پروفیسر راحت ابرار
سرسید احمد خاں (1817–1898) نے اپنی 80 سالہ ہنگامہ خیز زندگی میں سیاسی، تعلیمی، معاشرتی، اصلاحی، مذہبی اور تخلیقی غرض ہر قسم کے علمی اور قومی مشاغل میں نمایاں حصہ لیا اور زندگی کے ہر میدان میں اپنا نقش بٹھایا اور ہر موقع پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ خالص تعلیمی معاملات میں ان کے عمل اور افکار و نظریات نے علی گڑھ تحریک کی صورت اختیار کی اور ممتاز مستشرق ہملٹن گب نے ان کے ذریعہ قائم کیے گئے تعلیمی ادارے کو "عالمِ اسلام کا سب سے پہلا جدید تعلیمی ادارہ" قرار دیا جبکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ان کو "تعلیم کا پیغمبر" سے تشریح دی ہے۔
17 اکتوبر 2025 کو سرسید احمد خاں کے 208 ویں جشنِ ولادت کے موقع پر ہمیں ان کے کارناموں کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا آج بھی ان کے افکار و نظریات اور کارناموں کی اہمیت اور معنویت باقی ہے جبکہ انھوں نے مسلم معاشرہ کے متوسط طبقہ کو ایک تاریخی موڑ دینے کا کام انجام دیا اور ان کی خدمات کو ایک روشن باب تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار "جدید ہندوستان کے معماروں" میں کیا جاتا ہے۔ آج جب کہ ہندوستانی مسلمان سیاست کے میدان میں حاشیہ پر کھڑا ہے اور تعلیم کے میدان میں وہ اپنے ملک کا سب سے پسماندہ فرقہ قرار دیا جاتا ہے۔ اقتدار اور اختیار میں اس کی حصہ داری بالکل ختم ہو گئی ہے اور بعض فرقہ پرست عناصر اور فتنہ پرور طاقتیں اس ملک سے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں۔
سرسید احمد خاں بنیادی طور پر 1857 کے واقعات، حالات اور حادثات کی پیداوار تھے۔ ڈیوڈ لیلی ویلڈ کے مطابق ان کی تین اہم تصانیف "تاریخِ سرکشیِ بجنور"، "اسبابِ بغاوتِ ہند" اور "لائل محمڈنز آف انڈیا" برطانوی سامراجی حکومت کے لیے فیصلہ کن موڑ اور بدلے ہوئے حالات میں ہندوستانی ردِ عمل کی صورت میں ایک بڑے قائد کے طور پر ان کے ابھرنے کے تعلق سے ان کے تجربات اور ایڈجسٹمنٹ کا حال بیان کرتی ہیں۔
"مسلمانوں کے روشن مستقبل" کے مصنف مولانا طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں:
"سرسید کا رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند جب برٹش پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا تو اس کے ایک ممبر مسٹر سیسل بیڈن، سکریٹری امورِ خارجہ حکومتِ ہند نے اسے باغیانہ قرار دیا اور بعض ممبران نے سرسید کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ بھی کیا۔ سرسید کا یہی رسالہ نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ کل ہندوستان کی سیاست کا سنگِ بنیاد ہے جس پر ملکی سیاست کی تعمیر ہوئی اور جو حقیقت میں سرسید کی اصل اور بنیادی پالیسی تھی۔"
کانگریس پارٹی کے بانی مسٹر ہیوم اور لالہ لاجپت رائے کا کہنا ہے کہ سرسید کے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند سے متاثر ہو کر انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس قائم کی جبکہ سرسید نے ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کو سیاسی بازیافت کا ذریعہ تصور کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانگریس قائم کی جس نے ملک بھر میں ایک تعلیمی انقلاب برپا کر دیا۔
پنجاب کیسری لالہ لاجپت رائے نے جب دیانند اینگلو ودیک (ڈی اے وی) اسکول اور کالج بالترتیب 1886 اور 1889 میں لاہور میں قائم کیے تو ان کے سامنے سرسید کا محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا ماڈل ہی تھا۔ آج ہندوستان کے ہر شہر میں ڈی اے وی کے نام سے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہیں مگر علی گڑھ والوں نے سرسید کی تعلیمی وراثت کو اس طرح سے آگے نہیں بڑھایا جس طرح آریہ سماج تحریک نے یہ کام انجام دیا۔
