ڈاکٹر خالد خرم
دہلی میں حالیہ دھماکے نے ایک بار پھر ایک تکلیف دہ مگر واضح حقیقت یاد دلادی ہے-انتہا پسندی کا سفر زیادہ تر الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ہتھیاروں سے نہیں۔ ہمارے یہاں جنوبی ایشیا میں پچھلی صدی میں لکھا گیا کئی طرح کا سیاسی رنگ چڑھا اسلامک لٹریچر آج بھی بغیر کسی روک ٹوک کے دستیاب ہے۔ مجاہد کی اذان، خدا اور بندہ جیسے کئی کتابچے سوشل میڈیا، میسجنگ ایپس اور سستے پبلی کیشن نیٹ ورکس پر پھیل رہے ہیں۔ خاص طور پر جموں و کشمیر جیسے حساس علاقوں میں نوجوان ان تحریروں سے متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ تحریریں ایک خاص سیاسی دور میں لکھی گئی تھیں۔ ان کا تعلق دین کے اصل علمی ورثے سے کم اور سیاسی ردعمل سے زیادہ تھا۔ لیکن سیاق و سباق کے بغیر جب نوجوان انہیں “مستند مذہبی تشریح” سمجھ کر پڑھتے ہیں تو ذہن میں آہستہ آہستہ ایک سخت نظریہ بننے لگتا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ تشدد صرف کارروائیوں سے نہیں بڑھتا، اس کے پیچھے ایک فکری زمین بھی تیار ہوتی ہے۔
اسلام کی اصل اخلاقی تعلیمات ان نظریاتی بیانیوں کے الٹ کھڑی ہیں۔ قرآن انسان کی عزت کو بنیاد بناتا ہے “ہم نے آدم کی اولاد کو بزرگی دی”اور ایمان کے معاملے میں آزادی کو حق کے طور پر پیش کرتا ہے “دین میں کوئی جبر نہیں”۔ مدینہ میں نبی کریمؐ کا طرزِ حکومت تاریخ کا پہلا باقاعدہ ماڈل سمجھا جاتا ہے جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق اور تحفظ حاصل تھا۔ امام ابو حنیفہ سے امام غزالی تک پوری علمی روایت عقل، نرمی، باہمی رہائش اور انصاف پر کھڑی ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ انتہا پسندانہ لٹریچر موجود ہے.یہ ہمیشہ سے تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج اس کی رسائی کہیں زیادہ تیز اور وسیع ہے، جبکہ سنجیدہ علمی کام نوجوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ یوٹیوب خطیب، ٹیلیگرام چینل، میمز اور الگورتھم پر چلنے والا مواد مذہب کو نعرے بنا کر پیش کرتا ہے،اورنوجوانوں کے پاس مناسب رہنمائی کا فریم ورک نہیں ہوتا۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں یونیورسٹیاں، خاص طور پر جموں و کشمیر کی یونیورسٹیاں، بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اصل جواب طاقت نہیں، علم ہے۔ ایک قابلِ بھروسا بیانیہ حکم ناموں سے نہیں بنتا۔وہ علمی اداروں سے جنم لیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف شعبے—دینیات، فلسفہ، اسلامیات، سیاسیات، تاریخ اور سوشیالوجی۔اس لٹریچر کا تحقیقی جائزہ لیں جو نوجوانوں کی سوچ بنا رہا ہے۔ یہ سمجھایا جائے کہ یہ تحریریں کس سیاسی ماحول میں لکھی گئیں، کیا چیز اصل مذہبی تعلیم ہے اور کیا سیاسی ردعمل، اور اسلام کی علمی روایت دراصل کتنی وسیع اور متنوع ہے۔ اس سے ان چنیدہ حوالوں اور ٹکڑوں کی حقیقت کھل جائے گی جن پر انتہا پسند بیانیے کھڑے ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی یونیورسٹیوں کو سادہ اور قابلِ فہم متبادل لٹریچر بھی تیار کرنا ہوگا۔ آج صرف بڑی علمی کتابوں سے بات نہیں بنتی۔ مختصر کتابچے، پالیسی نوٹس، آسان مضامین، ڈیجیٹل کورسز، پوڈکاسٹ اور حقائق پر مبنی ویڈیوز نوجوانوں تک پہنچنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے لیے ادارہ جاتی سپورٹ اور باقاعدہ تحقیقی گروپس چاہئیں۔
ایک اور اہم حصہ کشمیر کی اپنی فکری روایت ہے۔ لال ڈید، نند ریشی اور شیخ نورالدین کی تعلیمات رواداری، محبت اور مشترکہ انسانیت کا ایک مقامی ماڈل پیش کرتی ہیں۔ اس روایت کو نئے انداز میں پڑھانا، لکھنا اور پھیلانا بہت مؤثر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کی اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہے۔
پالیسی کی سطح پر ضروری ہے کہ اس علمی محنت کو ریاست کی مجموعی ضدِ انتہا پسندی حکمتِ عملی میں شامل کیا جائے۔ پولیس اپنا کام کرے گی، مگر ذہنی و فکری پہلو کو صرف تعلیمی ادارے ہی مضبوط بنا سکتے ہیں۔ بھارت کا pluralistic ماحول اس بات کے لیے سازگار بھی ہے—بس علمی شعبہ ابھی تک کمزور رہا ہے۔
اگر یونیورسٹیاں اس ذمہ داری کو سنبھال لیں تو فائدہ پورے معاشرے کو ہوگا۔ باشعور طالبعلم خود بھی متوازن سوچ رکھتا ہے اور دوسروں تک بھی اچھی بات پہنچاتا ہے۔ سوچنے والے کلاس روم ہی لمبے عرصے کی امن کی ضمانت بنتے ہیں۔
انتہا پسند نظریات کو صرف پابندیوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے ایک علمی جدوجہد درکار ہے۔جس کا سہارا تحقیق ہو، جس کی پشت پر پالیسی ہو، اور جس کی زبان عام لوگوں کے لیے قابلِ فہم ہو۔ اسلام کی باہمی رواداری کی اصل روح کو دوبارہ زندہ کرنا صرف مذہبی کام نہیں—یہ قومی ضرورت ہے۔ اور اس جدوجہد کی قیادت سب سے بہتر ہمارے تعلیمی ادارے کر سکتے ہیں۔