ذکرِ الٰہی: فلاح کی کلید

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-06-2022
 ذکرِ الٰہی:  فلاح کی کلید
ذکرِ الٰہی: فلاح کی کلید

 

 

awazthevoice

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو

 اس مادیت پرست دنیا میں ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؛ لیکن ہم اللہ کی یاد سے خاصی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس نے ہمیں صرف اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اور اصل ٹھکانہ آخرت ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ہم اللہ اور آخرت کی یاد پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ یہ ہمارے پاگل پن اورناشکری کے سوا کچھ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری تمام تر کامیابی، ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذکر اور اس کی بندگی میں ہے۔ یہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اس دنیا اور قیامت کے دن حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے بے مثال طاقت اور دائمی روحانی فیضان ودیعت کرتا ہے۔

 قرآن پاک کہتا ہے:

 ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتا ہے، کیونکہ وہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔  (الحشر :  ۵۹)

 قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کی تمام مخلوقات اس کے ذکر اور حمد میں مصروف ہیں؛ صرف انسانوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور اسے یاد کرے یا اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اسے ہمیشہ یاد کرتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ اس کے مطابق مسلمان ہمیشہ اللہ کی یاد سے ہی اپنے دلوں کا اطمینان پاتے ہیں۔ قرآن پاک کہتا ہےکہ: ’’وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے دلوں کواللہ کے ذکرسے تسکین ملتی ہے؛ بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (الرعد :۲۸)

 قرآن کریم کی درج ذیل آیات واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح اللہ خود قرآن میں اپنی یاد اور ذکر کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے: "اے ایمان والو! اللہ کی حمد و ثنا بیان کرو اور کثرت سے کرو‘‘۔  (احزاب :   ۴۱ )"اور کثرت سے اللہ کی حمد و ثناء کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔  (الجمعہ: ۱۰)

 ’’اے ایمان والو جب تمہارا کسی(طاقتور) فوج سےسامناہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (الانفال:  ۴۵)

 "اے ایمان والو! تمہاری دولت اور اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو نقصان اسی کا ہی ہے۔‘‘ (المنافقون :  ۹)

 یہ اللہ کا ذکر ہے جس سے ہم اس کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم آخرت اور موت کو بھی یاد کر سکتے ہیں جو ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت اللہ کو یاد کرنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ مزید یہ کہ یہ ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا کرتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد بے چینی، ، قتل و غارت گری، سفاکی، انارکی، چوری، لوٹ مار، سائبرکے جرائم اور دیگر سماج دشمن سرگرمیاں صرف اللہ کے خوف کی کمی کی وجہ سے دیکھتے ہیں۔

 اس لیے اللہ کا ذکر ہمارے اندر اس کا خوف پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے دو راہنما چھوڑے جا رہا ہوں، ایک وہ جو ناطق ہے اور دوسرا ساکت۔ ناطق قرآن ہے۔ اور جوساکت ہے وہ موت ہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ میرا بندہ مجھ سے توقع رکھتا ہے، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگروہ میراذکر کرتاہے تو میں اس کا ذکر کرتاہوں۔ اگر وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ کے برابر میرے قریب آتا ہے تو میںایک بازوکے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں، اور اگر وہ ایک باز وکے برابر میرے قریب آتا ہے تو میں ایک فٹ کے برابر اس کے قریب ہوجاتاہوں، اور اگر وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں‘‘۔  (بخاری و مسلم)

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’پھر تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، میرا شکر ادا کرو اورکفر نہ کرو‘‘۔  (البقرہ:  ۱۵۲)

