طالبان کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک کی صورتِ حال

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-08-2021
 طالبان کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک کی صورتِ حال
طالبان کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک کی صورتِ حال

 

 

ایس ایم خان +شہریارخان

نئی دہلی

افغانستان ایک بار پھر طالبان کے قبضے میں ہے؛ جس نے 2001 سے قبل پانچ برسوں تک حکومت کی تھی۔ اسی برس امریکی فوج افغانستان میں داخل ہوئیں اور وہاں کا سارا انتظام و انصرام اپنے قبضے میں کر لیا۔

امریکہ اور نیٹو پر 20 سالہ کنٹرول ختم کرنے والے طالبان کی اقتدار میں واپسی ان کی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔اشرف غنی حکومت کا خاتمہ درحقیقت گزشتہ سال فروری2020 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کی تھی اور 29 فروری 2020 کو مرحلہ وار ملک چھوڑنے کے تعلق سے ایک معاہدے پردستخط کئے تھےاور بعد میں صدر بائیڈن نے یہ اعلان کیا تھا کہ 31 اگست2021 تک امریکہ کی پوری سیکورٹی فورسز افغانستان چھوڑ دیں گی۔

امریکہ اور افغان ایلچی زلمی خلیل زاد نے اس سارے عمل میں اشرف غنی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے جو معاہدہ کیا تھا وہ درست نہ تھا۔ اشرف غنی حکومت معاہدے کے ذریعے طالبان کے ساتھ اقتدار میں حصہ داری کے فارمولے کے لیے مذاکرات کرنے  کے لیے مجبور ہو گئی۔

اگرچہ ایک طرف طالبان ملک میں اقتدار کی شراکت داری کے پُرامن فارمولے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ دوحہ(قطر) میں بات چیت کر رہے تھے لیکن دوسری طرف وہ حکومت پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوے تھے۔

طالبان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات صرف اسی صورت میں ہوں گے جب گزشتہ 20 سالوں کے دوران پکڑے گئے 7000 طالبانی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔افغان حکومت ابتدائی طور پر طالبانی قیدیوں کو رہا کرنے سے گریزاں تھی کیونکہ وہ ملک پر مستقبل میں ہونے والےاثرات سے آگاہ تھی لیکن امریکی انتظامیہ کے ناجائز دباؤ کی وجہ سے ان کے مطالبے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا، جس نے بالاخر اس خطے میں تباہی مچا دی ہے۔

قیدیوں کی رہائی نے طالبان کی طاقت میں مدد کا کام کیا کیونکہ اس کے خوفناک جنگجوؤں کی رہائی نےان کی قوت کو تقویت دی۔یہ حیرت کی بات ہے کہ امریکہ معاہدے پرعمل درآمد کے بعد بھی ان کے گیم پلان کو سمجھ نہیں سکا تھا کہ خطے میں بدامنی پھیل گئی ہے۔ یا یہ سمجھا جانا چاہئے کہ امریکی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کیا اور اشرف غنی حکومت کو بتدریج اور مستقل طور پر گرنے دیا۔

جس کے نتیجے میں 15 اگست 2021 کو طالبانیوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اسی دن ہندوستان اپنی یوم آزادی کی 75 ویں سالگرہ منا رہا تھا۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے زیادہ اثر یورپ اور امریکہ کے علاوہ اس کے ہمسائے ممالک ہندوستان، پاکستان، ایران، وسطی ایشیائی جمہوریہوں پر پڑتا ہے۔

طالبان کے معاملات کی سربراہی میں ابھرنے سے خطے کی جیو سیاسی صورتحال(Geo Political situation) میں تبدیلی آئے گی کیونکہ گزشتہ 20 سالوں میں ہندوستانی حکومت کے افغان حکومت کے ساتھ اچھےاور دوستانہ تعلقات تھے۔

