مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

 

 

squib salim

ثاقب سلیم،نئی دہلی

گزشتہ چند دنوں میں بعض سیاست دانوں، 'مذہبی رہنماؤں' اور کارکنوں کی طرف سے ٹیلی ویژن مباحثوں میں بعض مذہبی شخصیات کی تذلیل کرنے والے تبصروں کا معاملہ عوامی گفتگو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح ان نام نہاد لیڈروں نے مذہبی شخصیات کا مذاق اڑایا ہے۔ میں سنتا آیا ہوں کہ جدید تعلیمی اداروں میں اچھی تعلیم لوگوں کو دوسروں کے ساتھ حساس ہونا سکھاتی ہےجو بچپن سے ہی نفرت کی سیاست کاعلاج کر سکتی ہے۔

تاہم ہم نے دیکھا کہ کس طرح نامور تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے لوگ سیاسی بیان بازی کے نام پر شیولنگ‘ کا مذاق اڑاتے رہے، اس طرح لاکھوں لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ جن لوگوں کو پیغمبراسلام کا مذاق اڑاتےہوئےدیکھا گیاوہ بھی چند بہترین تعلیمی اداروں کی پیداوار تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی منافرت کا علاج جیسا کہ لبرل مغرب نے تجویز کیا ہے،اس بیماری کی سب سے مہلک شکل معلوم ہوتی ہے۔ جدید تعلیمی ادارے بلا شبہ علم تو دیتے ہیں لیکن ان کی تعلیم حساسیت سے عاری ہوتی ہیں۔

اگر ہم اس دور پر نظر ڈالیں جب کہ  جدید مغربی تعلیم آج کی طرح ہمارے معاشرے میں داخل نہیں ہوئی تھی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پڑھےلکھے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے مذاہب کے بارے میں احترام کے ساتھ بات کیا کرتے تھے۔

رحیم اوررسخان کی روایت جو قرون وسطی کے زمانے میں ہندو دیوتاؤں کی تعریف میں لکھتی تھی اس کڑی کو بیسویں صدی عیسوی کے مسلمان مفکرین نے بھی آگے بڑھایا۔ برصغیر ہند میں علامہ اقبال سے زیادہ مسلم تشخص کی علامت کون ہے؟ میں نےسنہ 2016 میں اپنے ایک مضمون یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ علامہ اقبال کو شری رام سے عقیدت تھی۔اس کی وضاحت ان کی ایک نظم  سے ہوتی ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ علامہ اقبال کے لیے شری رام محض ہندووں کے دیوتا نہیں ہیں، بلکہ وہ 'امام الہند'یعنی ہندوستان کے روحانی پیشوا کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔

اسی وجہ سےلوگ انھیں ہندوستانیوں کا روحانی پیشوا بھی مانتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا تھا:

ہےرام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

یہ بات بالکل واضح ہے کہ علامہ اقبال یہ نہیں مانتے تھے کہ شری رام  صرف ہندوؤں کے  دیوتا ہیں۔ بصورت دیگر وہ اہل نظر کے بجائے اہل ہند کا لفظ استعمال کرتے۔ایک روحانی پیشوا کے طور پران کا خیال تھا کہ شری رام کی حیثیت صرف وشنو یا ہندوؤں تک محدود نہیں ہےبلکہ شری رام ہندوستان اور اس کے لوگوں کے اخلاق میں رہتے ہیں۔

علامہ اقبال نےشری رام کے لیے ایک نظم میں انھیں دنیا کے تمام فلسفیوں کے سربراہ کا درجہ دیا ہے۔ شری رام کی تعظیم اور اسلام سے متعلق ان کی آرا، ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔

سنہ2017 میں، میں نے ایک مضمون میں نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے مدرسے سے فارغ التحصیل شاعرشاعرحفیظ جالندھری نے شری کرشن کی تعریف میں لکھا تھا۔ 'کرشن کنہیا' حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ہے. میں نے لکھا تھا کہ شاعر حفیظ جالندھری کو امید ہے کہ شری کرشن ملک کے نجات دہندہ کے طور پر واپس آئیں گے۔

اپنی نظم کے شروع میں حفیظ جالندھری نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ قارئین کی توجہ شری کرشن کی عظمت کی طرف مبذول ہوجائے۔

اے دیکھنے والو

اس حسن کودیکھو

اس راز کو سمجھو!

یہ نقشِ خیالی

یہ فکرتِ عالی

یہ پیکرِ تنویر

یہ کرشن کی تصویر

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ  کچھ مسلمانوں کے درمیان  پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ شری کرشن کے لیے اسی استعارے کا استعمال کرتے ہوئے، حفیظ جالندھری ایک طرح سے اسلامی علماء کے ایک طبقے کے قدیم عقیدے کو دہراتے ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ شری کرشن برصغیر کے لوگوں کے لیے بھیجے گئے ایک صالح نبی تھے۔

 نظم کے دوران وہ اپنے عقیدے پر دوبارہ یہ کہہ کر زور دیتے ہیں:

