رفیع احمد قدوائی:جنگ آزادی کے اہم سپاہی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-10-2022
رفیع احمد قدوائی:جنگ آزادی کے اہم سپاہی
رفیع احمد قدوائی:جنگ آزادی کے اہم سپاہی

 

 

نجم الدین احمد فاروقی

روز ازل سے ہمارا ملک ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کا نمونہ رہا ہے۔ برٹش سامراج سے نجات دلانے، قدیم گنگا جمنی اقدار کی حفاظت کرنے، تحریک آزادی میں قربانیاں دینے اور جمہوری نظام کے قائم کرنے میں بھارت کے صف اول کے سپوتوں میں رفیع احمد قدوائی صاحب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ جسے کبھی بھلایا نہیں کا سکتا۔

آپ کی پیدائش 18 فروری 1894 کو اسی سرزمین مسولی میں ہوئی تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا نسب نامہ ہائے بارہویں صدی کے ممتاز قدوۃ الاولیاء قاضی معاذ الدین سے ملتا ہے، جو قاضی قدوا کے نام سے مشہور ہوئے، بارہویں صدی کے اواخر میں ہندوستان تشریف لائے اور ایودھیا میں متوطن ہوے۔ آپ کی اولادیں ضلع بارہ بنکی کے مختلف معروف قصبات میں آکر آباد ہوئیں۔ رفیع صاحب کے اجداد مسولی میں سکونت پذیر ہوئے۔district gazetteer میں قصبہ مسولی کے قیام کی تاریخ 750 برس قبل کی ملتی ہے ۔

اجداد میں ایک معروف نام ظہیر الدین عرف گہرن میاں کا ہے جو آپ کے پر دادا تھے جو انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ آپ کے دادا ممتاز علی صاحب کے دو بیٹے تھے بڑے آپ کے والد ماجد امتیاز علی صاحب عرف لالہ میاں جو انتہائی نیک ایماندار اور غریب پرور بزرگ تھے، ملازمت کے سلسلے میں اکثر باہر رہا کرتے تھے۔ اور دوسرے ولایت علی صاحب جو مولانا محمد علی جوہر کے ساتھیوں میں تھے وکالت کے سلسلے میں بارہ بنکی میں رہتے تھے۔ دس برس کی عمر سے رفیع صاحب کی پڑھائی کی ذمے داری آپ کے چچا نے اپنے اوپر لے لی، 1913 میں گورنمنٹ اسکول بارہ بنکی سے میٹرک پاس کیا۔ 1916 میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کا داخلہ علی گڑھ کےM A O کالج میں ہو گیا جہاں سے بی اے کرنے بعد ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ میں طالب علموں کی یونین میں باقاعدہ سر گرم عمل رہے۔

گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کا حصہ ہونے کے باعثLLB کی تعلیم مکمل نہ کر سکے اور اپنے وطن مسولی واپس آ گئے۔ یہاں آکر گاؤں کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنا شروع کیا۔ اس درمیان کانگریسی کارکنان جو چچا کے ملاقاتیوں میں تھے ان سے بھی سابقہ پڑتا رہا۔ احتجاج، جلسے اور جلوسوں میں شریک رہنے کی وجہ سے 1922 میں گرفتار ہوئے اور لکھنؤ جیل بھیج دیئے گئے۔ جیل میں موتی لعل جی اور نہرو جی کی قربت حاصل ہوئی۔ والد صاحب سرکاری ملازمت میں تھے اُنہیں اور دوسرے گھر والوں کو آپ کی سیاسی سگرمیوں کی وجہ سے دشواریوں کا سامنا تھا۔ اس لئے گھر سے علاحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ موتی لعل جی کو پتہ چلا تو اُنہیں کے ایماء پر اُتر پردیش کانگریس کے الہآباد دفتر کا سیکریٹری بنا دیا گیا۔ آپ کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر صوبائی کانگریس کا صدر منتخب کیا جس عہدے پر مسلسل نو برس رہے. مزید برآں موتی لال جی نے اُنہیں اپنا سیکریٹری مقرر کیا۔

چاہے وہnon cooperation movement رہا ہو یاcivil disobedience تقریباً ہرnationalist movements میں رفیع صاحب صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواہ صوبائی وزیر رہے ہوں یا مرکزی، متعلقہ شعبوں میں ہمیشہ ہر ممکن اصلاحات کرنے کو کوشاں رہے۔ 1946 میں ہندو اکثریت والے صوبے اُتر پردیش کے پہلے مسلم وزیر داخلہ بنائے گئے۔ وزارت سنبھالنے کے بعد پہلا اہم کام سیاسی قیدیوں کی آزادی اور جیلوں میں کئے جانے والے ضروریreforms کا قیام عمل ہے۔ ضلع بلیا اور دوسرے اضلاع میں بھارت چھوڑو تحریک میں شامل لوگوں کی زمینیں ضبط کر لی گئیں تھیں مکان گرا دیے گئے تھے اور جرمانے لگائے گئے تھے، ان سبھی مظلومین کو خاطر خواہ معاوضہ ادا کیا گیا۔ 1947 کو بنی پہلی مرکزی نہرو کابینہ میں ڈاک تار و مواصلاتی شعبے کے وزیر بنے۔

