ترقی پسند غزل گو :کیفی اعظمی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-02-2024
 ترقی پسند غزل گو :کیفی اعظمی
ترقی پسند غزل گو :کیفی اعظمی

 



(عمیر منظر (اسسٹنٹ پروفیسر 

کیفی اعظمی(۱۹۱۸۔۲۰۰۲) کا شمار اردو کے مقبول عام شعرا میں ہوتا ہے ۔شاعری کے بالکل ابتدائی دنوں میں مانی جائسی جیسے استاد سخن نے ایک مشاعرہ میں ان کے کلام کی تحسین فرمائی تھی ۔کیفی اعظمی کا یہ پہلا مشاعرہ تھا ۔اسی داد سے حوصلہ پاکر انھوں نے شاعری کے لیے خود کو سنجیدہ کرلیا اوریہ خیال بھی دل میں آیا کہ کیوں نہ کسی استاد کا باقاعدہ دامن تھام لیا جائے ۔لکھنؤ میں سرگرم شعرو سخن کی محفلوں سے کیفی اعظمی کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ اسی کے جلو میں کیفی کی شاعری پروان چڑھ رہی تھی ۔اس وقت یہاں کے شعری منظرنامے پر آرزو لکھنوی اور صفی لکھنوی جیسے اساتذۂ سخن کا شہرہ تھا ۔کیفی نے صفی لکھنو ی سے رجوع کیا ۔
آگے کا حال خود کیفی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔
 میں آرزو صاحب کے مقابلے میں صفی صاحب کو زیادہ پسند کرتا تھا ہمت کر کے ان کے دولت خانے پر پہنچ گیا وہ مولوی گنج میں رہتے تھے، میں نے اطلاع بھجوائی صفی صاحب کا بڑا پن ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے بلالیا ۔وہ ایک کھری چارپائی پر لنگی باند ھے اور بنیائن پہنے بیٹھے تھے ۔میں پہنچا تو سر اٹھا کے میری طرف دیکھا اور آنے کی وجہ پوچھی میں نے عرض کیا میں آپ سے اصلاح لینا چاہتا ہوں انہوں نے ایک بار پھر مجھے غور سے دیکھا اور پوچھا کچھ کہا ہے میں نے یہی غزل سنائی(اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے۔ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے۔مدت کے بعد اس نے کی جو لطف کی نگاہ ۔میں خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے) مولانا صفی نے ہر ایک شعر پر سر ہلایا اور ہر شعر مکرر پڑھوایا اور داد دی، ظاہر ہے کہ میرے لئے یہ بہت تھا پھر انہوں نے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے میں نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کے اپنا قد اونچا کر کے کہا۱ ا(گیارہ )برس، یہ سن کر وہ مسکرائے، انہوں نے کہا میری شاعری کی عمر اس وقت ۶۵ برس کی ہے اگر تمہارے کلام میں زبان اور بیان کی کوئی خامی ہوتو میں اسے ضرور ٹھیک کر سکتا ہوں لیکن ایسا کرنے میں تمہاری فکر کی گرمی بھی چلی جائے گی ،۱۱/ برس کے سینے میں جو حد ت ہوتی ہے وہ ۶۵ برس کے سینے میں نہیں ہو سکتی ۔تم ایک خاص عقیدت سے میرے پاس اصلاح کے لیے آئے ہو لیکن اصلاح کے بعد جب جاؤ گے تو کڑھتے ہوئے جاؤ گے کہ میری غزل خراب کر دی۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر واہ واہ سے گمراہ نہ ہو تو لکھتے رہو اور پڑھتے رہو۔ شعر کی خامیاں خشک پتوں کی طرح گرتی جائیں گی اور خوبیاں نئی کونپلوں کی طرح پھوٹتی رہیں گی۔(میں اور میری شاعری)
صفی لکھنوی کے ان کلمات کو رہنما بنا کر کیفی نے اپنا شعری سفر شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کیفی اعظمی نے شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا اور ابتدا میں جن دو بزرگوں نے ان کا حوصلہ بڑھا یا تھا ان کا شمار غزل کے ممتاز شعرا میں ہوتا۔ لیکن کیفی اعظمی کے پورے شعری منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعرتھے ۔ رومانی اور انقلابی نظموں کے ساتھ ساتھ سماجی شعور اور بیداری کے جذبات سے مملو نظمیں بھی ان کے شناخت نامے کا حصہ ہیں ۔سیاسی مسائل ومعاملات اور عصری منظرنامے کی ترجمانی بھی ان کی نظموں کا خاصہ ہے ۔