مسئلہ فلسطین:ہندوستان پرامن تصفیہ میں ادا کرسکتا ہے بہت اہم کردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-05-2021
مسئلہ سنگین ہے مگر حل ممکن ہے
مسئلہ سنگین ہے مگر حل ممکن ہے

 

 

awazurdu

ایم ودود ساجد/ نئی دہلی

فلسطین کے مسئلہ پر مذہبی اور سیاسی نظریہ کے اعتبار سے مختلف جذبات ہوسکتے ہیں۔لیکن یہ مسئلہ اب ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے کہ جہاں جذبات پر ضبط کا بند باندھ کر سوچنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔محاذ پر جولوگ لڑ رہے ہیں جانی اور مالی نقصان انہی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دنیا اس پر افسوس کا اظہار کرسکتی ہے‘ اظہار یکجہتی کرسکتی ہے‘ سفارتی سطح پر دونوں متصادم گروہوں کے درمیان امن قائم کرنے کیلئے رابطہ کا کام کرسکتی ہے اور مجاز چینل کے توسط سے لٹے پٹے فلسطینیوں کو مادی امدادپہنچاسکتی ہے۔اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتی۔

۔ 73سال پہلے جس نئے ملک کو عالمی طاقتوں نے آباد کیا تھا وہ اب محض ایک ملک نہیں رہا۔وہ ایک ایسی مہیب مگر مضبوط حقیقت کی شکل میں سامنے ہے کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔عربوں نے پچھلی پانچ دہائیوں میں فلسطین کی آزادی کیلئے چار جنگیں لڑیں اور ہر بار فلسطین کا رقبہ گھٹتا چلا گیا۔اگر قانونی طورپر جائزاور وسائل سے آراستہ طاقتیں چار جنگوں میں سے ایک بھی نہ جیت سکیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر مشکل سے دوچار فلسطینی عوام اپنی جدوجہد کو کس مشکل سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔یہ ایسے میں اور بھی مشکل ہے کہ جب فلسطینیوں کے پاس نہ اپنی پولیس ہے اور نہ اپنا ایرپورٹ۔ان کی نام نہاد فلسطین اتھارٹی کے پاس نہ وزارت داخلہ ہے اور نہ وزارت خزانہ۔نہ دفاع ان کے پاس ہے اور نہ فوج۔ہر طرف اسرائیلی فورسز کا تصرف ہے۔بیت المقدس کا وسیع وعریض احاطہ بھی اسرائیلی فوج کی نگرانی میں ہے۔

 یہ بھی ایک حیرت انگیز مگر دلچسپ حقیقت ہے کہ چار جنگیں لڑنے کے بعد عربوں نے بھی ہتھیار ڈال دئے ہیں۔اب دوچار کے استثناء کے ساتھ زیادہ تر کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اسرائیل کے ساتھ روابط قائم ہوگئے ہیں۔یہ سب ایک دوسرے سے تجارتی اور ’مصنوعاتی‘ فائدے اٹھارہے ہیں۔ اسرائیل نے امن معاہدوں کے تحت 1979 میں مصر کے ساتھ اور 1994 میں اردن کے ساتھ مکمل سفارتی رشتے قائم کرلئے۔ان دونوں ممالک کی سرحدیں جنوب اور مشرق میں اسرائیل سے ملتی ہیں۔اسرائیل نے عرب لیگ کے چار ملکوں بحرین‘ متحدہ عرب امارات‘ سوڈان اور مراقش کے ساتھ بھی سفارتی رشتے قائم کرلئے ہیں۔ کچھ استثناء کے ساتھ کون سا عرب یا مسلم ملک ایسا ہے کہ جہاں اسرائیل کی تیار شدہ مصنوعات استعمال نہ ہوتی ہوں۔

 اسرائیل کے لئے سب سے زیادہ مضبوط‘ موثر اورجغرافیائی اسٹریٹجی کے اعتبار سے اہم ملک سعودی عرب ہوسکتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رشتے قائم نہیں ہیں۔مگر اس کے باوجود اسرائیلی سفارتکار’آف دی ریکارڈ‘ گفتگو میں اس کا انکشاف کرتے رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطحوں پر روابط قائم ہیں۔شاہی خاندان کے ایک بہت قریبی سعودی عرب کے سابق آرمی چیف العسیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ایک سائنٹسٹ اور موجودہ وزیر خارجہ سے ملتے رہتے ہیں۔اب متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کے سفارتی‘تجارتی اور ’ثقافتی‘ تعلقات قائم ہونے کے بعدعربوں سے اسرائیل کی قربت میں اور اضافہ ہوگا۔سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کو آنے والے تمام ملکوں کے جہازوں کو اپنا ایر اسپیس استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔9نومبر2020کو جب اسرائیل کا پہلا جہاز متحدہ عرب امارت پہنچا تو وہ سعودی عرب کی ہی فضاؤں سے گزرتا ہوا دوبئی ایر پورٹ پر اترا تھا۔

اس وقت عالمی نقشہ پر اسرائیل کے سب سے بڑے اور نمایاں طورپر مخالف ملک ترکی اور ایران ہیں۔ایران سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن ترکی اور اسرائیل کے درمیان مصطفی کمال اتاترک کے زمانہ سے ہی سفارتی اور تجارتی رشتے قائم ہیں۔ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوگان اسرائیل سے اکثر دو دوہاتھ کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔لیکن اس وقت ترکی اور اسرائیل کا سالانہ کاروبار پانچ ملین ڈالر سے زیادہ کا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ 2014سے اس کاروبار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی اسرائیل سے ہائی ٹیک ڈیفنس آلات خریدتا ہے جبکہ اسرائیل ترکی سے فوجیوں کے جوتے اور یونیفارم خریدتا ہے۔2007سے اسرائیل ترکی سے سبزیوں اور ڈبہ بند کھانے کی مختلف مصنوعات درآمد کرتاآرہا ہے۔دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کا سفارتخانہ قائم ہے۔ایسے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنے مضبوط سفارتی اور تجارتی رشتے رکھنے والا ترکی آخر کس طرح اسرائیل سے دو دو ہاتھ کرسکتا ہے۔