پورے ملک میں ڈاک کے پہنچنے میں خاصی تاخیر ہوا کرتی تھی لہٰذا ہوائی خدمات کے راتوں کو استعمال پر غور کیا گیا۔ پرائیویٹ ہوائی کمپنیوں نے متحدہ طور پر اس فیصلے کی مخالفت کی۔ آپ نے نیپال کی “ہمالین ایئر لائنز” سے یہ خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تمام مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر قائم رہے۔ یہ پروگرام نہ صرف ملک بلکہ مستقبل میں بیرون ممالک میں بھی بہت مقبول ہوا۔ نظام کو فروغ دینے کے لئے زیادہ تعداد میں ٹرینڈ پائلٹوں کی ضرورت درپیش تھی، فلائنگ کلبوں سے مدد لی گئی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک کے لئے بھی فلائٹیں شروع ہو گئیں۔ 1939 کے مقابلے 1949 میں ملک گیر پیمانے پر ہوائی اڑانوں کا رقبہ کئی سو گنہ بڑھ چکا تھا۔ رفیع صاحب ائیر لائنز کو اب سرکاری تحویل میں لینا چاہتے تھے مگر زندگی نے ساتھ نہ دیا۔ انتقال کے کچھ ہی سالوں بعد ہی ہوائی کمپنیوں کوnationalise کیا گیا۔ اکتوبر 1947 میں بڑا سانحہ پیش آیا چھوٹے بھائی شفیع احمد صاحب کو فرقہ وارانہ فساد میں دہرادون میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی موت کا اپ کے قلب و ذہن پر گہرا اثر تھا۔

1952 میں ہوئے پہلے انتخابات میں کانگریس کو بھاری اکثریت سے فتح ہوئی نہرو جی صدر منتخب ہوئے۔ اس فتح میں رفیع صاحب کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ انتخاب جیتنے کے بعد کانگریس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اناج یعنیfood اورcivil supplies کا تھا۔ مُلک کو اس بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کے سامنے رفیع صاحب سے بہتر دوسرا نام نہ تھا لہٰذا ان کوfood minister بنایا گیا۔ سب سے پہلے آپ نے اناج کی منڈیوں اور ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کرکے یہ اندازہ کر لیا کہ ملک میں اناج کا بڑا ذخیرہ موجود ہے مگر عوام تک پہنچ نہیں رہا ہے۔ لہٰذاrationing کو اس دلیل پر ختم کر دیا کہ اناج عوام تک پہنچ نہیں پا رہا ہے اور بازار کے دام بڑھتے جاتے ہیں۔ اُن کی تقاریر سے مُلک گیر پیمانے پر نفسیاتی ماحول تیار ہوا، جمع خوری بند ہوئی اور مال کھلے بازار میں آ گیا۔

مسلسل محنت، ملاقاتوں، سرکاری کاموں کی مصروفیات اور دوروں کا صحت پر منفی اثر ہوا۔ 24 اکتوبر 1954 کو لکھنؤ اور کانپور دورے سے واپس دلی پہنچے، بڑیpublic meeting تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو خطاب کرنا تھا طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بمشکل کھڑے ہو سکے۔ چند منٹ بولنے کے بعد دل کا دورہ پڑا، گھر پہنچے اور کچھ ہی دیر میں وقت آخر ا گیا اور آپ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ سن 1947 کے پر آشوب دور میں جب دلی اور پنجاب میں قتلِ عام ہو رہا تھا ایسے میں رفیع صاحب نے مختلف مسلم تنظیموں کے رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ نا اُمید ہونے کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ اُنہیں قومی یکجحتی اور قیام امن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

آئیے ہم سب مل کر دعائے مغفرت کریں۔ اور یہ تہیّہ کریں کہ رفیع احمد صاحب اور دوسرے بزرگوں نے اس ملک کے لئے جو قربانیاں دی ہیں اُنہیں رایگان نہ جانے دیں گے۔ کسی سیاسی پارٹی سے مخالفت ہو سکتی ہے مگر اپنے دلوں میں برادرانِ وطن اور وطن عزیز کے لئے کبھی کڑواہٹ نہ آنے دیں گے اور ہمیشہ اپنے پیارے ملک ہندوستان کے لئے دِل و جان سے خدمت کرنے کو تیار رہیں گے۔