ہندوستانی حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں میں خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے تقریباً 3 ارب ڈالر کی افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہاں اپنے متعدد قونصل خانے کھولے ہیں۔گزشتہ 20 سالوں کے دوران افغان حکومت کے، پاکستان کے ساتھ تلخ تعلقات تھے کیونکہ انہوں نے انہیں خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت افغانستان میں طالبانی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی جس سے ان کے ساتھ مزید تلخی پیدا ہوگی۔ طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے سے ہندوستان کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات متاثر ہوں گے، جو اب طالبان کے اقتدار میں آنے سے دھندلا نظر آتا ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں تانبے، کوئلے کے لوہے، لیتھیئم اور یورینیم سمیت معدنی ذخائر وسیع پیمارے پر موجود ہیں اور اب طالبان کی قیادت میں چین اور روس ان معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

ہندوستان کو یہ بھی موقف اختیار کرنا ہوگا کہ نئی حکومت کے ساتھ تجارت کیسے جاری رکھنی ہے جو بہت جلد وجود میں آسکتی ہے۔اب ہندوستانی حکومت کو موجودہ صورتحال سے بہت احتیاط سے نمٹنا ہے کیونکہ طالبان کے ظہور سے چین اور پاکستان کو مدد ملے گی کیونکہ دونوں ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے اور افغانستان کی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔

ہندوستانی حکومت کو نئے دوست بنانے اور وسطی ایشیائی جمہوری طاقتوں اور ایران کی قیادت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور اسے چابہار پروجیکٹ کا تحفظ کرنا ہے، جس سے ہندوستانی سامان ایران کے راستے افغانستان پہنچ سکتا ہے، کیوں کہ ہندوستان کا مغربی ساحل اسے چابہار سے جوڑتا ہے۔

پاکستان طالبان کی مدد سے چابہار منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ چین کے ساتھ گوادر منصوبے کو فروغ دیا جا سکے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ جو ہندوستانی حکومت کے درپیش ہے؛ وہ یہ ہے کہ چینی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کو وسعت دے کر افغانستان میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جسے طالبان کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے اور یہ ہندوستان کے لیے اور بطور خاص کشمیر کے لیے خطرہ بن جائے گا۔

اگرچہ طالبان اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی یقین دہانیاں کر رہے ہیں تاہم طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں شورشیں بڑھ جائیں گی جو کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حالیہ بم دھماکوں سے ظاہر ہوتا ہے جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت تقریباً 170 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اگرچہ طالبان نے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور دھماکے میں طالبانی جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا ہے تاہم ان بم دھماکوں نے مستقبل میں امن اور سلامتی کے بارے میں مزید شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔

مزید برآں طالبان نے انتقامی ہلاکتوں سے باز رہنے اور خواتین اور لڑکیوں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے اور اسلامی شریعت کے پیرامیٹرز کے اندر کام میں مساوی شراکت دار بننے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم طالبانی کے اصل ارادے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کیونکہ کابل سے خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے بھی بہت سی پریشان کن خبریں آرہی ہیں۔

افغان طالبان کو تمام سیاسی جماعتوں اور نسلی گروہ کے ساتھ متحد ہونا چاہئے اور افغانستان کے آئین کے اندر ایک سیاسی فریم ورک تشکیل دیا جانا چاہئے اور وسیع پیمانے پر جامع حکومت قائم کرنی چاہئے جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو جو اس کے شہریوں میں سلامتی کا احساس پیدا کرسکے۔

طویل مدتی طور پر ہندوستان کو پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے کام کرنا چاہئے جو ہمارے مفاد میں ہوگا اور افغانستان میں تشدد و خانہ جنگی کی صورتحال پیدا نہ ہونے کو یقینی بنا کر خطے میں استحکام لائے گا۔

طالبانیوں پر پاکستان اور چین کے کنٹرول کی وجہ سے ہندوستان کو علاقائی استحکام کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ افغان شورشیں ہمارے علاقے میں نہ پھیلیں۔

اب یہ ایک فطری خطرہ ہے اور اس لیے پُرامن اور ترقی پسند افغانستان کے ساتھ ہندوستان کی داخلی سلامتی اور دوستانہ تعلقات کی ضرورت ہے۔

نوٹ: مضمون نگار ایس ایم خان، نائب صدر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی اور ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، جامعہ ہمدرد کے سابق ڈین ہیں۔یہ مضمون ایس ایم خان اور شہریار خان نے مشترکہ طور پر تحریر فرمایا ہے۔