سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-03-2021
 تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ترقی اور فروغ کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ترقی اور فروغ کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا

 

 

awazthevoice

 ڈاکٹرعبیدالرحمن ندوی،استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء

   یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اسلام ترقی اور فروغ کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہاہے۔تاریخ دنیا کے دیگر مذاہب کی سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے کی ایک بھی مثال نہیں پیش کرسکتی ہے جیسا کہ اسلام نے اداکیاہے۔بیسویں صدی کے معروف عالم دین مفکراسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے الفاظ میں:- ”یورپی احیاء کاکوئی واحد گوشہ نہیں ہے جو اسلامی فکر کامقروض نہ ہو۔

اسلام نے یورپ کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ محمد اسدنے اپنی کتاب ”اسلام ایٹ دی کراسروڈس “ میں بالکل صحیح کہاہے کہ:- تاریخ بغیر کسی شک کے امکان کے یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی مذہب نے سائنسی ترقی کو اتنی ترغیب نہیں دی ہے جتنی کہ اسلام نے دی ہے۔ تعلیم اورسائنسی تحقیق کو جو حوصلہ افزائی دین اسلام سے ملی اسی کے نتیجہ میں عہدبنی امیہ، عہد عباسی اور عربوں کے اندلس میں دور حکومت کے دوران شاندار ثقافتی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

یورپ کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ یہ اسلام کا اتنا ہی مقروض ہے جتنا کہ صدیوں کی تاریکی کے بعد نشأۃ ثانیہ کا۔میں اس کا ذکرا س لئے نہیں کررہاہوں کہ ہم خود پرفخرکریں ان شاندار یادوں میں کھوکرایک ایسے وقت جب عالم اسلام نے اپنی سنت بھلا رکھی ہو اوراندھے پن اور ذہنی افلاس کا شکار ہوچکا ہو۔ہمیں حق نہیں حاصل ہے کہ اپنی موجودہ بدبختی کے ساتھ ماضی کے کارناموں پر فخر کریں۔ بلکہ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ یہ مسلمانوں کی غفلت تھی نہ کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی کمی تھی جو موجودہ بربادی کا سبب بنا۔ انہیں خیالات کا اظہار مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی، ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ اور صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی کیاہے:- ”قرون وسطیٰ میں جب یورپ تاریکی اور جہالت کے دور سے گزررہاتھا مسلم دنیا میں علماء، مفکرین، ماہرتعلیمات اور طبعی اور سماجی علوم کے ممتاز اساتذہ پیداہورہے تھے۔

مسلم سائنسدان اسلام کے عہد زریں کے دوران

یورپی مصنفین نے بسااوقات اس بات کااعتراف بھی کیا ہے کہ یورپ نے ترقی کی راہ پرقدم بڑھانے سے قبل چھہ سوسالوں تک مسلمانوں کی تحقیقات کو سیکھا اور اس سے استفادہ کیاہے۔ مارکوئس کے الفاط میں:- ”یہ مسلمانوں کاہی علم تھا، مسلمانوں کاہی فن تھا اور مسلمانوں کا ہی ادب تھا کہ جس کا یورپ بڑی حد تک مقروض ہے قرون وسطی کی تاریکی سے نجات حاصل کرنے میں“۔ ڈاکٹر رابرٹ بریفالٹ نے بالکل صحیح بیان کیاہے کہ یورپ میں سائنس کی نشوونما تحقیق کے نئے جذبے، تفتیش کے نئے طریق کار،تجرباتی طریق کار، مشاہدہ، پیمائش، ریاضی کافروغ ایک ایسی شکل میں جو یونانیوں کے لئے غیر معروف تھاکے نتیجے میں ہوئی۔ اور وہ جذبہ اور وہ طریق کار یورپی دنیا میں عربوں (مسلمانوں) کے ذریعہ متعارف ہوئی تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے علم کی بنیاد ارسطو کے استخراجی طریقے ڈدکتیوے میتھڈ پر تھی۔ یہ واضح رہے کہ استخراجی طریقہ کسی نئے علم کا تصور پیش نہیں کرتابلکہ یہ پرانی چیز کی تصدیق کاتصور پیش کرتاہے۔ یہ انسان کو دوسرے پر بھروسہ کرنے والا بنادیتاہے۔جبکہ اس کے برخلاف اسلام نے استقرائی طریقہ کا تصور پیش کیاہے۔ یہ وہ طریقہئ تصور ہے جونئے نئے علوم کا راستہ دکھاتاہے اور نئی تحقیق وجستجو کی طرف گامزن کرتاہے۔ یہ وہی نقطہئ نظر اور طریقہئ کار ہے جس سے سائنس کے سفر کا آغاز ہوتاہے اور بعد میں یہی استقرائی طریقہ غیر معمولی علمی اور سائنسی ارتقاء کے لئے بہت زیادہ ممد ومعاون ثابت ہواہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مسلمان سائنسدانوں نے نہ کہ صرف سائنس کی حقیقی خدمت کی بلکہ ٹکنالوجی کی بھی کی۔ دیگرالفاظ میں، انہوں نے اپنی سائنسی تحقیقات کا عملًا استعمال کیا۔ انہوں نے ستاروں کا مشاہدہ کیا،اور جہاز رانی کے لئے کوکبی نقشے بنائے۔ ابن یونس نے وقت پیمائی کے لئے پنڈولم کا استعمال کیا۔ ابن سینا نے ہوائی تپش، کاغذ، قطب نما، بندوق، بارود، مسلمان سائنسدانوں کی سائنسی اور تکنیکی ترقیوں کے غیر نامیاتی نظائر جس نے انسانی تمدن میں ایک بے نظیر انقلاب بپا کردیا کا استعمال کیا۔ (اسلام اینڈ اے وولوشن آف سائنس صفہ 15)

سائنس کی مختلف شاخوں پر ممتاز مسلم مصنفین کی تحریر کردہ کچھ اہم کتابوں کا حوالہ دینا بے محل نہ ہوگا:- الفارابی(ابو نصر محمد بن محمد ف ۹۳۳ھ) کی”احصاء العلوم“، چوتھی نصف صدی ہجری کی ”رسائل اخوان الصفا و خلان الوفاء“،الخوارزمی (محمد بن احمد بن یوسف، ف ۷۸۳ھ) کی ”مفاتیح العلوم“،ابن الندیم(محمد بن اسحاق، ف ۸۳۴ھ) کی ”الفہرست“، ابن سینا ، (ف ۸۲۴ھ) کی ”اقسام العلوم العقلیۃ“، ابن حزم (ف ۶۵۴ھ) کی ”مراتب العلوم“، الابیون(ابو المظفر محمد بن محمد ف ۷۰۵ھ) کی ”طبقات العلوم“، ابن خلدون(ف ۸۰۸ھ) کی ”المقدمۃ“، طاش کبری زادہ (ف ۸۶۹ھ) کی ”مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ فی موضوعات العلوم“، حاجی خلیفہ(ف ۷۶۰۱ھ) کی ”کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون“، تھانوی(محمد بن علی ف بعد ۸۵۱۱ھ) کی ”کشاف اصطلاحات العلوم“اور نواب صدیق حسن قنوجی(ف ۷۰۳۱ھ) کی ”ابجدالعلوم“۔ 

(Classification of Sciences in Islamic Thought Between Imitation and Originality, Page 8-9)

(.....جاری)