جامعہ مظاہر علوم کی خدمات: آزادی کے امرت مہوتسو کے حوالے سے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-01-2022
		جامعہ مظاہر علوم کی خدمات: آزادی کے امرت مہوتسو کے حوالے سے
جامعہ مظاہر علوم کی خدمات: آزادی کے امرت مہوتسو کے حوالے سے

 

 

awazthevoice

 

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

ہماری آزادی کا ہر قصہ اس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم اپنے ان بزرگ علماء اور دانشور کو یاد نہ رکھیں جنہوں نے جان دے دی لیکن انگریزوں کے آگے سر نہ جھکایا۔ دہلی، میرٹھ، شاملی، لکھنؤ اور نہ جانے کن کن شہروں اور قصبوں میں ان لوگوں کی جرأت و ہمت، غیرت و حمیت اور عزم و حوصلے کی تاریخ کے نقوش آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے علماء نے سوچا کہ وہ وطنِ عزیز یعنی ہندوستان جنت نشان کو انگریزوں کی غلامی سے فی الحال نہیں روک پائے ہیں لیکن انہیں کم سے کم اپنے دین کو بچانے کی تدبیریں کرنی چاہئیں تاکہ اپنی نئی پیڑھیوں کو عیسائی مذہب کے بڑھتے ہوئے آسیب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اسی جذبے کے تحت 30 مئی 1866ء کو دیوبند میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی۔

دیوبند میں اس پہل کے بعد تقریباً 36؍کلومیٹر کے فاصلے پر سہارنپور میں صرف چھ مہینے بعد1866ء میں ہی ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کو ہم اور آپ جامعہ مظاہرعلوم کے نام سے جانتے ہیں۔ جس نے سب سے پہلے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری اور بعد ازاں مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور ان کے بعد شیخ الحدیث مولانا محمدز کریا صاحب کی رہنمائی میں علوم ربانی اور اسوہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ضیاپاشیوں سے ایسا نور پھیلایا کہ 150 ؍سالسےزیادہ کے عرصے میں دنیا جہان میں آج وہاں سے اسناد فضیلت لے کر اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پھیلانے والے فاضلین حقوق اللہ اور حقوق العباد تبلیغ و ترویج اور اشاعت میں لگے ہوئے ہیں۔

جامعہ مظاہر علوم کی مہتم بالشان تاریخ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے جڑے ہوئے تمام اکابرین کی سرپرستی اسے ہمیشہ سے حاصل رہی ہے اور شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا صاحب جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اس کے اکثر صاحبان علم و فضل اور رشد وہدایت کا تعلق کاندھلے ہی سے رہا ہے۔ جماعت تبلیغ جس کا شہرہ اس نفسا نفسی کے زمانے میں اپنی بے نفسی، ایثار پیشگی، مسلمانوں کو سچا مسلمان بنانے اور خدا سے ان کے رشتوں مضبوط کرنے میں صَرف ہوتی ہے اس کے بانی اور بعد میں ان کے جانشین اسی ادارے کے فیض یافتگان میں سے رہے ہیں۔ ان میں آج کل ایک بڑا نام اپنی علمی فتوحات، دینی تبحر اور اخلاق کریمانہ کے لئے جامعہ مظاہرالعلوم کے امینِ عام مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری کا ہے جو کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا صاحب کے نواسے ہیں۔ مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری کا وقت یا تو عبادت کرنے میں گزرتا ہے یا عبارت آرائی میں۔ وہ یا تو پڑھتے ہیں یا پھر لکھتے ہیں اور دین کے ہر ممکنہ موضوع پر ان کی تحریریں ہمارے دل و دماغ کو روشن کرتی ہیں اور صراط مستقیم پر چلنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔

ابھی کووڈ۔19کی قہرسامانی سے کچھ پہلے مولانا شاہد صاحب کی ایک نہیں چار جلدوں میں تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے عنوان سے کتابیں سامنے آئیں، ان کی رسمِ رونمائی بھی ایک بڑے جلسے میں مظاہر علوم کی عمارت میں ہوئی جس میں مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم سمیت دیگر علماء اور دانشور شامل ہوئے اور سب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تحریک آزادی ہند پر جو کچھ مولانا سید محمد شاہد صاحب نے ان چار جلدوں میں جمع کر دیا ہے اس سے ابھی تک ہم سب بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان چار جلدوں میں تقریباً 122؍حضرات کے حالات اور آزادی ہند کے حصول کے لئے ان کی جدوجہد کا تذکرہ مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری کی قلم سے ہمیں پڑھنے کو تو ملتا ہی ہے ساتھ میں انہوں نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خاندان کی قربانیوں اور دیگر علماء کے مجاہدانہ عزائم پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ جس سے کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں، اداروں کی تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ وطن دوستی، انسان دوستی اور حصول آزادی کے لئے پیدا کی گئی تحریکیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت اور ضروری ہے کہ 1896ء میں سرسید کے قریبی ساتھی اور ان کے بعد ان کے جانشین نواب محسن الملک مظاہر علوم کے ذمہ داروں کی دعوت پر ادارے میں تشریف لائے اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد مہاجر مدنیؒ، مولانا حافظ محمد احمدؒ، مہتمم دارالعلوم دیوبند اور مولانا حکیم سید محمد اسحاق سہارنپوریؒ کی موجودگی میں جو سپاس نامہ پیش کیا گیا اس میں پُرزور لفظوں میں اس خیال کی تردید بھی کی گئی کہ ارباب مدرسہ اسلامیہ انگریزی تعلیم کو برا سمجھتے ہیں۔اس طرح سے اس الزام بلکہ اتّہام کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ ہمارے علماء دین انگریزی تعلیم کے مخالف تھے۔ بلاشبہ ان کے یہاں ترتیب کی ادلا بدلی پر زور ہو سکتا ہے، دین اور دنیا کی تعلیم میں ترجیح کسے دی جائے اس پر ان کی رائے سرسید اور ان کے رفقاء سے الگ ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ سارے کے سارے علماء کلّی طور پر انگریزی زبان اور جدید علوم کی تعلیم کے مخالف تھے، صحیح نہیں ہوگا۔

مولانا سید محمد شاہد صاحب سہارنپوری نے جامعہ مظاہر علوم کے امین عام کی ذمہ داریوں کے ساتھ جو علمی و تحقیقی کام کئے ہیں وہ سب بھی بلا شبہ قابل قدر ہیں لیکن چار جلدوں میں ان کی یہ علمی اور تحقیقی کاوش ’’تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور ‘‘ اس اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں انہوں نے بغیر کسی عصبیت کے انتہائی علمی دیانت کے ساتھ خانوادہ شاہ ولی اللہ کی کوششوں اور اس کے بعد سے 1947ء تک جو دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سے وابستہ بزرگوں کا رول رہا ہے اس کو بلا کام و کاست بیان کر دیا ہے اور ان تمام لوگوں کے مجاہدانہ عزائم اور کارناموں سے ہمیں واقف کرایا ہے کہ اگر چار جلدوں میں یہ کتاب ہمارے سامنے نہ ہوتی تو ہم ان میں سے زیادہ تر کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوتے۔ اور آخر میں یہ بھی کہتے چلیں تو غلط نہ ہوگا کہ جو کام یونیورسٹیوں کو کرنا چاہیے تھا وہ مدرسے کے ایک بوریہ نشین نے ممکن کر دکھایا۔خدا مولانا شاہد صاحب کو اس کے لئے جزائے خیر عطا فرمائے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز)ہیں۔