حق و انصاف کا متلاشی فلسطین

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-05-2022
 حق و انصاف کا متلاشی فلسطین
حق و انصاف کا متلاشی فلسطین

 

 

awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 رمضان میں جمعوں کے مقدس اور متبرک دنوں میں اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جارحانہ طور پر داخل ہوکر فلسطینی نمازیوں کے خلاف آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ واقف کار لوگوں کا ماننا ہے کہ تشدد کے ان واقعات کا سبب یہودی تہوار ’’پاس اوور‘‘ ہے (جسے پشاخ بھی کہتے ہیں۔) جسے عبرانی کلینڈر کے نسان مہینے کی پندرہ تاریخ کو بنی اسرائیل کی مصر میں غلامی سے نجات کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔

اس موقعے پر بڑی تعداد میں یہودی مغربی دیوار کا رخ کر رہے ہیں اور فلسطینیوں کا اکسا رہے ہیں۔ مغربی دیوار کی طرف یہودیوں کا جانا اس اسٹیٹس کو(Statusquo) معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت وہ بعض مخصوص صورتوں میں ہی مغربی دیوار تک جا سکتے ہیں اور وہاں انہیں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

یہودیوں کی مغربی دیوار تک حالیہ پیش قدمی کا مقصد عبادت سے زیادہ مسلمانوں کو مشتعل کرنا ہے کیوں کہ وہ مغربی دیوار یا دیوارِ گِریہ سے آگے بڑھتے ہوئے مسجد اقصیٰ تک آ جاتے ہیں، وہاں نمازیوں کو اکساتے ہیں اور اس طرح اسٹیٹس کو (Statusquo) کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتے بلکہ ایسی اشتعال انگیز حرکتیں بھی کرتے ہیں کہ جب فلسطینی احتجاج کریں تو اسرائیلی پولیس نہ صرف یہ کہ مسجد اقصیٰ میں جارحانہ طور پر داخل ہو جائے اور غیرضروری طور پر بلا امتیاز فلسطینی نمازیوں جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین سب کو اپنی بربریت کا نشانہ بنائے۔

گزشتہ دو جمعوں کے درمیان اس طرح کے حادثات میں 200 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے متعدد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرنا پڑا ہے۔ صورتحال اتنی سنگین اور پیچیدہ ہے کہ کسی وقت بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اگرچہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں طرف کے حکام کسی بھی ممکنہ بڑے تصادم سے گریز اور بچنے کی بات کرتے ہیں۔

اسرائیل کے سلسلے میں یہ بہت کڑوی سچائی ہے کہ وہ یورپی ممالک جو اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں وہ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ایک یہودی ریاست اور اس کے صیہونی ایجنڈے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ امریکہ ہو یا یورپ کے اکثر ممالک، وہ 1947 اور 1948 میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی صرف دو مذہبی ریاستوں پاکستان اور اسرائیل کے سب سے زیادہ سگے بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سلسلے میں فکرمندی کا اظہار کرنے والے، مذہبی تعصب کے نام پر اکثر ممالک کی تنقید کرنے والے ان ممالک کو اسرائیل کا ظلم و ستم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا شاید کوئی پتا ہی نہیں چلتا یا پھر جان بوجھ کر یہ اس سے آنکھیں موند لیتے ہیں۔

ہم یہ بخوبی جانتے ہیں اور ہماری ساری ہمدردیاں بلاشبہ ان یہودیوں کے ساتھ ہیں جنہیں جرمنی اور اس کے آس پاس کے ملکوں میں نازیوں کے ذریعے ہولوکاسٹ کا شکار ہونا پڑا اور لاکھوں یہودی یا تو اپنی جان گنوا بیٹھے یا اپنے پیاروں کا زخم ان کے حصے میں آیا یا مغرب میں اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ لیکن مغرب کی عیاری یہ ہے کہ اس نے اپنے گناہوں کا کفارہ خود ادا کرنے کے بجائے فلسطین کے رہنے والوں کو جن میں صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی شامل ہیں، اس پر مجبور کیا کہ یہودیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی جو نازیوں نے کی تھی اس کی قیمت وہ ادا کریں اور مغرب میں بے دست و پا کئے گئے یہودیوں کو اسرائیل نامی ریاست بناکر وہاں بس جانے کا موقعہ دیا گیا۔