نظموں کی ان جہتوں نے ان کی شاعری کو ایک ایسا نگار خانہ بنارکھا ہے جس میں تنوع اور رنگارنگی ہے ۔جذبات واحساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ غم دوراں کا تلخ تجربہ بھی ہے ۔حالات اور ز مانے کے مسائل کی ترجمانی کے سبب ہی کرشن چندر نے ان کی شاعری کو پتھر کی شاعری کہا یعنی ظلم کی دیوار سے ٹکرانا جبکہ آغا رشید نے کیفی اعظمی کی شاعری کو ‘گھاٹ کے پتھر سے تعبیر کیا ہے’ ۔پانی کی موجیں اس پتھر سے ٹکراتی ہیں اور پھر لوٹ جاتی ہیں بالکل اسی طرح کیفی کی شاعری سے بھی وقت کی تیز و تند موجیں ٹکراتی ہیں اور لو ٹ جاتی ہیں ۔
کیفی اعظمی کے یہاں نظموں کے مقابلے میں غزلوں کی تعداد بہت ہی کم ہے ۔تعداد کی کمی کے سبب ہی شاید ان پر توجہ نہیں دی گئی اور پھر نظموں میں جس طرح کا تنوع ملتاہے اوروہ جس آہنگ سے نظمیں پڑھتے تھے اس کے سبب بھی انھیں زیادہ مقبولیت ملی ۔اس تناظر میں اگر ان کی غزلوں کو دیکھاجائے تو ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن ان غزلوں کے مضامین اور انداز و اسلوب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی یہ شاعری بھی کئی اعتبار سے اہم ہے ۔واضح رہے کہ کیفی کی شاعری کا ایک اہم دور لکھنؤ سے وابستہ ہے ۔ان کی شگفتہ بیانی اور روانی میں یہاں کے شعری رویوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہمارے بعض ناقدین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ‘‘کیفی کے اسلوب بیان میں میر انیس کے مرثیوں کی روایات کے بہت سے عناصر جذب ہوگئے تھے’’ ۔کم غزلوں کے باوجود کیفی اعظمی کی غزلیں اس صنف سے ان کی گہری وابستگی کا پتا دیتی ہیں ۔کیفی کا ایک شعر ہے 
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا 
مجھے تو آج طلب کرلیا ہے صحرانے 
ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں ؂
یہ کہہ کے ٹوٹ گیا شاخ گل سے آخری پھول 
اب اور دیر ہے کتنی بہار آنے میں 
اردو غزل کی روایت میں یہ مضامین نئے نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت پامال مضامین کی کہی جاسکتی ہے لیکن کیفی اعظمی نے بار بار کے خلق کیے ہوئے مضامین سے مضمون نکالا ۔ان اشعار کی روانی بھی قابل توجہ ہے ۔پہلے شعر میں‘ طلب کرلیا ہے صحرا نے’ کافقرہ بھی کتنا برمحل ہے ۔ صحرا کی طلب اور بہار کو سلام کہنے میں تضاد کے عنصر کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔غزل کا روایتی عاشق دراصل صحرا کا ہی طلب گار رہتا ہے بلکہ ایک طرح سے وہیں کی بود و باش رکھتا ہے ۔ مولانا عبدالسلام ندوی کا ایک شعر ہے ۔
سامان کیا زیارت صحرا کے واسطے 
چادر لپیٹ لی کبھی عریاں نکل پڑے 
دوسرا شعر انتظار کی ایک کیفیت کو ظاہر کرتا ہے ۔یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ پھول کی زندگی لمحاتی ہے ۔میر کا شعر بالکل سامنے کا ہے 
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات 
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا 
 ایک لمحہ کا انتظار بھی عاشق پر کس قدر شاق گذرتا ہے ۔اسے عاشق کی بے چینی اور بے قرار ی بھی کہہ سکتے ہیں ۔
کیفی اعظمی کا ایک اور بہت مشہور شعر ہے۔ 
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا تھا قتل مرا 
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا 
عام طورپر ہماری شعری روایت میں اس نوع کے مضامین میں محبوب کی پشیمانی یا رونے کی کیفیت کا ذکر ملتا ہے ۔البتہ کیفی اعظمی نے آلہ قتل کا ذکر کرکے شعر کو ایک دوسری جہت دینے کی کوشش کی ہے ۔میر کا بہت مشہور شعر ہے ۔
جم گیا خوں کف قابل پہ میرا میر زبس 
