دہلی میں اردو اساتذہ کی بھرتی کا مسئلہ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-01-2022
دہلی میں اردو اساتذہ کی بھرتی کا مسئلہ؟
دہلی میں اردو اساتذہ کی بھرتی کا مسئلہ؟

 

 

 پروفیسر اخترالواسع

عام آعادمی پارٹی کی دہلی حکومت میں اردو والوں کی دیرینہ فرمائش پر ٹی جی ٹی (اردو) کی ۹۱۷؍اسامیاں مشتہر کرائیں اور ۸؍ستمبر۲۰۲۱ء کو اردو اساتذہ کی اسامیوں کے لئے امتحان میں ۱۵۲۲؍ امیدواروں نے آن لائن امتحان دیا لیکن جو نتائج آئے و ہ بہت مایوس کن اور تشویشناک رہے ہیں کیوں کہ۹۱۷؍اسامیوں میں سے مرد اور خواتین کو ملا کر کل ۱۷۷؍امیدوار ہی پاس ہو پائے۔ یعنی ۷۴۰؍ پوسٹیں پھر خالی رہ گئیں جو کہ بہت افسوسناک ہے-

اب ایک نئی بھاگ دوڑ شروع ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اساتذہ کی اسامیوں کی بھرتی کے لئے جو دو پرچے ہوتے ہیں اس میں پہلے پیپر میں پاس ہونا لازمی ہوتا ہے جو کہ جنرل پیپر ہوتا ہے اور اس میں جنرل زمرے میں چالیس فیصد اور او بی سی زمرے میں ۳۵؍فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو والے اتنے نمبر بھی پہلے پرچے میں نہیں لا پائے اور اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پہلے پرچے میں پاس ہونے کو ضروری قرار نہ دیا جائے اور پہلے پیپر میں اور اردو کا جو پیپر ہے انہیں دونوں کو ملا کر اردو والوں کے پاس ہونے کا تناسب نکالا جائے۔ غالباً اس مطالبے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو پھر اردو کی ساری پوسٹیں بھر جائیں گی۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی رعایتوں کے سہارے کسی بھی مضمون کے اساتذہ کی بھرتی کو کس طرح جائز کہا جا سکتا ہے؟ استاد اگر خود رعایتوں یا سفارش کی بیساکھیوں سے کلاس روم میں جائیں گے تو وہ کس طرح اپنے کلاس کے بچوں کو دنیا سے مقابلہ کرنے کا اہل بنا پائیں گے؟

ہمارے دوست منظر علی خاں نے، جو کہ ظرف ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی کے صدر ہیں اور اردو اساتذہ کی تقرری اور اردو کی تعلیم کو ممکن اور موثر بنانے کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں، یہ ڈر بھی ظاہر کیا ہے کہ جو۱۷۷؍امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ضروری نہیں کہ ان سب کا بھی تقرر ہو۔ ان کے بقول بہت سے امیدوار کہیں نہ کہیں خامی یا درازی عمر کی وجہ سے باہر کر دیے جائیں گے اور ان ۱۷۷؍میں سے بھی ۱۲۰؍لوگوں کا ہی تقرر ہو پائے گا۔

جناب منظر علی خاں کی طرح ہمیں بھی اس صورتحال پر تکلیف بھی ہے اور افسوس بھی، لیکن انہوں نے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر جویہ مطالبہ کیا ہے کہ اردو ٹیچر کی کمی کی وجہ سے ان امیدواروں کا میرٹ دونوں پیپر ملا کر نکالا جائے اور اگر ایسا کیا جائے تو پھر اردو کی ساری پوسٹ بھر جائیں گی۔

پہلی بات تو یہ کہ ایسا کرنے پر بھی ساری پوسٹیں نہ بھری گئیں تو کیا ہوگا؟ دوسرے جن مستقبل کے اردو اساتذہ کو اپنے زمانے کے دیگر بنیادی اور ضروری مضامین کا علم و ادراک ہی نہیں وہ آنے والی نسل کے اردو پڑھنے والے بچوں کے ساتھ کیا انصاف کر پائیں گے؟

کچھ ناکام امیدوار دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین جناب تاج محمد صاحب سے اسی بات کو لے کر ملے اور انہوں نے بھی انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں نائب وزیراعلیٰ سے بات کریں گے۔

