پانی کی بچت:ایک اسلامی روایت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
 پانی کی بچت:ایک اسلامی روایت
پانی کی بچت:ایک اسلامی روایت

 

    یوم آب پر خاص پیشکش

جاوید خان 

 پانی ۔ پانی ۔ پانی  ۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی سے موت تک اہمیت رکھتا ہے، جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں- زندگی میں دو گھونٹ اور موت میں دو بوند، ایک تڑپ ہوتی ہے پانی کی- پانی زندگی ہے اور مرنے والے کی زبان یا ہونٹوں کی آخری خواہش ۔ در اصل جیسے جیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے پانی تک رسائی میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، پانی کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، انفراسٹرکچر اور پانی کا عمومی ضیاع پانی کے عالمی بحران میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ ہم نے غریب ترین ملکوں میں پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ امیر ترین ممالک میں بھی یہی عالم دیکھا ہے ۔ اس لیے اب یہ وقت ہے کہ ہم پانی کو محفوظ بنانے کے لیے اہم اقدامات کریں۔ اچھی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے پانی کی بچت کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں پانی کا ذکر کئی جگہ پہ آیا ہے اور اس کو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا گیا ہے۔

اللہ رب العزت نے انسانوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ خود انسان سراپا نعمت ہے، اس کے لیے نعمتوں کا شمار بھی ناممکن ہے۔ ان نعمتوں میں سے بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کو عظیم نعمت کہا جاسکتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان میں سے، بہت سی نعمتوں کو، بہت سے مواقع پر، ان کی اہمیت جتلانے کے لیے بطور احسان یاد دلایا ہے، انہی میں سے ایک عظیم نعمت ’پانی‘ بھی ہے۔

پانی پرانسانی حیات کا دار و مدار ہے، روئے زمین پر سلسلہ حیات کا آغاز پانی ہی کے ذریعے فرمایا گیا۔ قرآن پاک میں رب کریم نے پانی کا لفظ متعدد بار استعمال کر کے اپنی مخلوق کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں، اور رات اور دن کے بدلنے میں، اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کی نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں، اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے، اور ہواؤں کے بدلنے میں، اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کا تابع ہے، البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔  (القرآن :  2:164).

ارشاد ربانی ہے کہ ترجمہ: ’’ اور ہم نے ہر جاندار پانی سے پیدا فرمایا‘‘۔ (النور)۔

اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو پیٹ کے بل رینگتے ہیں، بہت سے ایسے ہیں جو دو پیروں پر چلتے ہیں اور بہت سے چار پیروں پر پانی دراصل خدا کی رحمت ہے، یہ رحمت آسمان سے بھی برستی ہے اور زمین میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اسے رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے رب کائنات نے فرمایا ،ترجمہ:’’ اور وہی (خدا ہے) جواپنی رحمت (مینہ) سے پہلے خوشخبری دینے کیلئے ہوائیں بھیجتا ہے۔‘‘ (الفرقان)

ہمارا فرض ہے کہ ہم اس نعمت کو بھی سنبھال کر استعمال کریں، اسراف اور ضیاع سے گریز کریں ۔پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور نعمتوں کے حوالے سے یہ عام ضابطہ ہے کہ ضائع کرنے کی صورت میں یہ نعمت چھن بھی سکتی ہے۔

سورۃ المومن اور سورۃ الاعراف میں بھی پانی کی اہمیت بیان فرمائی گئی ہے اور اسراف سے منع فرمایا گیا ہے، مسلمانوں کو یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں پڑنی چاہیے کہ ناقدری پر اللہ تعالیٰ نعمت کو چھین لیتے ہیں لیکن پھر ایک بار پھر دہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی نعمت کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں بلکہ اسلام میں ضائع کرنے والے پر گرفت کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں صاف فرمایا گیا ہے کہ

ترجمہ:’’ کھائو پیو اور اسراف نہ کرو۔‘‘(سورہ آل عمران)

سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ: ’’اے اولاد آدم! اپنی زینت لو جب مسجد میں جائو، اور کھائو پیو، اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔‘‘(سورۃ الاعراف)۔ اس آیت کریم میں حد سے بڑھنے سے مراد اسراف ہے، اللہ پاک نے اشیائے ضررویہ کے استعمال میں بھی میانہ روی کا حکم فرمایا ہے۔

پانی انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔ طہارت اور صفائی کا نظام بھی پانی سے وابستہ ہے اس سے جہاں سیرابی حاصل ہوتی ہے وہیں کاشت اور غلے کی پیداوار کیلئے بھی ناگزیر ہے۔انسانی اور حیوانی غذا کا تمام تر دار و مدار پانی پر ہے جو علاقے قلت آب سے دو چار ہو جاتے ہیں وہاں غذائی بحران کے اندیشے پیدا ہو جاتے ہیں، لوگ بھوک اور مفلسی سے مربھی سکتے ہیں۔

ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے اور عملی مثالوں سے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ پانی کی بچت درحقیقت ایک اسلامی روایت ہے۔ پانی کی بچت  زندگی کا ایک ایسا اہم پہلو ہے جو ہمارے روزمرہ کے معمولات کا حصہ ہونا چاہیے ۔ جب ہم وضو کرتے ہیں تو ہم چاہیے کہ ہم وضو کے لیے پانی کے ایک لوٹے سے زیادہ نہ لیں مختصر غسل، دانت صاف کرتے ہوئے ٹوٹی کو بند کرنا اور برتنوں کی صفائی کے لیےاعلی معیار کی ٹیکنالوجی کا استعمال پانی کی بچت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے”اور فضول خرچی نہ کرو اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ” (القرآن 7:31).

لیکن یاد رہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی انتہائی ناقدری ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ اگر آپ پورے عالم میں نظر ڈالیں گے تو اس وقت پوری دنیا پانی کے مسائل سے دو چار ہے۔ آپ نے اپنے ملک کا حال سنایا دیکھا ہوگا کہ وہاں پر گرمیوں میں پانی کا کال پڑجاتا ہے، لوگ پانی کے لیے میلوں کا سفر کر رہے ہوتے ہیں اور لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہوتی ہیں، گھنٹوں کے بعد جب نمبر آتا ہے تو بقدر ضرورت بھی پانی نہیں ملتا، زمینوں میں لگے ہوئے نل اور ٹیوب ویل فیل ہوجاتے ہیں، ندیاں اور نہریں خشک ہوتی جارہی ہیں اور ہر علاقے میں پانی کی سطح روز بروز گھٹتی جارہی ہے، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگلی عالم گیر جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔

ابن ماجہ کی حدیث ہے: نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ وضو کے لیے ایک مد اور غسل کے لیے ایک صاع پانی کافی ہے۔ اس پر ایک صاحب نے فرمایا کہ ہمارے لیے تو کافی نہیں ہوتا؟ جواب میں ایک صحابی رسول نے فرمایا: ’’ان کے لیے تو کافی ہو جاتا تھا جو تجھ سے زیادہ بہتر اور تجھ سے زیادہ بالوں والے تھے۔‘‘ (ابن ماجہ)

مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ طہارت حاصل کرنے میں تم زیادہ حریص اور متقی ہو تو آپؐ تم سے زیادہ حریص اور متقی تھے اور اگر اپنے بالوں کی وجہ سے سمجھتے ہو کہ یہ ناکافی ہے تو آپؐتم سے زیادہ بالوں والے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عام حالات میں پانی کے بارے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ پاک پانی کو حتی الامکان ناپاک اور ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ تمام انسانوں، خصوصاً مسلمانوں سے ہماری درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ پانی کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ” صدقے کی سب سے بہترین شکل کسی کو پانی پلانا ہے”۔ ہم ہر سال پانی کی اہمیت کے حوالے سے دن مناتے ہیں تاکہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کر سکیں کہ پانی کو کیسے محفوظ بنانا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