ثاقب سلیم، نئی دہلی
’شہر امرتسر کے باشندوں کا خیال ہے کہ جلیانوالہ باغ سانحہ میں مہاتما گاندھی کا کوئی کردار نہیں تھا۔مقامی پنجابی رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو ہی ان کے لیے سب سے بڑے رہنما تھے۔ مؤرخ نونیکا دتا کے لکھے ہوئے یہ الفاظ ڈاکٹر سیف الدین کیچلو کی اہمیت کی منہ بولتی تصویرہیں۔سیف الدین کچلوایک سچے قوم پرست رہنما تھے، جنھوں نے 1910 کی دہائی کے اواخر میں برطانوی حکمت کے خلاف پنجاب کے لوگوں کی قیادت کی تھی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1917 تا1918 کے درمیان پنجابی قوم کا عروج ہوا تھا یعنی وہ انگریزوں کے خلاف متحد ہوئے تھے۔ اس درمیان 13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں خونریز قتل عام ہوا، یہ قتل عام ہندوستان کی قومی تحریک کا ایک دردناک باب ہے۔اس قتل عام نے قوم میں ہلچل مچا دی۔
پروفیسر وی این دتا کے مطابق کہ سیف الدین کیچلو اسی درمیان ایک سچے قوم پرست رہنما کے روپ میں ابھرے اورملک نے انہیں نوآبادیاتی مخالف تحریک کی قیادت میں صف اول پر لا کھڑا کیا۔اس طرح جلیانوالہ باغ نے ہندوستانی قوم پرستی کا محاورہ ہی بدل دیا تھا۔گاندھی نے خود کہا کہ قتل عام کے بعد کانگریس کے اجلاس میں ان کی شرکت ہی ان کا قوم پرست سیاست میں 'اصل داخلہ' تھا۔
جہاں قوم نے جلیانوالہ باغ کو یاد کیا اور گاندھی جی کو اپنا رہنما بنایا، مگر قوم سیف الدین کچلو کو یاد کرنے میں ناکام رہی۔وہ شخص جنہیں ان کے پیروکار ’شہنشاہِ سیاسات‘ کہتے تھے، برطانوی حکومت کے خلاف بولنے پر انہیں17 سال جیل میں گزارنے پڑے۔انہیں ’لینن امن انعام‘ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریباً تمام دولت قومی مقصد کے لیے وقف کردی۔ مگران کا تذکرہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں محض ایک گزرے ہوئے واقعے سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ سیف الدین کیچلو 15 جنوری 1888 کو امرتسر میں رہنے والے کشمیری تاجروں میں سے ایک امیر تاجر کے گھر پیدا ہوئے۔ گھر پر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ، کیمبرج اور برلن میں تعلیم حاصل کی۔
کیمبرج میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران، کیچلو نے یورپ میں ہندوستانی طلباء کی ایک انقلابی تنظیم ’مجلس‘میں شمولیت اختیار کی۔ مجلس کے ارکان نےانگریزی حکومت کو ہندوستان سے نکالنے کے طریقوں پر بحث کی۔ کیمبرج میں تعلیم کے دوران ان کا رابطہ جن انقلابیوں افراد سے ہوا، ان میں مدن لال ڈھینگرا بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد میں سر ویلیم ہٹ کرزن وائلی کو قتل کیا تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جب ڈھینگرا نے کرزن کو گولی ماری تھی تو اس وقت سیف الدین کیچلوبھی وہاں موجود تھا۔
سنہ1915 میں وہ ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے جلد ہی وکالت کے پیشہ میں اپنا نام روشن کرلیا۔ انہوں نے مہاراجہ آف بڑودہ اور دیگر اہم مؤکلوں کے مقدمات لڑے اور ان میں کامیابی حاصل کی۔تاہم جلد ہی انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ قوم انہیں قومی فریضہ کی انجام دہی کے لیےبلا رہی ہے۔پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کو تھی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ امیدوں کے باوجود ہندوستانیوں کو اس وقت ایک جھٹکا لگا جب حکومت کی خود مختاری ملنے کے بجائے انہیں سخت رولٹ ایکٹ مل گیا، جس نے ان کی آزادی کے خواب مزید دور کردیا۔ ہندوستانیوں نے بشمول گاندھی کی قیادت والی کانگریس نے ملک گیر تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب میں سیف الدین کچلو کے ساتھ ڈاکٹرستیہ پال،حافظ محمد بشیر، کوٹو مل وغیرہ انگریز مخالف رہنما بن کر ابھرے۔
اسی دوران ایک ستیہ گرہ سبھا معرض وجود میں آئی جس کے صدرارت سیف الدین کیچلو نے کی تھی۔رولٹ ایکٹ کے خلاف 30 مارچ 1919 کو کانگریس نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔کیچلو نے تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ 30 مارچ کو ہڑتال کامیاب رہی اور جلیانوالہ باغ میں 30,000 سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔اس سے انگریز بری طرح گھبرا گئے۔
اسی دوران 6 اپریل کو ایک اور ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ وہیں برطانوی حکومت کے ذریعہ یہ حکم جاری کیا گیا کہ کیچلو اور ستیہ پال عوام سے خطاب نہیں کریں گے۔ اس وقت انگریزوں نے ہندوستان کے کچھ سینئر رہنماوں رابطہ کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ہڑتال کی کال واپس لی جائے۔5 اپریل کو کانگریس کی استقبالیہ کمیٹی نے ایک قرارداد پاس کیا کہ امرتسر میں کوئی ہڑتال نہیں بلائی جائے گی۔مگر سیف الدین کیچلو کانگریس کی اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ایک نجی ملاقات میں انہوں نے اپنے پیروکاروں سے 6 اپریل کو ہڑتال کرنے کو کہا۔ سیف الدین کیچلو کی کال کامیاب رہی اور یہ ہڑتال گزشتہ ہڑتالوں کی نسبت زیادہ کامیاب رہی۔
