیتا ہے‘‘۔

(سنن الترمذی، رقم الحديث: 739) مندرجہ بالا تمام روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے نصف شعبان المعظم کی یہ عظیم مقدس شب ہمارے لئے اللہ سبحانہ کی طرف سے رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کی نوید سعید لے کر آتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس شب کی برکتوں کو سمیٹیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