سرسید کی سیاسی بصیرت ہی تحریک کی فکری جہت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ سیاست کو مذہب، معاشرت اور معاش سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک نہایت فعال قائدانہ صلاحیت رکھنے والے سیاست داں تھے، اپنے وقت کے سب سے بڑے نباض اور مستقبل شناس بھی تھے۔
سرسید کو چار محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی۔ پہلا، انگریزوں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے سے روکنا۔ دوسرا، مسلمانوں کو نئے علوم و فنون کی طرف راغب کرنا۔ تیسرا، مذہب میں عقلیت کو رواج دینا۔ چہارم، آخری زمانے میں کانگریس کے نیشنلزم کے خلاف محاذ کھولنا۔ یہ کام انتہائی مشکل و سنگین تھے۔ سرسید کے قائم کردہ ادارہ کے منتظمین نے سرسید کی نگرانی میں مخالفت کے باوجود ان کے سیاسی نظریات کو ابھرنے نہیں دیا کیونکہ کانگریس ایک حکمراں جماعت بن کر ابھری اور مسلم یونیورسٹی کے ذمہ داران نے مصلحت پسندی کی وجہ سے سرسید احمد خاں کو محض تعلیم کا مسیحا بنا کر پیش کیا اور ان کے سیاسی نظریات پر کسی بھی طرح کے حقیقی اور تصنیفی کاموں کی پذیرائی نہیں کی۔
علماء اور دانشوران کی طرف سے سرسید پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ انھوں نے انگریزی تعلیم کو فروغ دیا جبکہ ان کی اصل تحریروں میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرطبہ، بغداد کی دانش گاہوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سرسید کے ناقدین کا ایک طبقہ بانی درس گاہ پر انگریز نوازی اور اس ادارے کو انگریزی حکومت کے لیے ملازم اور اس کے کل پرزے تیار کرنے کا کارخانہ قرار دیتا ہے، جبکہ ایسے لوگوں نے نہ صرف سرسید کی تحریروں کا مطالعہ نہیں کیا بلکہ وہ اس ادارے کی تاریخ سے بھی واقف نہیں۔
سرسید علم کو مسلمانوں کی میراث تصور کرتے تھے اور مسلمانوں کے شاندار علمی کارناموں سے واقف تھے۔ "مدرسۃ العلوم اور مسلمانان" کے عنوان سے لکھے اپنے ایک مضمون میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
"قرطبہ اور غرناطہ، بغداد اور سمرقند کی یونیورسٹیاں ہمارے بزرگوں کی بنائی ہوئی تھیں... زیادہ سے زیادہ ہماری کوشش ہو کہ ہم علومِ جدیدہ کو اپنی زبان میں لے آئیں اور اپنی زبان میں سیکھیں جیسا کہ ہمارے باپ دادا نے کیا تھا۔"
سرسید نے اپنے کالج کے لیے جو لباس پسند فرمایا وہ بھی ترکی ٹوپی اور ترکی کوٹ تھا۔ کھانے میں بھی انہوں نے عربوں کے بجائے ترکی طریقہ کو اختیار کیا جہاں طباق میں سب لوگ ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ کھجور کو اپنے کالج کا مونوگراف بنایا اور طلباء، اساتذہ، ٹرسٹیوں کے لیے جو تنظیم بنائی اس کا نام "اخوان الصفا" رکھا۔ بعد میں یہی تنظیم "برادر ہُڈ" اور اب مسلم یونیورسٹی المنائی (طلبائے قدیم) ایسوسی ایشن کے نام سے دنیا بھر میں فعال ہے اور ہر جگہ یومِ سرسید کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتاہے۔
سرسید کے دور میں مشنریوں کی طرف سے عیسائی مذہب کی زبردست تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ایک بڑا چیلنج تھی۔ تفسیرِ قرآن جدید ذہن کو مطمئن کرنے کی ایک کوشش تھی۔ سرسید در حقیقت مسلمانوں میں ایک نئی فکری تحریک کے بانی تھے اور اجتہاد و تنقیدِ مذہب کی تحریک کے علمبردار تھے۔ انھوں نے اشتعال کے بجائے اعتدال اور شدت کے بجائے جدت کا درس دیا۔ اور بقول "سرسید کی بصیرت" کے مصنف ڈاکٹر اسرار عالم، انگریزی فوج نے ہندوستان کو اسپین صرف اس لیے نہیں بنایا کہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں سرسید احمد خاں پیدا ہو چکے تھے۔
یومِ سرسید کے موقع پر ہمیں خود اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ جو قومیں اپنا احتساب نہیں کرتیں وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی ہیں اور جنگل میں گھاس کی طرح انھیں کاٹ دیا جاتا ہے۔
راحت ابرار
حیات تعلیم منزل
طلباء کمپاؤنڈ، علی گڑھ