بہادر شاہ ظفر کی یاد میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-10-2021
بہادر شاہ ظفر
بہادر شاہ ظفر

 

 

AWAZ

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ ابوظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی تھے جنہیں ہم اور آپ بہادر شاہ ظفر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ خطاط، نامور شاعر اور صوفی ہونے کے ساتھ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد میںیقین رکھتے تھے۔

وہ اکبر اعظم کے نقش قدم پر چلن والی شخصیت تھے جو مسلم ہندوستانی تہذیب کی رواداری اور ہندوستان کی کثرت میں وحدت کو مانتے بھی تھے اور اس کے فروغ کے لئے اپنی بساط بھر کوشاںبھی رہتے تھے۔ ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے بیچ ہم آہنگی کی وجہ خود ان کی شخصیت کا وہ خمیر تھا جو اپنے والد اکبر شاہ ثانی کے مسلمان ہونے اور والدہ لال بائی کے ہندو راجپوت ہونے سے مل کر تیار ہوا تھا۔

یہ بات کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہو کہ ان کے پاس وہ جہاں گیری و جہاں داری نہیں تھی جو ان کے بزرگوں خاص طور سے اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور دیگر کے پاس موجود تھی لیکن 1857 میں آزادی کی جنگ کے لئے جس طرح ان کی پکار پر ہندوستانیوں کی بلاتفریق مذہب و ملت ایک بڑی غالب اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی وہ اس بات کی آئینہ دار ہے کہ مغل حکومت کے ظاہری جلال و جبروت کے نہ رہنے کے باوجود بھی ہندوستانیوں میں وہ کتنے مقبول تھے اور کس طرح ہندوستانی ان کو آخر تک اپنا بادشاہ مانتے رہے۔

یہ بات کم دلچسپ نہیں کہ بہادرشاہ ظفر کی اصل قلمرو ’’از دلی تا پالم ‘‘ بھی نہ رہی تھی لیکن جس طرح ان کی سربراہی میں انگریزوںکے خلاف ہندوستانی لڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے وہ مقبولیت تمام شوکت و حشمت کے باوجود ان کے آباء و اجداد کے حصے میں بھی نہ آئی تھی۔

رانی لکشمی بائی ہوں یا تانتیا ٹوپے، نانا جی پیشوا ہوں یا مولوی احمد اللہ، بخت خاں ہوں یا مولانا فضل حق خیرآبادی، سب ان کے نام پر ایک ہو گئے۔ کچھ غیرمنظم فوجی طاقت، ضرورت سے زیادہ جذباتیت، وسائل کی کمی اور ان سب سے زیادہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں اور غداری نے اس جنگ آزادی کو ناکام بنا دیا۔ خاندان مغلیہ میں وہ ظلم کسی فرماں روا کے خاندان نے نہ بھگتا ہوگا جو بہادر شاہ ظفر اور ان کے گھر والوں اور قرابت داروں کے حصے میں آیا۔ 82سالہ بادشاہ کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے انگریزوں نے تھال میں سجا کر بوڑھے بادشاہ کے سامنے جب پیش کیا تو بہادرشاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے ہوئے بڑے صبر و ثبات کے ساتھ جس میں تیموری تیور بھی تھے، کیا زبردست اور تاریخی جملہ انگریز ظالموں اور قاتلوں کے سامنے کہا تھا۔

انہوں نے کہا تھا : ’’تیمور کی اولاد ایسی ہی سرخ رو ہوکر اپنے باپ کے سامنے آتی ہے۔‘‘ لال قلعہ جو کبھی ان کی رہائش گاہ بھی تھی اور ان کی شاہانہ عظمت کا گواہ بھی، اسی لال قلعے میں انگریزوں نے ان پر مقدمہ چلایا جو 21دن تک چلتا رہا اور اس میں بہادر شاہ ظفر پر انگریزوں نے جو فرد جرم عائد کی و ہ اس طرح تھی کہ ’’ہندوستان میں برطانوی حکومت کا وظیفہ خوار ہونے کے باوجود اس نے (بہادرشاہ ظفرنے) دہلی میں باغیوں کی مدد و نصرت کی، شورش برپا کی۔ ‘‘

