رسول گلوان :ہندوستانی سرحد کا پسماندہ محافظ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2023
رسول گلوان : ہندوستانی سرحد کا پسماندہ محافظ
رسول گلوان : ہندوستانی سرحد کا پسماندہ محافظ

 



ڈاکٹر فیاض احمد فیضی۔سری نگر

ہندوستان اور چین کے سرحدی تنازعہ کے درمیان ایک پسماندہ شخصیت مرکزی کردار کی شکل میں ابھر کر سامنے آتی ہے. جن کے نام پر بحث کا موضوع  بنی وادی کا نام گلوان وادی پڑا. واقع یہ ہے کہ ایک بار ایک  کھوجی-مسافر لہہ کے علاقہ میں پھنس گیا تھا.  وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا, ایسی صورتحال میں رسول گلوان نامی ایک چھوٹے لڑکے (جس کی عمر تقریبن 14 سال رہی ہوگی) نے ایک ندی سے گزرتے ہوے راستہ تجویز کیا اور انہیں باہر نکال لے آیا۔ مسافر بچے کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اس ندی کا نام بچے کے نام "رسول گلوان"  کے نام پر، گلوان ندی  رکھا پھر اس کے آس پاس کی وادی گالوان وادی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اپنے بچپن سے ہی رسول گلوان نے انگلینڈ ، اٹلی ، آئرلینڈ  اور امریکہ کے مشہور ایکسپلوررز (کھوجی-مسافر) کے ساتھ تلاشی سفروں کی رہنمائی کی۔ تاریخ کے صفحات میں کھو چکے۔ پسماندہ آدیواسی معاشرے سے تعلق رکھنے والے رسول گلوان کا ٹٹوں کے دیکھہ ریکھہ کرنے والے سے برطانوی جوائنٹ کمشنر کے چیف اسسٹنٹ (اکسکال) تک کا سفر سنسنی خیز اور جرات سے بھرا ہوا ہے۔

رسول گلوان نام تھا۔ایک صوفی بزرگ کے کہنے پرآپ نے اپنے نام سے پہلے لفظ "غلام" شامل کیا۔ گلوان قبیلے کا نام ہے جس کا مطلب ہے "گھوڑوں کا پالنےوالا"۔ چونکہ آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ گھوڑوں اور ٹٹووں کی دیکھ بھال کرنا تھا لہذا اس برادری کا نام گلوان پڑ گیا۔

والٹرلارنس نے اپنی کتاب "دا ویلی آف کشمیر" کے صفحہ نمبر 311-312 پر گلاوان کو ایک قبائلی آدی واسی برادری قرار دیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالروارثاالانور نے کشمیر میں قائم نیوز پورٹل پر لکھا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایک معروف آدی واسی قبائلی برادری گلوان سے تھا۔

خاندانی پش منظر

آپ کے پر دادا کارا گلوان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ امیروں کو لوٹتے اور غریبوں میں بانٹ دیا کرتے تہے۔ غریب لوگوں میں آپ کی شبیہہ سرپرست کی تھی جبکہ امیر اور مالدار لوگوں میں آپ کی دہشت تھی۔ ان کے دادا محمود گلوان کشمیر سے بلتیستان اور پھر لہہ آکر آباد ہوگئے تھے۔

شخصیت

آپ تقریبا 1878  میں لداخ کے صدر مقام لہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کثیر جہتی شخصیت کے مالک تھے۔ بچپن سے ہی آپ بہت ذہین تھے، دیواروں پر عمدہ پینٹنگز بناتے تھے۔ جسے دیکھ کر لوگ آپکی والدہ سے کہتے تھے کہ آپ کا بیٹا ایک دن بہت آگے جائے گا۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں کے کھیلوں سے دور رہتے تھے۔بچپن سے ہی تخلیقی جبلت کے حامل تھے.انہیں لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن لہہ میں کوئی اسکول نہیں تھا,امیر اپنے بچیوں کے لیے اساتذہ رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ اپنی والدہ سے پڑھنے کے لیے اصرار کیا کرتے تھے۔

 ایک بار آپ کی والدہ نے ان سے کہا تھا کہ ہم غریب لوگ ہیں۔ میرے پاس تمہارے استاد کو دینے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ پڑھنا لکھنا امیر لوگوں کا کام ہے، ہمارا نہیں، دوسرے یہ کہ ہمارے اجداد تعلیم یافتہ نہیں تھے ۔انہوں نے سخت محنت کی۔ وہ محنت مشقت کرنے والے لوگ تھے۔ تمہیں بھی ویسا ہی کرناچاہیے، یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا۔ آپ نے اپنی والدہ سے کہا کہ ہاں  ہمارے آباواجداد نے اپنی روزی روٹی کے لئے بہت محنت کی ہے لیکن میں پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ شاید میری قسمت اچھی ہو اور میں اچھی چیزیں سیکھوں جو مستقبل کے لئے اچھا ہو ، میں یقینی طور پر ضرور کچھ پڑھنا چاہتا ہوں، اگر آپ مناصب سمچہیں تو مجھے ٹیچر کے پاس جانے دیں۔ میں نے سنا ہے کہ پڑھنا بہترین عمل ہے، یہ تھوڑا مہنگا ہے لیکن آپ بعد میں پیسہ کما سکتے ہیں۔والدہ نے کہا کہ "نہیں تم درزی کے پاس جاو، تمہارے مستقبل کے لئے اچھا ہوگا اوراس میں کوئی خرچ بھی نہیں ہے۔ (صفحہ 11 ، سروینٹ آف صاحب)

آپ کی والدہ نے آپ کو درزی دکاندار کے پاس بھیج دیا لیکن وہاں آپ کا من بالکل بھی نہیں لگتا تھا۔غمزدہ رہتے تھے، ہمیشہ سوچا کرتے تھے کہ اگر میں پیسہ والا ہوتا تو پڑھای کر پاتا، دکاندار آپ کو بہت مارتا پیٹتا تھا, تنگ آکر وہ وہاں سے فرار ہوگئے۔

جب پہلی بار، بہت ہی چھوٹی عمر میں، وہ ڈاکٹر ٹریل کے ساتھ تلاشی سفر پر جارہے تھے، تب آپ کی والدہ نے آپ کے کرتہ میں 3 روپے رکھ کر سلائی کر کے دیے اور کہا کہ جب صاحب (غیر ملکی کھوجی مسافر) کے دیے ہوئے پیسے ختم ہو جائیں اور ضرورت  پڑے تب اسے خرچ کرنا لیکن پہلے اپنے صاحب کو بتادینا کہ تمہارے پاس کتنا پیسہ ہے۔ کہاں رکھا ہے۔ ورنہ جب کوئی صاحب کو لوٹے گا اور وہ تمہارے پاس پیسہ دیکھے گا تو سمجھے گا کہ تم چور ہو۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے آپ  اپنی والدہ سے لپیٹ کر خوب روۓ, سلام کیا اور ان کے پاؤں چھوئے، پھر محلے اور گاؤں کے سارے لوگوں کو سلام کیا پھر بہن کے گھر جاکر سلام پیش کرکے روانہ ہوگئے. (صفحہ- 25 ، سروینٹ آف صاحب)

کچھ عرصے کے بعد ایک مشنری پادری نے لہہ میں اسکول کھولا ، گلوان کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پھر سے ہچکولے مارنےلگا لیکن وہ اپنی ماں کو جانتا تھا۔ لہذا اپنی بہن سے سفارش کروا کر اسکول میں داخلہ لے لیا۔ وہاں آپ بڑی تیزی سے دوسرے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ تے ہوۓ آگے بڑھنے لگۓ۔ جس  وجہ سے پادری بہت خوش ہوا, اسنے گلوان کی خوب داد و تحسین کیا جس نے گلوان کے اعتماد کو اور مستحکم کردیا

مطالعہ کا عمل اور صاحب لوگوں کے ساتھہ کھوجی-سفر کا سلسلہ چلتا رہا. سفر کے دوران جو ایک لمبے عرصے تک چلتا رہتا تھا، گلوان اپنے پڑھی ہوئی چیزوں کو بار بار دہراتے رہتے تھے۔تاکہ چیزیں ذہن نشیں رہیں. آپ لداخی ، ترکی ، اردو ، کشمیری ، تبتی اور انگریزی زبانوں سے واقف تھے۔

اپنی اہلیہ کیتھرین کو لکھے گئے ایک خط میں امریکی مسافر رابرٹ بیریٹ نے گلوان صاحب کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔رسول اعلی اخلاق کا حامل ہے, یہاں تک کہ ایک نہایت مہذب و شریف انسان بھی،کوئی اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں اور اپنے لوگوں کے نگہبان ہیں۔ وہ سانولی رنگت والے دلکش مسکراہٹ والے اپنے کام میں ماہر ایک خوب صورت انسان ہیں۔ انکی آواز سب سے میٹہی انسانی آواز ہے جو میں نے کبھی سنی ہے۔ وہ عورت  ہو ہی نہیں سکتی جو  پہلی نظر میں انہیں دل نہ دے بیٹھے لیکن ان کی اخلاقیات کی سطح بہت بلند ہے۔ خواتین ان کا لحاظ ایسے کرتی ہیں جیسے وہ کوئی ولی ہوں

بقول لیفٹیننٹ کرنل سر فرانسس ینگ ہاسبینڈ ، "آپ کو اللہ پر اٹل یقین تھا۔ ان کا ایمان ہر پریشانی ، آزمائش اور مایوسی میں ان کا سہارا تھا۔ بلاشبہ، عقیدت کی اس عادت نے انہیں عمدہ آدمی بنا دیا۔ وہ ایک گاؤں کے بچے کی حیثیت سے اپنی معاش کا آغاز کرتے ہوئے انتہائی غربت کے پس منظر سے آئے۔ لیکن ہر حال میں وہ مہذب آدمی کی طرح پیش آتے تھے۔ وہ پیدائشی طور پر بہترین قصہ گو ، واضح طور پر ایک مشہور گلوکار اور ایک بہترین بینجو پلیئر تھے۔

اپنی سوانح عمری کی اشاعت کے دو سال بعد، 1925 میں 47 برس کی عمر میں اس دنیا سے چل بسے۔

چینی فوجیوں سے دو-دو ہاتھہ

پسماندہ صدیوں سے اس سر زمین پر آباد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اس خطے سے قدرتی لگاؤ ​​ہے۔ آخر کیوں نہ ہو انسان اپنے وطن سے اپنی ماں کی طرح محبت کرتا ہے. یہ ایک بڑی وجہ رہی ہے کہ ہندوستان کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں پسماندہ ہمیشہ سے ہی فرنٹ لائن پر رہا ہے۔ اس نے کبھی نہیں دیکھا کہ ملک کا اقتدار کن کے پاس ہے۔ اس کی ترجیح ہمیشہ اس کا گھر یعنی اس کا ملک رہا ہے. جس کے تحفظ کے لئے وہ اپنی تمام تر پریشانیوں اور بے سر و سامانی کے باوجود بھی قربانی دیتا رہا ہے۔ 

ایک بار جب وہ شام کے وقت کیمپ میں واپس آۓ تو پتا چلا کہ کچھ چینی فوجیوں نے میجر صاحب اور ہیڈ مین پر حملہ کیا ہے۔  گلوان صاحب کو بہت غصہ آیا۔آپ نے اپنے ساتھ کلام اور رمضان کے ساتھ چینی فوجیوں کی جم کر دھولائی کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ آکر میجر صاحب سے معافی مانگنے لگیں۔ دوسرے دن اچانک کلام آئے اور بتایا کہ بازار میں چینی ہم لوگوں کو مار رہے ہیں۔ رسول گلوان فورا وہاں پہنچے ۔دیکھا کہ پوری مارکیٹ چینی فوجیوں سے بھری ہوئی ہے اور وہ لوگوں کو مار رہے ہیں۔ فورا ہی جنگ میں کود پڑے، چینی فوجیوں نے انکا ڈنڈا توڑ دیا اور انہیں بری طرح سے زخمی کردیا ۔ وہ زمین پر گر گۓ۔ پھر بھی وہ انھیں مارتے رہے اور اٹھ کر بھاگ گئے۔ کچھ دیر بعد میجرصاحب ہیڈ مین کے ساتھ آئے۔ انہوں نے ادھ مرے حالت میں پڑے گلوان سے کہاکہ رسول آپ کو دکھی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں آپ تنہا گرے ہیں اور وہاں سات چینی فوجی اوران کا ایک افسر گرا پڑا ہیں۔اس بات نے ان کے  چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ بیکہیر دی۔ انکا ساتھی رمضان بھی زخمی تہا۔ (صفحات،76،77،78،سروینٹ آف صاحب)

غلام رسول اس بات سے قطع نظر کہ انگریز خود غیر ملکی ہیں،ہندوستان پر قابض ہیں۔انہوں نے یہ زیادہ اہم سمجھا کہ چینی فوجیوں کا حوصلہ توڑا جائے تاکہ وہ کبھی ہماری سرحدوں کی طرف آنکھہ اٹھا کر نہ دیکھ سکے اور اس کے لیۓ انہون نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان تک کو خطرہ میں ڈال دیا۔

آج ایک بار پھر رسول گلوان ہندوستان کی سرحد کے دفاع کے لئے بعد از مرگ اہم کردار میں ہیں۔ ایک ہندوستانی کے ذریعہ وادی کی دریافت اورانکے نام  پر اس کی نامزدگی نے بہارت کے دعوے کو مزید تقویت بخش ہے۔