 یہ ناز ہے یا نور

سنہ2018میں تحریر کئے گئے ایک اور مضمون میں، میں نے یہ دکھایاہےکہ کس طرح ایک معزز اسلامی اسکالر خواجہ حسن نظامی نے 'کرشن بیتی' لکھی تھی۔  خواجہ حسن نظامی نے شری کرشن کی پیدائش کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ آج ہندوستان کے اُس کمانڈر اِن چیف، سپہ سالار اور فوجی سربراہ کی آمد ہے، جس کی فوجیں فتح یاب ہو کر گھومتی تھیں۔

وہ برصغیرہند کے صف اول کے رہنما اور جرنیل ہیں۔ آج وہ آنکھیں خود کھلنے والی ہیں جو زمین و آسمان کی دیکھ بھال کریں گی۔

وہ ہندوستانیوں کو نجی اور عوامی طور پر،خوشی اور غم میں، زندگی کے ساتھ ساتھ موت میں بھی تسلی دیتے ہیں۔ شری کرشن بڑوں کے رہبراوربچوں کے محبوب ہیں۔

فہرست طویل ہے؛کئی مسلم مفکرین، ادیبوں اور رہنماؤں نے ہندو مذہبی شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کبھی بھی، حتیٰ کہ مسلم رہنماؤں میں سے سب سے زیادہ قدامت پسندوں نے بھی، کسی ہندو مذہبی شخصیت کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔

واضح رہے کہ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی لکھی ہوئی اردو نصابی کتب، جو ایک صدی سے زائد عرصے سے برصغیر کے مدارس میں مستعمل ہیں، اس میں ہندو مذہبی شخصیات کے باب مختص کیے گئے ہیں۔ اردو کی چوتھی کتاب میں مولوی اسماعیل میرٹھی نے سیتا کے بارے میں لکھا ہے کہ مختصر طور پر سیتا ایک متقی، وفادار، صابر اور محبت کرنے والی بیوی کی ایک بہترین اور بے مثال خاتون تھیں۔

 کوئی سوچ سکتا ہے کہ مدارس میں ایسی اردو کتابیں پڑھنے کے بعد مسلمانوں میں ہندو مذہبی شخصیات کے لیے کیسی تعظیم پیدا ہوئی؟ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ حفیظ جالندھری،مولاناحسرت موہانی، خواجہ حسن نظامی اور دیگر نے شری کرشن، شری رام یا دیوتا شیو کی تعریف میں لکھا۔

اس زمانے میں احترام ایک طرفہ معاملہ نہیں تھا اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ اسلامی شخصیات کابھی احترام کیا جاتا تھا۔

 جن لوگوں کی تعلیم دقیانوسی ہندو روایات سے جڑی ہوئی تھی ان کا ماننا تھا کہ اسلام ہندومت کے برابر احترام کا مستحق ہے۔ سنہ 1921میں شری شاردا پیٹھ کے جگد گرو شنکراچاریہ نے خلافت کی حمایت میں ایک فتویٰ کی تائید کی اور اس کی تشہیر میں بھی حصہ لیا۔

ان پر انگریزوں نے حکومت مخالف نظریات کی تشہیر کا الزام لگایا تھا۔ تاہم شنکراچاریہ نے اس موقع پرکہا کہ ہر ہندو کو لازمی طور پر خلافت کے مقصد سے ہمدردی رکھنی چاہیے۔ ہریانہ کے حصارسے تعلق رکھنے والے چودھری دِلّو رام کوثری نعت‘ لکھتے تھے۔  ان کے نعت کی کتاب سنہ 1924میں شائع ہوئی۔  کتاب کے تعارف میں کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کا واحدمقصدعام ہندوؤں کی اسلام سے متعلق ان کے نظریات کو سامنے لانا ہے، جب کہ کچھ انتہا پسند تشدد میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ نفرتوں سے بھرے موجودہ دور میں اس نکتے کا اعادہ کتنا ضروری ہے؟ دلو رام نے لکھا:

کر اے ہندو بیان اس طرز سے تو وصف احمد کا

مسلمان مان جائے سب لوہا تیغِ محمد کا

 اور،

کچھ عشق پیمبر میں نہیں شرط مسلمان

ہے کوثری ہندوی بھی طلب گار محمد

 پروفیسرشانتی سوروپ بھٹناگر نے ایک موقع پر لکھا تھا:

ادھا مسلم ہوں تو آدھا میرا ہندو میں شمار

ہندوستانی ہونے کے ناطے ہمیں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ مغربی جدید نظام کے ذریعے اپنے لوگوں کو تعلیم دینے میں کیا غلطی ہوئی ہے۔ کیوں عقلی، سیکولراورترقی پسند نظرآنے کے لیے ہم مذہبی عقائد کو نیچا دکھانےاورایک بڑی آبادی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ایسی حرکت کرتے ہیں۔

انسانی جذبات کے تئیں حساسیت سے عاری تعلیم تباہی کا باعث بنے گی۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام چاہیے جوہماری ثقافت میں جڑا ہوجوہمیں باہمی احترام کے ساتھ آپس میں رہنا بھی سکھائے۔ معاشرےمیں موجودمغربی ماڈل کو دنیا کی قدیم ترین، متحرک تہذیب پرمسلط نہیں کیا جا سکتا؛ہمیں اس بات کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے:

 مذہب نہیں سکھاتا ہے آپس میں بیر رکھنا

نوٹ: مضمون مصنف اور تاریخ نگار ہیں۔