ان کے رورو دیے کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے 
مشاعروں کے نہایت مقبول عام شاعر بیکل اتساہی کا شعر ہے ۔
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد 
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا 
کیفی اعظمی کا ایک شعر ہے 
اٹھا کے سرمجھے اتنا تو دیکھ لینے دے 
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا 
یہی دیوانے مقتل کی سرخ روئی کا سبب ہیں اور کسی مقصد کے تحت اپنی جانوں کی قربانی دینے والے بھی دیوانے ہیں ۔یعنی دیوانگی صرف عشق یا محبت کی نہیں ہوتی ۔یہ شعر کیفی اعظمی کے خاص مزاج اور تحریک سے وابستگی کا اشاریہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ان لوگوں نے کیسے کیسے دن نہیں دیکھے مگر کسی قربانی سے گریز نہیں کیا اب ایسے عالم میں اگر قتل گاہ میں دیوانوں کی بھیڑ لگ جائے تو ایک طرح سے اس جدوجہد اور کوشش کے رنگ لانے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے جس کے لیے کیفی اعظمی سرگرم تھے ۔
کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن تھے اور یہ سرگرمی محض علمی یا شعری نہیں تھی بلکہ عملی بھی تھی ۔انھوں نے شاعری کے انھیں رویوں کو قبول کیا جس سے لوگوں تک ان کا پیغام پہنچ سکے ۔اور بلا شبہ اس پیغام کو پہنچایا بھی ۔زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا بھی جس کا بہتر طورپر اظہار ان کی نظموں میں ملتا ہے البتہ غزلوں میں بھی کہیں کہیں اس کے اشارے تلاش کیے جاسکتے ہیں ۔
اب جس طرف بھی چاہے گذر جائے کارواں 
ویرانیاں تو سب مرے اندراتر گئیں 
اس طرح کے اشعار بہت ہی کم ہیں لیکن پھر بھی اپنی داخلی اظہار کے سبب توجہ کے حامل ٹھہرتے ہیں ۔کیفی اعظمی کی غزلوں کے کچھ اشعار کسی تبصرے کے بغیر یہاں نقل کیے جارہے ہیں ۔یہ ا شعار مختلف کیفیات اور احساسات کے حامل ہیں ۔ان اشعار میں جو مضامین بیان کیے گئے ہیں وہ زندگی کے عام تجربوں کا حصہ ہیں اور شاید اسی سبب سے یہ اشعار زیادہ متوجہ کرتے ہیں ۔
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا 
گاؤں سے جب بھی آگیا کوئی 
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد 
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا 
جسم جل جائیں گے جب سرپہ نہ سایا ہوگا 
لگ گیا اک مشین میں میں بھی 
شہر میں لے کے آگیا کوئی
 ان اشعار کے مطالعے سے کیفی اعظمی کی عمومی فکر کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے سبب عام سماجی موضوعات کا دائرہ ان کے یہاں زیادہ وسیع ہے ۔سماجی موضوعات میں انسانی دردمندی کا میلان خاصے کی چیز ہے ۔
ایلیا اہرن برگ نے کیفی کے بارے میں کہا تھا ۔
ایک ادیب کے لیے یہی ضروری نہیں کہ وہ ایسے ادب کی تخلیق کرے جو مستقبل کی صدیوں کے لیے ہو اسے ایسے ادب کی تخلیق بھی کرنی چاہیے جو صرف ایک لمحے کے لیے ہو ۔اگر اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو ۔(آخر شب کے ہم سفر ص ۵)
ان اشعار کے توسط سے کیفی اعظمی کے غزلیہ کینوس کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نظموں کی طرح غزلوں میں بھی کیفی اعظمی کے یہاں تنوع اور اسلوب کی روانی خاصے کی چیز ہے ۔کیفی اعظمی کی غزلیں دراصل ہماری شعری روایت کا ایک سرگرم حصہ ہیں ۔دلفریبی اور دل نوازی کی مختلف کیفیات کااظہار ان کی غزلیہ شاعری کا ایک متحرک پیکر ہے ۔ اسی تناظر میں دیگر مضامین اورلکھنوی اندازواسلوب کا بانکپن کیفی اعظمی کی غزلوں کو دلکشی و رعنائی کا جواز بھی فراہم کرتا ہے ۔
عمیر منظر ، عبۂ اردو ۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس