ہندوستان کا سیکولر معاشرہ اورصوفیہ کی تعلیمات

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 9 Months ago
ہندوستان کا سیکولر معاشرہ اورصوفیہ کی تعلیمات
ہندوستان کا سیکولر معاشرہ اورصوفیہ کی تعلیمات

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

          ہندوستان کا سماج، تکثیری ہے جہاں مختلف نظریات اورمختلف مذاہب کے لوگ رہتے سہتے ہیں۔یہاں سینکڑوں بولیاں اور زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہزاروں قسم کے کلچر ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوتے ہیں۔اس معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ الگ الگ مذاہب پر عمل کرنے والے اور الگ الگ تہذیبی پس منظر کے لوگ ایک دوسرے کے نظریات کا حترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہوتے ہیں۔ایسے سماج کے لئے ”سیکولر“کا لفظ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے اور صوفیہ کی تعلیمات بھی یہی سبق دیتی ہیں کہ تمام انسان ایک اللہ کی مخلوق ہیں اور ان سبھوں کو متحد ہوکر رہنا چاہئے۔فارسی کے صوفی شاعرشیخ سعدی کے کچھ مصرعے اقوام متحدہ میں درج ہیں:

بنی آدم اعضائے یک دگرند

کہ درآفرینش زیک جوہرند

چوعضوے بدرد آورد روزگار

دگر عضوہارا نماند قرار

          یعنی تمام انسان ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح ہیں اور جب زمانہ کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچاتا ہے تو دوسرے اعضاء کو بھی بے چینی ہوتی ہے۔دراصل سعدی شیرازی نے مندرج بالا مصرعوں میں تصوف کی روح کو بیان کیا ہے۔ نفرت اور تشدد سے بھری ہوئی دنیا میں اسی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس سماج میں رہتے سہتے ہیں،اس میں ہر کسی کو ہمارے نظریات سے اتفاق ہو یہ ضروری نہیں۔ ایسے میں اتفاق اسی بات پر ہونا چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے باہمی محبت ویکجہتی کے ساتھ رہیں۔ آج کی دنیا میں ایسے معاشرے کو سیکولر کہا جاتا ہے،حالانکہ اس کی معنویت الگ الگ ملکوں میں مختلف ہے۔

 آئین ہند میں ”سیکولرازم

           آئین ہند کی طرف سے ہندوستان کو”سیکولر ریاست“ قرار دیا گیا ہے۔  1950 میں آئین کے نافذ ہونے کے قریب 26 سال بعد 42 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے دیباچے میں ”سیکولر“ اور ”سوشلسٹ“ الفاظ کوشامل کر دیا گیا۔ تب ملک میں ایمرجنسی لگی تھی۔ تاریخی طور پر ہندوستان میں تمام مذاہب ونظریات کا احترام زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ملک کا اپنا کوئی سرکاری  مذہب نہیں ہے۔البتہ انفرادی طور پر ہر شخص کو اپنے مذہب اور نظریات کی تبلیغ کی اجازت ہے۔ تمام شہریوں کے مذہبی عقائد قانون کے سامنے برابر ہیں۔

ہندوستان کا سیکولر معاشرہ اور صوفیہ کی تعلیمات

          ہندوستان میں لفظ”سیکولر“ کا مطلب ہوتا ہے”مذہبی غیرجانبداری“ یعنی عوام کا مذہب ہوسکتا ہے مگر حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور وہ تمام مذاہب کا احترام کریگی۔ یہاں ”سیکولر“ کہہ کرکثرت میں وحدت کا مطلب بھی لیا جاتا ہے۔ یہاں اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب پر عمل میں آزاد ہے۔ یہاں سیکولرزم کے مقابلے میں ”کمیونلزم“کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ ٹھیک یہی نظریہ صوفیہ کا رہاہے کہ حکومت کا کام ہے ملک کا انتظام وانصرام۔ عوام اپنے مذہب اور طور طریقے میں آزاد ہیں۔ حکومت کسی بھی طرح ان کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتی۔ یہاں ایک تاریخی واقعے کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہونگا۔

