شیخ محمد یونس، حیدرآباد
میرے دادا اور والد محترم اردو داں کے ساتھ ساتھ محب اردو تھے۔وہ اردو میں بات کرتے تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ میرے والد نے اردو زبان میں ڈائری تحریر کی اور اس ڈائری کو پڑھنے کے تجسس اور اردو زبان سے بے پناہ محبت کے سبب میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا اور ملازمت کو ترک کرتے ہوئے نہ صرف اردو زبان پر عبور حاصل کیا بلکہ اردو میں ڈاکٹرآف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی۔اردو تعلیم کے حصول پر مجھے فخر ہے۔یہ تاثرات ڈاکٹر امرناتھ کے ہیں جن کا تخلص راہگیر ہے۔امرناتھ نے مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی حیدرآباد سے اردو میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ہے۔
انہوں نے اپنا مقالہ ”آزادی کے بعد دہلی میں اُردو افسانے کا تنقیدی تجزیہ“ ، پروفیسر محمد نسیم الدین فریس کی نگرانی میں مکمل کیا تھا۔
ان کا وائیوا 9 فروری کو منعقد ہوا تھا۔ واضح رہے کہ امرناتھ نے پی ایچ ڈی سے قبل مانو سے اردو میں ایم اے (فاصلاتی) اور فارسی میں ڈپلوما بھی کیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے دہلی اردو اکیڈیمی سے اردو سرٹیفکیٹ کورس، دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ڈپلوما اور اڈوانسڈ ڈپلوما بھی کیا ہے۔
وہ اردو سے یو جی سی نیٹ بھی کامیاب ہیں۔ان کے 4 مضامین یو جی سی کیئر کی فہرست میں شامل جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے 8 قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں اپنے مقالے پیش کیے ہیں۔
خاندانی پس منظر
ڈاکٹر امرناتھ پرانی دہلی کے ساکن ہیں ان کے دادا بہاری لال ' والد ہیرا لال اور تایا اندراجیت اردو داں تھے۔امرناتھ بچپن ہی سے اردو زبان کو سنتے تھے ۔انہیں اردو الفاظ سے لگائو اور محبت ہوگئی۔وہ بچپن ہی سے اردو زبان کی تعلیم کے متمنی تھے۔تاہم ان کی خواہش کی تکمیل کیلئے کافی عرصہ لگا۔
ڈاکٹرامرناتھ کی دختر انگریزی ذریعہ تعلیم سے بی ایس سی گریجویٹ ہیں۔تاہم اسے بھی وہ اردو سکھا رہے ہیں۔ان کی دختر نے ادارہ ادبیات اردو کے امتحانات اردو دانی' زبان دانی میں کامیابی حاصل کی ہے۔علاوہ ازیں امرناتھ حیدرآباد میں قیام کے دوران ان امتحانات کیلئے ممتحن کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔امرناتھ کو ورزش اور میراتھن دوڑ پسند ہے۔
تعلیم اور حالات زندگی
امرناتھ نے ہندی ذریعہ تعلیم سے گریجویشن کی تکمیل کی۔انہوں نے بارہویں جماعت تک تعلیم ڈی اے وی اسکول دریا گنج ' دہلی سے حاصل کی۔امرناتھ نے سال 1991میں ہندو کالج دہلی یونیورسٹی سے بی اے کامیاب کیا۔
اردو زبان سے محبت کے باعث وہ اسی سال ایوننگ میں اردو اکیڈیمی دہلی سے اردو سرٹیفکیٹ کورس کی تکمیل کی۔گھر کے معاشی حالات ابتر ہونے پر وہ حصول تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور مختلف ملازمتیں اختیار کیں۔امرناتھ کے والد ہیرا لال جوتے کے سول کے ڈاءی بنانے کی فیکٹری ہے۔
سال 1997 میں ہیرا لال کا دیہانت ہوگیا اور گھر کی ذمہ داری امرناتھ پر آن پڑی اور وہ خاندان کی کفالت میں لگ گئے۔امرناتھ جب بھی اپنے والد کی اردو ڈائری کو دیکھتے تو انہیں اپنے والد کے اردو الفاظ یاد آتے۔معاشی مجبوریات کے باعث وہ خاموشی اختیار کرلیتے۔تاہم اردو زبان کے تئیں ان کی محبت اور جستجو میں کبھی بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔
امرناتھ نے 30 سال کے طویل ترین وقفہ کے بعد اردو زبان سیکھنے کی اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا تہیہ کیا اور سال 2010میں دہلی یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایک سالہ ڈپلومہ کورس کی تکمیل کی اور پھر سال 2011میں دہلی یونیورسٹی سے ہی اڈوانس ڈپلومہ اردو کورس مکمل کیا۔امرناتھ نے سال 2012میں فاصلاتی طرز میں مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد میں ایم اے اردو میں داخلہ حاصل کیا اور سال 2014میں کامیابی حاصل کی۔