مغرب کے اس مکروفریب بھری روش پر مہاتما گاندھی نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ ’’فلسطین یعنی موجودہ اسرائیل اسی طرح فلسطینیوں کا ہے جس طرح برطانیہ انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا اور یہ غلط بھی ہے اور غیرانسانی فعل بھی کہ یہودیوں کو عربوں پر مسلط کیا جائے۔‘‘ ہندوستان نے فلسطینیوں کے جدوجہد کی شروع سے حمایت کی۔ جواہر لال نہرو ہوں یا اندرا گاندھی یا پھر راجیو گاندھی، سب فلسطینیوں کے حق میں سینہ سپر رہے بلکہ فلسطین کی تحریکِ آزادی (پی ایل او) کے لیڈر اور فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کی علامت یاسر عرفات، اندرا گاندھی کو اپنی بہن کہتے تھے۔

اب جب کہ اُردن کے فرماں رواملک عبداللہ ابن الحسین جو کہ مسجد اقصیٰ کے متولی بھی ہیں، انہوں نے بھی ایک بار پھر دنیا کے انصاف پسندوں کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، عرب لیگ نے اسرائیل کے رویوں اور پالیسیوں بالخصوص مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے اور سعودی عرب میں او آئی سی کا اجلاس اسی موضوع پر بلایا جا رہا ہے جس میں ظاہری بات ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور مسجد اقصیٰ کی اسرائیل کے ذریعے توہین کے خلاف ریزولیوشن پاس ہوگا۔ لیکن کیا یہ زبانی جمع خرچ کافی ہوگا؟

کیا اس نشستندُ، گفتندُ، برخاستندُ سے کچھ حاصل ہونے والا ہے؟ یقینا اس کا جواب افسوس ناک حد تک نفی میں ہے۔ ہم بھی جنگ نہیں چاہتے اور امن کے غیر مشروط طور پر حامی ہیں لیکن اس سچائی سے انکار بھی نہیں کر سکتے کہ دنیا میں اس وقت تک تناؤ کم نہیں ہوگا جب تک کہ مشرق وسطی میں امن مستحکم نہیں ہوتا اور مشرق وسطیٰ میں امن کا استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا۔ یروشلم، جسے اسرائیل نے شہرِ مقدس سے شہرِ مصلوب بنا دیا ہے مسلمانوں کو نہیں مل جاتا۔

اس حقیقت کے ساتھ ہم ایک اور سچائی کو بھی جانتے ہیں، کہ اب عالمِ اسلام کی طرف سے یہ ذمہ داری ان ممالک کی ہے جو نہ صرف اسرائیل کے پڑوسی ہیں اور جنہوں نے خیرسگالی، امن و آشتی کے قیام اور اپنے علاقے میں تناؤ کو کم کرنے کے لئے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے ہوئے ہیں انہیں اسرائیل کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ اسرائیل سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔

اور اسے تسلیم کرکے ، سفارتی تعلقات بحال کرکے انہوں نے اپنی نیک نیتی اور پہل کو ثابت بھی کر دیا ہے لیکن اب یہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسلم ملکوں کی کوششوں کو ناکام نہ ہونے دے، ان کی ساکھ کو گرنے نہ دے اور ان مسلم ملکوں کو جو اسرائیل کے اب حریف نہیں بلکہ حلیف بن چکے ہیں انہیں اسرائیل کے امریکی اور یورپی حامیوں کو بھی یہ بتانا چاہیے کہ دنیا میں قیام امن کے لئے انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اب یہی وقت ہے کہ جب کیمپ دیوڈ معاہدے کے تحت دو ریاستی منصوبے کو واضح طور پر عملی شکل دی جائے۔

یاسر عرفات نے پستول چھوڑ کر زیتون کی شاخ کو امن کے قیام اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کے لئے جس طرح تھاما تھا آج اسرائیل کو اس کی قدر کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دے دینے چاہئیں اور فلسطین اور اسرائیل کے باشندے ایک بہتر انصاف پسند، امن دوست پڑوسی ممالک کے طور پر رہ سکیں۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)