قندیل نور تصوف خواجہ معین الدین چشتی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-02-2021
 مزارخواجہ معین الدین چشتی
مزارخواجہ معین الدین چشتی

 

خواجہ صاحب کی ہندوستان آمدایک انقلاب کا آغاز

خواجہ صاحب نے بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کی خبر گیری کی

سلسلہ چشتیہ کا درخت ہندوستان میں خواجہ صاحب نےلگایا

akhtar   پروفیسر اختر الواسع

         تصوف کا لفظ اگر قرآن و سنت میں ڈھونڈا جائے تو نہیں ملے گالیکن تصوف کی حقیقت اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر نظر آئے گی۔ حدیث جبرئیل کے یہ الفاظ کہ آپ اس طرح عبادت کریں گویا آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ خدا کو نہیں دیکھ رہے ہیں تو وہ آپ کودیکھ رہا ہے، یہ کیفیت جس کو حدیث میں احسان کہا گیا ہے یہی در اصل تصوف کی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کا لفظی پیکر تصوف ہے۔

         تصوف اور اصلاح باطن کا یہ سلسلہ چوں کہ ایک شدید روحانی ضرورت تھی، اس کے بغیر روحانی آسودگی حاصل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے یہ سلسلہ اپنے اس امتیاز و تشخص کے ساتھ بہت جلد عالم اسلام میں پھیل گیا بلکہ اس کی ضیاء باریاں ان دور درواز علاقوں تک بھی پہنچی، جہاں ابھی تک ظلمت شب سایہ فگن تھی اور نور حق و صداقت کی روشنی نے وہاں پوری طرح پردہ ظلمت کو چاک نہیں کیا تھا۔

         ہندوستان وہ سرزمین ہے جس کو اگر دین دھرم کی سرزمین کہا جائے تو بے جانہ ہوگا، یہاں صدیوں سے رشیوں، منیوں، سادھوؤں، سنتوں اور مذہبی رہنماؤں کے اُپدیش لوگوں کا مارگ درشن کرتے رہے اور مذہب کے نام پر یہاں بڑے بڑے انقلاب بھی آئے، اس لیے یہ سرزمین مذہب کی حقیقت سے بے بہرہ نہیں تھی۔ البتہ گردش اَیام کی گرد پانے یہاں کی مذہبیت کو بھی متاثر کیا تھا اور مذہب کے نام پر مختلف طرح کے استحصالات شروع ہو گئے تھے، ایسے ماحول میں نور تصوف کی قندیل لے کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سرزمین ہند میں وارد ہوئے اور اس وقت ہندوستان کے سب سے اہم مرکزی مقام، اجمیر میں قیام پذیر ہوئے، یہ ان کے قدموں کی برکت تھی کہ رائے پتھورا کا اجمیر، اب ہمیشہ کے لیے اجمیر شریف ہو گیا اورہمیشہ کے لئے حضرت خواجہ سے وابستہ ہو گیا۔

سرزمین ہند پر حضرت خواجہ اجمیری کا ورود مسعود کوئی سادہ واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عہد ساز، عہد آفریں اور انقلاب انگیز آغاز ہے جس نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کی۔ حضرت خواجہ نے تصوف کے سلسلہ چشتیہ کی بنیاد اس سرزمین پر رکھی اور یہی سلسلہ ہے جس نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد رکھی، جس کی کلاہ افتخار میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر،ؒ حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیرؒی، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین ؒاولیاء، حضرت شاہ نصیر الدینؒ چراغ دہلی اور سدا بہار مورخ، ادیب و شاعر، موسیقی کار، بے زبانوں کی زبان امیر خسرو اور خواجہ بندہ نواز گیسو دؒراز جیسے گراں بہا ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ نے یہاں کے مذہب، سماج، معاشرت،ادب لوک ادب، موسیقی، سیاست، معیشت ہر چیز کو متاثر کیا، اور ایک ایسی تہذیبی و ثقافتی عمارت کھڑی کی جس کے شاندار آثار آج بھی ایستادہ ہیں۔

         دہلی سے پہلے کے ہندوستان میں اجمیر کی وہی اہمیت تھی جو بعد میں دہلی کو حاصل ہونے والی تھی، اس وقت اجمیر ہندوستان کا قلب تھا، جس طرح بعد کے زمانے میں دہلی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی کہ یہاں کی ہر تبدیلی سارے ہندوستان کے اندر تبدیلی کی علامت بن جاتی تھی۔ اسی طرح اس وقت اجمیرکا مقام تھا۔چونکہ حضرت خواجہ کو اس پورے ملک میں کام کرنا تھا اسی لیے آپ نے اجمیر کو منتخب فرمایا، کیوں کہ اجمیر سے جو پیغام اٹھے گا وہ پورے ملک میں پھیلے گا اور اگر اجمیر میں اصلاح ہو گی تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑے گے، حضرت خواجہ نے اجمیر کو مستقر بناکر انسانیت کاپیغام دیا اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جس کے اثرات بتدریج پورے ملک میں ظاہر ہونے شروع ہوئے۔

         حضرت خواجہ غریب نواز کے مرشد خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ نے حضرت کو ایک نصیحت کی تھی کہ اے معین الدین اب تم نے فقیری اختیار کر لی ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ فقیروں کی طرح اعمال کرنا اور وہ اعمال یہ ہیں: غریبوں سے محبت کرنا، ناداروں کی خدمت کرنا، برائیوں سے اجتناب کرنا، مصیبت اور پریشانی میں ثابت قدم رہنا، حضرت خواجہ نے اس نصیحت کو حرز جان بنایا اور اس ملک کے غریب پسماندہ اور دبے کچلے لوگوں کے لیے ابر رحمت بنا کر برسے۔

         انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کی خبر گیری کی، دکھی دلوں کے لیے مرہم کا کام کیا اور نہ صرف خود اس کا عملی نمونہ بنے بلکہ ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جس نے پہلے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور پھر ملک کے طول و عرض میں اس کی ضیا پاشیاں پھیل گئیں اور امن و آشتی اور محبت و یقین، عزم و حوصلہ اور جرأت و ہمت نیز خدمت خلق، خدا پرستی اور اپنے مالک سے براہ راست ربط و تعلق کی جو بنیاد استوار کی، جو پیغام دیا وہ پورے ملک کے عوام کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا۔

         سلسلہ چشتیہ کا درخت ہندوستان میں حضرت نے ہی لگایا تھا جس کے اثرات ملک کے طول و عرض میں آج بھی زندہ و تابندہ نظر آتے ہیں۔ جن کی ضیا پاش کرنیں آج بھی لوگوں کی تاریک زندگیوں کو ظلمت کدوں سے نکال کر منور کر رہی ہیں۔

         حضرت خواجہ نے ملک و ملت کی بے لوث خدمت کی، ان کو اس کی ضرورت نہیں کہ لوگ ان کے ساتھ عقیدت کا اظہار کریں۔ ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوں۔ لیکن خدمت خلق کے بہر حال اپنے اثرات ہوتے ہیں اور جس جذبہ اور خلوص کے ساتھ انجام دی جائے اسی زور و قوت کے ساتھ اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت کی خدمات کا اعتراف خود حضرت کے عہد سے آج تک ہمیشہ کیا جاتا رہا اور بلا تفریق مذہب و ملت ہر طرح کے لوگ آپ کے آستانے پر حاضری دیتے رہے۔

         (مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)