ثاقب سلیم، نئی دہلی
میں مذاہب کے وحدت میں یقین رکھتا ہوں اور اسلام بھی میرا مذہب ہے۔
یہ بات راجہ مہندر پرتاپ نے 1920 کی دہائی میں ایک چینی سفر کے دوران منگولوں کو خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ مہندر پرتاپ نے مادرِ وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ انھوں نے انسانوں کے درمیان محبت پھیلانے کے لیے کام کیا۔انھوں نے ہمیشہ بے لوث خدمت کی اور کبھی بھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی۔
آج جب وزیراعظم نریندر مودی ان کے نام پر ایک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہیں، یہی وہ موقع ہے جب کہ ان کی تعلیمات کو یاد کیا جائے، جس میں محبت اور بھائی چارہ کی باتیں ہیں۔
راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ کے مرسن نامی علاقے میں 1886 میں ہوئی، ان کے والد کا نام راجہ گھنشیام سنگھ بہادر تھا۔
تین برس کی عمر میں ہاتھرس کے راجہ ہرنارائین سنگھ نے انہیں گود لے لیا۔
علیگڑھ، متھورا اور بلند شہر کے متعدد دیہی علاقے ان کے خاندان کی تحویل میں تھے، جہاں سے ان کے خاندان کو سالانہ محصول آیا کرتے تھے۔
اگرچہ ان کے اہل خانہ آریہ سماجی تھے اور ویدک مذہب میں یقین رکھنے کے ساتھ اس پر خطاب بھی کیا کرتے تھے۔ تاہم ان کا خاندان ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا زندہ مثال بنا رہا۔
راجہ مہندر پرتاپ کے الفاظ میں : میرا خاندان وشنو مذہب میں یقین رکھنے کےساتھ ساتھ اسلام کا بھی حامی رہا۔ مرسن خاندان میں 'راجہ بہادر' کالقب دراصل مغل بادشاہوں نے عطا کیا تھا۔
مرسن سے تعلق رکھنے والے میرے دادا راجہ گھنشیام سنگھ بہادر فارسی زبان کے ماہر تھے۔ وہ بھرت ہری شتک(Bharthari Shatak ) کا ترجمہ فارسی میں کرنا جانتے تھے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مہندر کی تعلیم گھر پر ہی شروع ہوئی، جہاں ایک پنڈت نے انہیں سنسکرت اور ہندی زبان کی تعلیم دی، وہیں ایک مولوی نے انہیں فارسی زبان کے اصول وقواعد سے آگاہ کیا۔
راجہ مہندر پرتاپ جب آٹھ برس کے ہوئے تو انہیں اسکول میں داخل کرایا گیا۔
ان کا داخلہ سرسید احمد خان کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل (Muhammadan Anglo Oriental) میں کرایا گیا۔ ان کے والد کا شمار سرسید احمد خاں کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔
اسکول کے اندرسرسیداحمد خاں بذات خود راجہ مہندر پرتاپ کی کارکردگی کو دیکھا کرتے تھے۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ ایک بار سرسید نے انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا کہ وہ انہیں ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں کیوں وہ ان کے والد کے دوست ہیں۔
سرسید کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید محمود نے راجہ مہندر پرتاپ سے کہا تھا کہ سرسید کے پوتے سرراس مسعود اور مہندر آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
راجہ مہندر پرتاپ نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں ایم اے او کے اشرف علی جیسے اساتذہ کرام کو یاد کیا ہے، جو کہ جنم اشٹمی کے موقع پر روزہ رکھا کرتے تھے۔
وہیں انھوں نے احمد حسین جیسے اپنے عظیم دوست کو بھی یاد کیا ہے، جو انھیں اپنا بھائی کہتے تھے۔ اس طرح کے ماحول میں راجہ مہندر پرتاپ پرورش ہوئی، جہاں مذہب سے اوپر اُٹھ کر بات کی جاتی تھی اور انسانیت و سچائی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
سن 1913 میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوں کے مقدس مقام دوارکا( Dwarka) گئے۔ وہاں ایک پجاری نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس طبقے سےتعلق رکھتے ہیں۔
انھوں نے برجستہ جواب دیا: میں صفائی کرمچاری(sweeper) ہوں۔
اس کے بعد پجاری نے ان سے کہا کہ وہ مندر میں داخل ہوکر پوجا نہیں کرسکتے ہیں۔ مہندر پجاری کے حکم کو مانتے ہوئے مندر میں داخل نہیں ہوئے۔ ان کے اہل خانہ بھی پجاری کے تعظیم میں مندر میں داخل نہیں ہوئے۔
جب اس علاقے کے گورنر نے ان کے اہل خانہ کے اعزاز میں عشایہ رکھا اور انہیں ذاتی طور پر مندر میں لے جانا چاہا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اب اس مندر میں داخل ہونا نہیں چاہیں گے کیوں کہ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت ایسے لوگوں کے ذمہ ہے، جنہیں انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
سنہ 1914 میں پہلی جنگ عظیم یورپ میں شروع ہوگئی۔ درایں اثنا مہندر نے جنگی مہم میں داخل ہوکر برطانی راج سے ہندوستان کوآزاد کرانے کا منصوبہ بنایا۔
وہ اپنے سکریٹری ہریش چندر کے ساتھ یورپ کے سفر پر روانہ ہوگئے، بعد میں ان کے سکریٹری ہریش چندر سوامی شردھانند کے طور پر مشہور ہوئے۔