امرناتھ نے اردو زبان میں نیٹ امتحان بھی کامیاب کیا ہے۔اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے امرناتھ نے پونہ میں جاری اپنی ملازمت کو بھی ترک کیا۔انہوں نے مولانا آزاد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ حاصل کیا اور ''آزادی کے بعد دہلی میں اردو افسانہ کے تنقیدی جائزہ'' پر پروفیسر محمد نسیم الدین فریس کی نگرانی میں 369 صفحات پر مشتمل ضخیم مقالہ پیش کیا اور پی ایچ ڈی کے حقدار قرار دیئے گئے۔
امرناتھ نے فارسی زبان میں بھی ڈپلومہ کورس کیا ہے اور متعدد رسالوں اور کتب میں ان کے اردو مضامین شائع ہوچکے ہیں۔وہ قومی او ربین الاقوامی سمیناروں میں بھی مقالے پیش کئے ہیں۔وہ افسانہ نگار بھی ہیں۔امرناتھ 'کتابیں بھی تحریر کررہے ہیں جو عنقریب منظر عام پر آئیں گی۔بہ حالت موجودہ فری لانس طورپر اردو ' ہندی اور انگریزی مواد کی تصحیح ایڈیٹنگ کے کام سے وابستہ ہیں۔
اردو کو مذہب اور طبقہ سے جوڑنا غلط۔
امر ناتھ نے آواز دی وائس کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا آزاد یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کرنے والے وہ اولین غیر مسلم شخص ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو کسی بھی مذہب اور طبقہ سے جوڑنا غلط اور کم علمی کی علامت ہے۔
اردو کی بقاء ہم سب کی ذمہ داری
امرناتھ نے کہاکہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور اس کے فروغ اور اس کی بقاء کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان روزگار سے مربوط نہ ہونے کے باعث مشکلات پیش آرہی ہیں۔تاہم ہمیں اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور بقاء پر بہر صورت توجہ دینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہر بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہئے۔
امر ناتھ نے کہا کہ ہم گیمس ' موبائل' سیر و تفریح کیلئے اپنا کافی وقت صرف کرتے ہیں تو کیا ہم ہماری اپنی اردو زبان سیکھنے کیلئے تھوڑا سا وقت نکال نہیں سکتے۔امرناتھ نے کہا کہ جو کوئی بھی شخص کوئی بھی زبان سیکھتا ہے تو وہ اس کی زبان ہوجاتی ہے۔اسی طرح اردو زبان بھی سب کی ہے۔ہماری تہذیب اور کلچر سے متعلق اردو زبان میں کافی مواد موجود ہے۔ہمیں اپنے کلچر اور تہذیب کو سمجھنے کیلئے اردو سے واقف ہونا ضروری ہے۔
امرناتھ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اردو زبان روزگار سے مربوط نہیں ہے۔ارد و داں حضرات کیلئے تعلیمی اداروں ' اردواخبارات اور رسائل میں ہی روزگار کے مواقع ہیں۔تاہم ہم صرف ذریعہ روزگار کا بہانہ بناتے ہوئے اس قدر شیریں زبان کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے۔
اردو یونیورسٹی مشترکہ تہذیب کی علامت
امرناتھ نے کہاکہ اردو یونیورسٹی مشترکہ اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔جہاں بہترین اور خوشگوار ماحول میں حصول تعلیم کا نظم ہے۔میں نے دہلی سے حیدرآباد کا رخ کیا تاہم مجھے کبھی بھی ایسا محسو س نہیں ہوا کہ نئی جگہ آگیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ان کے استاد پروفیسر نسیم الدین فریس ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان بھی ہیں۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کا شاگرد ہوں۔
اردو کی خدمت کا عزم
امرناتھ نے کہا کہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت ان پر لازم ہے اور وہ اردو کی خدمت کیلئے خود کو وقف کردیں گے۔وہ اپنی دختر کو بھی اردو سکھا رہے ہیں اور نوجوان نسل کو اردو زبان سے واقف کروانے کیلئے حتی المقدور مساعی کریں گے۔انہوں نے کہاکہ وہ اسسٹنٹ پروفیسر اردو کے عہدہ کے حصول کیلئے تیاری کررہے ہیں۔وہ پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہوتے ہوئے اردو کی خدمت کا عزم مصمم رکھتے ہیں۔