عوامی مقامات پر پوسٹر چسپاں کیے گئے اور لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے، جن میں لکھا تھا کہ جب تک رولٹ بل کا نام ہندوستان سے نہیں مٹ جاتا، ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے آرام حرام ہے۔انہوں نے عوام سے کہا کہ مرنے اور مارنے کے لیے تیار رہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز جان گئے تھے کہ سیف الدین کیچلو ہی ان کی حکومت کے لیے اصل خطرہ ہیں۔ امرتسر کے ڈپٹی کمشنر میلز ارونگ نے اعلیٰ حکام کو بتایا کہ پرانی 'قیادت' عوام پر اپنا کنٹرول کھو چکی ہے اور امرتسر میں صرف کیچلو ہی ہندوستانیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ میں اثر و رسوخ رکھنے والے نئے لیڈروں سے رابطے میں رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ سوچنے میں غلط تھا کہ میں کیچلو کو متاثر کر سکتا ہوں مگر وہ خود دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ارونگ نے ہندوستانیوں کی طرف سے کسی بھی بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج اور اسلحہ طلب کیا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ شہر برطانوی کنٹرول سے چھین جائے گا۔ 6 اپریل کو، ہڑتال کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈائر نے لوگوں سے کہا کہ وہ 'پہلے ان بدمعاشوں سے نمٹیں گے پھر کوئی قدم اُٹھائیں گے۔ دریں اثنا سیف الدین کیچلو کو گرفتار کر لیا گیا۔عوام سڑکوں پر نکل آئے اور برطانوی عوام اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔جب کہ انگریز ہندوستانیوں کو سبق سکھانے پر بضد تھے۔
سیف الدین کچلو اپنے ہم عصر رہنماوں کے ساتھ
کچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کے خلاف 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں ایک جلسہ عام بلایا گیا تھا۔ہزاروں لوگ گراؤنڈ میں جمع تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج پر ایک کرسی خالی رکھی گئی تھی جس پر سیف الیدن کچلو کی تصویر رکھی گئی تھی۔ ان کی عدم موجودگی میں انہیں صدر بنایا گیا تھا۔ جنرل ڈائر نے اپنے فوجیوں کے ساتھ اس میٹنگ پر فائرنگ کر کے سینکڑوں ہندوستانیوں کو ہلاک کر دیا، یہ ایک ایسا عمل تھا جو برطانوی ظلم کی علامت بن گیا۔ بعد میں سیف الدین کچلو نے خلافت، اکالی، سائمن کمیشن کے احتجاج، سول نافرمانی، اور کئی دیگر قوم پرست تحریکوں میں ہندوستان کی قیادت کی۔
ایک انتہائی سیکولر آدمی کے روپ میں سیف الدین کچلو نے ہندو اور سکھ رہنماؤں کے ساتھ اتحاد کیا اور ہندوستان کی تقسیم کی شدید الفاظ میں مخالفت کی۔ وہ کبھی ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ان کے خیال میں ہندوستان کا تعلق چند اشرافیہ کے حکمرانوں کے بجائے کسانوں اور عام لوگوں کا ہونا چاہیے۔ سیف الیدن کچلو اکثر گاندھی کی مقبول رائے کے خلاف کھڑے ہوئے اور عوامی طور پر اپنا احتجاج درج کروایا۔جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو انہوں نے اعلان کیا کہ بھگت سنگھ کی لاش ہمارے اور انگلینڈ کے درمیان کھڑی رہے گی۔ تقسیم اور اس کے ساتھ ہونے والے قتل و فسادات نے انہیں بہت زیادہ افسردہ کردیا۔
اس کے بعد انہوں نے فعال سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیا تاہم مہاجرین کی دیکھ بھال میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ افسران اور حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ انہوں نے نے ایک امن کانفرنس بلائی اور عالمی امن کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے کشمیر پر حملے کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔
آخر کار9 اکتوبر 1963 کو سیف الدین کیچلو دل کا دورہ پڑنے کے سبب اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے تاریخی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔یو ایس ایس آر، چین، انگلینڈ کے وزرائے اعظم سمیت متعدد عالمی رہنمائوں نے ہندوستان کے اس عظیم فرزند کو خراج عقیدت پیش کیا۔
وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے انہیں خراج عیقدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک بہت ہی پیارے دوست کو کھو دیاہے جو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ایک بہادر اور ثابت قدم کپتان تھے۔
ویڈیوز