دوسرے ’’ہندوستانی عوام کو جان بوجھ کر جنگ اور بغاوت میں دھکیل دیا۔‘‘ تیسرے ’’یورپین عوام کا قتل عام کیا۔‘‘ بالآخر 29مارچ، 1858کو ان کو قومی مجرم قرار دے دیا گیا۔ اور ملک بدر کرکے اس وقت کے برما کے شہر رنگون میں نکبت و افلاس کے ساتھ لکڑی کے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے مکان میںمع اپنے متعلقین کے رہنے پر مجبور کر دیا۔

یہ ایک طرح کی قید ہی تھی لیکن اس خوددار اور درویش صفت بادشاہ نے انگریزوں کے سامنے نہ سر خم کیا اور نہ ان سے کسی خاص رعایت کو طلب کیا اور بالآخر 7نومبر 1862 کو 87سال کی عمر میں اس نحیف و نزار،ناتواں اور بے آسرا بادشاہ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ اور اس طرح تیموری جاہ وجلال، عظمت و عزیمت کا آخری چراغ بھی ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔

بہادر شاہ ظفر کی اس وقت کے رنگون اور اب کے یانگون میں کیا ذہنی کیفیت تھی اور کیسی گدازیٔ قلب سے وہ دو چار تھے اس کا اندازہ ان کی اس مشہور زمانہ غزل کے چند اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے اس عالمِ ناپائدار

میں بلبل کو باغباں سے نہ صیّاد سے گلہ

قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں

دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی

پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بابر سے اورنگ زیب تک جو سطوت شاہی اور اقتدار کی چکاچوند کو لے کر اگر مؤرخین نے انہیں موضوع بنایا تو کوئی خاص بات نہیں تھی۔

اس لئے کہ ان کی عظمت و طاقت کا گن گان کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی لیکن باوجود محرومی، حرماں نصیبی، اقتدار سے بے دخلی، خاندان کے اکثر افراد کو ظالم و جابر انگریزوں نے جس طرح لقمہ اجل بنایا، خود بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلایا اور ان کو پھر مجرم قرار دے کر جلاوطن بھی کر دیا گیا اور وہیں کی مٹی میں ان کی مٹی قیامت تک کے لئے سما گئی۔

اس سب کے باوجود بہادرشاہ ظفر کو جو ہماری اردو زبان و ادب میں تاجدار سخن ہیں اور جنہیں انگریزوں کی تمام وحشت ودہشت کے باوجود اس حیثیت سے معزول نہیں کیا جا سکا، ان کی شاعری کو لے کر جتنا کچھ لکھا گیا، انہیں جس جس طرح اردو والوں نے یاد کیا، وہ بھی اپنی جگہ لیکن یہ بھی بڑی سچائی ہے کہ اپنے انتقال کے 188 سال بعد بھی انہیں ہندی ہو یا انگریزی زبانوں میں بھی کتابیں لکھ کر اور یادگاری مجلے نکال کر یاد رکھا گیا۔

مغل خاندان میں صرف دو لوگوں کو ہی یہ منفرد حیثیت حاصل ہو سکی ہے۔ ایک داراشکوہ اور ایک بہادر شاہ ظفر۔ ایک کو بھائی نے تہہ تیغ کرا دیا تو دوسرے کو انگریزوں نے جیتے جاگتے مار دیا، لیکن ہماری تاریخ، ہماری زبان اور ہمارے دلوں میں آج بھی ان کا راج ہے۔ 24اکتوبر 1775 کو دہلی میں جنم لینے والے اکبر شاہ ثانی اور لال بائی کے بیٹے بہادرشاہ ظفر کا آج 246واں یوم پیدائش ہے۔

ہم ان کی یادوں کو سلام کرتے ہیں اور خدائے بزرگ و برتر سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میںجگہ دے اور ہمارے ہندوستان میں ہندو، مسکم، سکھ، عیسائی اور دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں وہی مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی پیدا فرما دے جو کبھی چشم فلک نے اس ملک میں بہادرشاہ ظفر کی سربراہی میں دیکھی تھی۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