راقم الحروف کو اس بات کا بخوبی پتا ہے کہ اس کی ان باتوں سے وہ نوجوان جو کہ اس مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکے، ناراض ہوں گے لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک اچھے استاد کی سچی پہچان محبت اور محنت سے عبارت ہوتی ہے اور اگر استاد مطلوبہ لیاقت اور مہارت سے عاری ہے تو وہ کلاس روم میں خود تماشہ بن کر رہ جاتا ہے اور اپنے طلبہ کے بیچ اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتا۔ ویسے بھی اس دنیا میں جہاں سب کو خوب سے خوب تر کی تلاش رہتی ہے-

جہاں ایک استاد صرف کسی ایک مضمون تک محدود نہیں رہتا ہے اور خاص طور سے اسکول کی سطح پر تو اسے ہنگامی ضرورتوں کے تحت کوئی بھی مضمون پڑھانے کو دیا جا سکتا ہے- خاص طور سے سوشل سائنسیز اور ہیومنٹیز سے تعلق رکھنے والے مضامین۔ اب اگر آپ نے اپنے خصوصی مضمون کے علاوہ دیگر مضامین میں ضروری مہارت حاصل نہیں کی تو آپ اپنے لئے کوئی اچھی جگہ نہیں بنا سکتے۔

ایک ایسے وقت میں جب سیکنڈ دویژن لانے والے بھی اچھے کالجوں میں داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں اور مقابلہ اب ۹۰؍فیصد سے صد فیصد کے بیچ میں ہے تو ایسے وقت میں اردو والوں کو نہ صرف اردو میں بلکہ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے سوشل سائنسیز اور ہیومنٹیز جیسے دوسرے میں مضامین میں بھی ملکہ حاصل کرنا ہوگا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس کے بجائے کہ رعایتیں مانگتے پھریں، اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین اور اردو سے متعلق اداروں کے دیگر ذمہ داروں سے مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ وہ نائب وزیر اعلیٰ، جو وزیرتعلیم بھی ہیں اور اردو اکیڈمی بھی ان کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، سے یہ گزارش کریں کہ اردو میں جو ۷۴۰؍ سیٹیں نہیں بھری جا سکی ہیں ان کا دوبارہ امتحان کرایا جائے اور ہر وہ امیدوار جو اس میں کامیابی حاصل کرے، اگر اس کی عمر یہ مقابلہ جاتی امتحان دوبارہ پاس کرتے وقت زیادہ ہو جاتی ہے تو اس کی عمر اس وقت سے دیکھی اور مانی جائے جب اس نے ان اسامیوں کی مشتہری کے وقت فارم بھرا تھا۔

اس کے ساتھ دہلی اردو اکیڈمی کو اس مجوزہ مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھنے والوں کی کوچنگ کا مستحکم اور منصوبہ بند طریقے کا انتظام کرے۔ اور اس طرح سے اس بات کو یقینی بنائے کہ ہمارے بچے اور بچیاں دوسرے پرچے میں ہی نہیں پہلے پرچے میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کریں۔

یہاں دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین اور دیگر ذمہ داروں کو مجھے صرف یہ یاد دلانا ہے کہ جب اردو اساتذہ کی بھرتی کے لئے سرکار نے سی ٹی ای ٹی کو لازمی قرار دیا تھا تو اردو اکیڈمی نے بہت اہتمام کے ساتھ ان بچوں کی کوچنگ کا انتظام کیا تھا اور یہ بات ہمیشہ باعث اطمینان رہے گی کہ اردو اکیڈمی کی اس کوچنگ کے اس نتیجے میں اس کے کوچنگ سینٹر سے تربیت یافتہ لڑکے اور لڑکیاں سی ٹی ای ٹی کے امتحان میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے۔

اگر کل یہ ہو سکتا ہے تو آج کیوں نہیں؟

اگر اردو اکیڈمی کے پاس جگہ کی کمی کا مسئلہ ہو یا دہلی جس طرح پھیلتی جا رہی ہے اس سے امیدواروں کو کسی ایک جگہ پہنچنا آسان نہ ہو تو دہلی اردو اکیڈمی اس میں ایک مرکزی اور محوری ادارے کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فیکلٹی آف ایجوکیشن، انجمن ترقی اردو (ہند)، غالب اکیڈمی، ایوان غالب، جمنا پار میں ذاکر حسین اسکول، کریسنٹ پبلک اسکول، نظام الدین میں نیوہورائیزن اسکول اور ہمدرد پبلک اسکول جیسے اداروں سے اشتراکِ عمل کے ذریعے اسے ممکن بنا سکتی ہے۔ اگر دو سے تین مہینے کی باقاعدہ، باضابطہ، منظم اور منصوبہ بند کوچنگ کا انتظام ہو جائے ان سارے اداروں میں تو ۷۴۰؍سیٹوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد دیکھتے بنے گی۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)