وہاں انھوں نے شیام جی کرشن ورما اور لالہ ہردیال جیسے انقلابی رہنماوں سے ملاقات کی۔اس کے علاوہ جنیوا میں ان کی ملاقات سروجنی نائیڈو کے بھائی سے بھی ہوئی، جوانہیں جرمنی کے شہنشاہ قیصر( Kaiser) کے پاس لے گئے۔ خیال رہے کہ جرمنی ان دنوں برطانوی حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔
جرمنی کے زمانہ قیام میں انہیں دو درجن سے زائدہ ہندستانی شہزادوں اور نوابوں کے حمایتی خطوط موصول ہوئے، اس کے علاوہ جنگ میں ساتھ دینے کے لیے افغانستان کے امیر کا بھی خط ملا۔
راجہ مہندر پرتاپ مولانابرکت اللہ کے ہمراہ افغانستان کے امیرسے ملنے کے لیے جرمنی سے چل پڑے۔ راستے میں انھوں نے ترکی کے سلطان سے بھی ملاقات کی، وہاں انھوں نے اپنے مقصد کو بیان اور ان سے تعاون کی اپیل کی۔
سمندر اور صحراوں کے طویل سفر کے بعد وہ افغانستان کے شہر ہرات پہنچ گئے۔ہرات کے گورنر نے سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا۔افغانوں نے انہیں مختلف قسم کے تحائف دیے اور ان کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بنوائے۔ انہیں مختلف مساجد کا دوراہ کروایا۔
یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ کو کسی بھی مسجد کے میں داخل ہونے سے پہلے جوتا اُتارنے کی درخواست نہیں کی گئی، جس سے وہ بے حد متاثر ہوئے۔
راجہ مہندر پرتاپ 2 اکتوبر 1915 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے۔ وہاں پہلے سے ہی مولاناعبیداللہ سندھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہندوستان سے پہنچ چکے تھے۔
راجہ مہندر پرتاپ نے افغانستان کے امیر حبیب اللہ سے ملاقات اور انہیں جرمنی کے قیصر اور ترکی کے سلطان کے حمایتی خطوط بھی دکھائے۔ افغان حکومت نے ان کی حمایت کا یقین دلایا اور اسی وقت ایک عارضی حکومت شکیل دی گئی۔ راجہ مہندر پرتاپ کو اس 'عبوری حکومت'کا صدر بنایا گیا، مولانا برکت اللہ کو وزیراعطم اور مولانا عبیداللہ سندھی کو وزیرداخلہ نامزد کیا گیا۔
حکومت نے مدد حاصل کرنے کے لیے مختلف ممالک میں وفود بھیجے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی مقبوضہ ہندوستان کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے اور افغانستان میں ایک فوج تیار کی جائے ، برطانوی فوج کے خلاف جنگ شروع کی جائے اور ہندوستان کو آزاد کرا لیا جائے۔
کابل کے زمانہ قیام میں راجہ مہندر پرتاپ نے اپنی فارسی زبان مزید بہتر کی اور فارسی زبان میں ایک کتاب 'محبت کا مذہب' لکھی ، انھوں نے ایک 'نئےمذہب' کو بھی تشکیل دینی چاہی تھی، جس کا مرکزی عقیدہ محبت اور انسانیت ہوتا۔
ان کا خیال تھا کہ تمام مذاہب محبت اور ہمدری کی تعلیم دیتے ہیں، وہ ایک بے مثال خدا پر یقین رکھتے تھے، جو یہ چاہتا ہے کہ ہم ایک بہتر معاشرے میں اپنی زندگی کے ایام گزاریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندو، مسلمان، سیکھ، یہودی، عیسائی اور دوسرے تمام لوگ انسانیت میں یقین رکھتے ہیں۔
انھوں نے نہ صرف محبت کی تعلیم دی بلکہ انھوں نے عملاً اسے کرکے بھی دکھا دیا۔
انھوں نے مولاناعبیداللہ سندھی سے بطور خاص یہ بات کہی تھی کہ افغانوں کی مدد سے ہندوستان کو فتح حاصل ہوگی تو وہ کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کریں گے بلکہ اپنے نئے مذہب'محبت' کے مبلغ بن جائیں گے۔
منصوبے کے مطابق برطانوی راج کے ساتھ ان کی جنگ شروع ہوکر ختم ہوگئی مگر ان کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔
انھوں نے افغانستان کے شاہ امان اللہ کے ساتھ مل کر بھی کام کیا۔ انھوں نے افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور دوبارہ برطانیہ مخالف حمایت اکھٹا کرنے کی کوشش کی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان کو 'اپنایا ہواملک' سمجھتے تھے۔
راجہ مہندر پرتاپ حقیقی معنی میں امن اور محبت کے مبلغ تھے۔ وہیں وہ تمام مذاہب کی اچھی باتوں میں یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے گرو دوارہ، مندر، گرجا گھر اور مسجد میں جاکر پوجا بھی کی تاکہ آپس میں بھائی چارہ قائم رہے۔
اس مختصر سے مضمون میں ہندوستان کے اس عظیم فرزند کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ میں اس مضمون کے ذریعہ انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جو ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کے حقیقی معنوں میں پروردہ تھے۔
مضمون کےآخر میں، میں راجہ مہندر پرتاپ کے الفاظ کو دہرانا چاہوں گا:
میں ناکام ہوں، میں دنیا کی نظر میں ناکام ہوں،جو چیز لوگوں کی نظر میں ناکامی ہے، وہ میری نظر میں کامیابی ہے۔
نوٹ: ثاقب سلیم مصنف اور تاریخ نگار ہیں۔