چودہویں صدی عیسوی کی بات ہے جب کشمیر میں سلطان سکندر کی حکومت تھی۔ اس کا ایک وزیر تھا سویہ بھٹ،جس نے حضرت شاہ ہمدان کے بیٹے میرسید محمدہمدانی کے ہاتھ پراسلام قبول کرلیا تھا اور اس کا نیا نام سیف الدین رکھاگیا تھا۔یہ اپنے نئے مذہب کے معاملے میں جتنا پرجوش تھا،اتنا ہی اسے اپنے پرانے مذہب سے نفرت تھی۔اس نے کئی مندروں کو مسمار کرادیاتھا اور غلط رسموں،رواجوں پرسختی کرتاتھا۔اس سختی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے پرانے ہم مذہب اس کے تبدیلیئ مذہب کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے۔میرسید محمدہمدانی کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیااور کہا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے  ”لااکراہ فی الدین“اس لئے مذہبی معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی۔نہ کسی کا مذہب زبردستی بدلوایا جا سکتا ہے اور نہ کسی مندر کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔آپ کے حکم کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اور باردشاہ نے اجازت دی کہ اگر کسی سے جبراً تبدیلی مذہب کرایا گیا ہوتو وہ اپنے پرانے مذہب کی جانب لوٹ سکتا ہے۔

صوفیہ کے احترام کا سبب

          اگر ہم ریاست، سیاست اور مذہب کے باہمی رشتوں کو روبرو رکھ کر دیکھیں تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کچھ مذہبی روایات، تمام مذاہب کے لوگوں کو متاثر کرتی آئی ہیں۔ جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی صوفیانہ روایات اسی کا حصہ ہیں۔مذاہب انسان کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور انھیں بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ماننے والوں نے خدا کے نام پر اس کے بندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ تصوف وہ نظریہ ہے جو مذہبی شناخت سے اوپر اٹھ کر پوری انسانیت کے اتحاد کی بات کرتا ہے۔شاید یہی سبب ہے کہ لوگوں کے دلوں میں صوفیہ سے عقیدت کا دریا موجزن ہے اور وہ بلاتفریق مذہب وملت ان کے آستانوں پر چلے آتے ہیں۔

برصغیرہندوپاک میں ہزاروں صوفیہ کے مزارات ہیں اور ان کا احترام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی کرتے ہیں اور اس کا سبب مذہب کے معاملے میں صوفیہ کا غیرجابرانہ نظریہ ہے۔ اگر آپ جی ٹی رووڈ سے سفر کریں توکلکتہ سے امرتسر تک روڈ کے اردگرد صوفیہ کے ہزاروں مزارات مل جائینگے جہاں آنے والوں میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور ایسا اس لئے ہے کہ صوفیہ نے ہندوستان کے کثیررخی معاشرے کے مزاج کے مطابق انسانیت اور محبت کا درس دیا۔ صوفیہ کرام ایک خدا کے تصور پر یقین رکھتے تھے اور اس کے بندوں کے اندر بھی وحدت کے قائل تھے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہندو،مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی اور سبھی مذاہب کے لوگوں کے بیچ اتحاد پر زور دیا۔

انھوں نے سبھی اہل مذاہب کے اخلاقی وروحانی اصلاح پر زور دیا۔آج کل ملک میں ”عدم روداری“ کی بحث زور وشور سے چل رہی ہے اور جہاں اخبارات صفحات کے صفحات سیاہ کر رہے ہیں وہیں الکٹرانک میڈیا گھنٹوں اس موضوع پر بحث میں گزار رہاہے لیکن اگر صوفیہ کے نظریات ہی حکومت کے نظریات کا حصہ بن جاتے تو شاید اس سلسلے میں بحث کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سیاست دانوں نے عوام کے اندر تفریق پیدا کی اور اس کا استعمال اپنے حق میں کیا مگر صوفیہ لوگوں کو متحد کرنے پر لگے رہے۔

صوفی روایات ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ موجودہ دور میں مذاہب کے روحانی اور اخلاقی پہلوکو مضبوط کیا جائے۔ یہ تصوف کا سحر ہے کہ آرایس ایس پس منظر والے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ”مجھے یقین ہے کہ صوفی روایت جو محبت سے منسلک ہے، سخاوت سے منسلک ہے، وہ اس پیغام کو دور دور تک پہچائیگی جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے گا۔ میں اوروں کو بھی کہتا ہوں کہ ہم خواہ کسی بھی فرقے کو مانتے ہوں، لیکن صوفی روایت کو سمجھنا چاہیے۔صوفی سنتوں کی طرف سے پیش نظریہ بھارتی اقدار کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن بنیاد پرست طاقتیں اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