 اللہ کے ذکر کی بہترین صورت نماز ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ’’اور میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔  (طٰہٰ :  ۱۴) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر مرد و عورت پر نماز کو فرض کیا ہے۔ یہ اللہ سےبراہ راست ہمکلام ہونے کا واحدوسیلہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس حالت پر نہ پہنچو تو یقین کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے ذکر کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس سے دنیا کی تخلیق اور فطرت کے دیگر عجائبات کے بارے میں غور و فکر، استغراق اورتدبرکی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ آسمانوں اور زمینوں اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں عقلمندوں کے لیے یقیناً نشانیاں ہیں، وہ لوگ جو اللہ کو کھڑے، بیٹھتے، لیٹے لیٹے یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق کے عجائبات پر غور کرتے ہیں۔ اس قول کے ساتھ: اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا! تیری ذات پاک ہے ہمیں آگ کے عذاب سے نجات عطا فرما۔" (۳:  ۱۹۰   ۔  ۱۹۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’’ذکروفکرجس طرح یکجا صورت میں سامنے آئے ہیں اس کی بڑی اہمیت ہے ، کیونکہ انسان کے غوروفکر کا عمل صحیح رخ پراُسی وقت آگے  بڑھے گا جب یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہوں۔ اس لیے کہ یہ دونوں ایک گاڑی کے دوپہیوں کے مانند ہیں۔ گاڑی ایک پہیے پر نہیں چلے گی، بلکہ اس کے دونوں پہیوں کاولامحالہ حرکت کرنا ہوگی۔ گویا ذکر بھی ہو اورفکر بھی ہو۔ یہ دونوں ضروری او رلازمی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا موجودہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں دوحلقے جداجدا ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو ذکر کے تولذت آشنا ہیں لیکن فکر کے میدان میں قدم نہیں رکھتے، جبکہ کچھ لوگ وہ ہیں جو غوروفکر کی وادی میں توسرگرداں رہتے ہیں لیکن ذکر کی لذت سے محروم رہتے ہیں۔ گویادونوں چیزیں علیحدہ علیحدہ ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج پیدانہیں ہورہے۔ مولانا رومؒ نے اس حقیقت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیاہے:  ؎

ایں قدر گفتیم باقی فکر کُن!

فکر اگر جامد بود رد ذکر کُن!

’’اتنا تو ہم نے تمہیں بتادیا ، آگے خود سوچو، غوروفکر کرو، اور اگر فکر میں کہیں رکاوٹ پیداہوجائے اور تم محسوس کرو کہ وہ جامد ہورہاہے تو جاؤ اور مزید ذکر کرو!‘‘۔

آگے فرماتے ہیں:  ؎

ذکر آرد فکر را در اہتزاز

ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز

’’اس ذکر سے فکر میں ایک حرکتِ تازہ پیداہوگی اور وہ صحیح رُخ او رصحیح سمت میں آگے بڑھے گا۔ ذکر تو آفتاب کے مانند ہے، وہ فکر کی افسردگی کودُور کرے گا‘‘۔

یہی بات علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے کہی ہے:  ؎

جز بہ قرآن ضیغمی روباہی است

ققرِ قرآں اصل شاہنشاہی است

فقرِ قرآں؟ اختلاطِ ذکر وفکر!

فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر!

’’قرآن کے بغیر شیر بھی گیدڑ بن جاتاہے۔ اصل شاہنشاہی قرآن کے تعلیم کردہ فقر میں ہے۔ جانتے ہو فقرِ قرآنی کیاہے؟ یہ ذکروفکر دونوں کے مجموعے سے وجود میں آتاہے اور حقیقت یہی ہے کہ ذکر کے بغیر فکر مکمل نہیں ہوسکتا‘‘۔  (مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب، ص:  ۱۶۴)

 یہ بات واضح ہے کہ اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنے والے ہی سوچتے ہیں اور دنیا میں انقلاب اور تبدیلیاں لاتے ہیں۔ قرآن کریم نے انہیں’’اولی الالباب‘‘(سمجھ والے) کہا ہے۔اس لیے عقلمند بننے کے لیے پہلے اللہ کے ذکر کی عادت ڈالنی چاہیے اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔

 مختصراً یہ کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر لمحہ اللہ کاذکر کریں اور اسی سے ہر چیزکےطالب ہوں۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: ’’اور بھولنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ‘‘ (الاعراف:  ۲۰۵) قرآن مزید کہتا ہے:  ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ نے انہیںایسا بنادیاکہ وہ خود اپنے آپ کو فراموش کربیٹھے! یہی لوگ سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں‘‘۔  (۵۹:  ۱۹)

درحقیقت اللہ کا ذکر ہمیں گناہوں اور دیگر غیر انسانی کاموں سے روکتا ہے۔ اللہ ہمیں دنیا کے فتنوں سے دور رکھے اور نیکی اور نجات کی راہ پر گامزن کرے۔