مشرق میں اسرائیل کی سرحد سے متصل ایک دوسرا ملک شام ہے۔شام اور اسرائیل کا مناقشہ بھی تلخ نتائج کاحامل رہا ہے۔اسرائیل سے ایک جنگ شام اور مصر کی ہی قیادت میں لڑی گئی تھی۔1967کی اس چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام کے مغرب میں گولان (جولان) کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھاجو اب تک قائم ہے۔گولان کا ایک تہائی مشرقی حصہ شام نے 2018 میں واپس لے لیاتھا۔شام کی قیادت اسرائیل کی سخت مخالف ہے لیکن اس وقت خود ملک شام اندرونی کشمکش اورخانہ جنگی میں مبتلا ہے اور اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسرائیل سے ایک اور جنگ مول لے سکے۔شمال میں دوسرا ملک لبنان ہے۔لبنان خود ایک کمزور ملک ہے لیکن یہاں ایران کی حمایت یافتہ ایک مسلح جماعت’حزب اللہ‘ موجود ہے۔حزب اللہ سخت اسرائیل مخالف ہے اور وہ لبنان میں جائز حکومت سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔حزب اللہ فلسطین کی بازیابی کی مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم حماس کا ساتھ دیتی ہے۔2006میں حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ 34روزہ جنگ کرچکی ہے لیکن 11دنوں کی تازہ لڑائی میں حزب اللہ نے حماس کا کوئی نمایاں ساتھ نہیں دیا۔اس کے لیڈر حسن نصراللہ کا بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ 

پچھلی سات دہائیوں سے فلسطینی آبادی کو عرب ملکوں سے ہر سال کروڑوں ڈالر بطور امداد ملتے رہے ہیں۔بہت سے یوروپی ممالک کے علاوہ امریکہ اور اقوام متحدہ بھی کروڑوں ڈالر سالانہ کی امداد فلسطینیوں کو دیتے رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ امداد اور ہر طرح کا سفارتی تعلق فلسطین کے سیاسی محاذ فتح گروپ سے ہی رکھا جاتا ہے اور حماس سے کوئی براہ راست گفتگو نہیں کی جاتی۔جبکہ تازہ مناقشہ میں حماس کی مسلح ونگ نے ہی اسرائیل کی طرف دو ہزار سے زیادہ راکٹ داغ کر دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کے انتہائی مہنگے ڈیفنس سسٹم ’آئرن ڈوم‘کو حماس کے دس فیصد راکٹوں نے دھوکہ دیدیا اور وہ اسرائیل کے اندر جاکر گرے۔یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ حماس کی مسلح ونگ قسام بریگیڈ نے ایسا راکٹ اسرائیل کی طرف داغا جو 220کلو میٹر دور تک مار کرسکتا ہے۔مگر اس سب کے باوجوداسرائیل کاجتنا جانی ومالی نقصان ہوا ہے اس سے کئی گنا زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہوا ہے۔ریڈ کراس کے مطابق غزہ کی تباہ شدہ بستیوں اورکاروباری دفاتر کی عمارتوں کی تعمیر نو میں کئی برس اور 150ملین ڈالر درکار ہوں گے۔امریکہ اور سعودی عرب نے تعمیر نو میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔

فتح کے زیر انتظام فلسطینی علاقوں میں اس وقت 20 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ حماس کے زیر نگیں علاقوں میں 43 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔تازہ مناقشہ کے بعد فلسطینی عوام دوسرے کئی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ان سطور میں اس قضیہ کے دوسرے کئی پہلو زیر بحث نہیں آسکے ہیں لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آخر کب تک فلسطینی عوام ایسی الجھی ہوئی‘پیچیدہ اور غیر یقینی زندگی گزارتے رہیں گے؟ اس سوال کا سب سے بہترین جواب بھی خود فلسطینی قیادتیں ہی تلاش کرسکتی ہیں لیکن اندرونی طورپروہ خود ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔لہذا دوسرا سب سے موثر گروپ عرب ملکوں‘ امریکہ اور اقوام متحدہ کا ہوسکتا ہے جسے اس سوال کا جواب بہت جلد تلاش کرنا ہوگا۔امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دونوں کو پر امن زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئے۔

جوحلقے امریکہ کی اسرائیل نوازی پر اعتراض کرتے ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ امریکہ کی کل 33کروڑ کی آبادی میں انتہائی طاقتوریہودی شہریوں کی تعداد 75 لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ امریکہ کی اقتصادیات پر حاوی ہیں۔امریکہ میں آباد یہودی اسرائیل کو ہر سال کئی بلین ڈالر امداد دیتے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کے شہری کسی بھی یوروپی ملک کے شہریوں سے زیادہ بہتر معیاری زندگی گزاررہے ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ اس قضیہ میں فلسطینیوں کی خواہشات کا ساتھ دیا ہے اور اس مسئلہ کے پر امن تصفیہ کی وکالت کی ہے۔ہندوستان نے 18نومبر 1988کوایک اعلامیہ کے ذریعہ فلسطین کو ایک ریاست کے طورپر تسلیم کیا۔چاردہائیوں تک عالمی منظر نامہ پر رہنے والے الفتح کے قد آورقائد یاسر عرفات نے جب اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تو اسرائیل کے تعلق سے پوری دنیا میں ایک نئے نظریہ نے جنم لیا اور بہت سے ملکوں نے اس سے رشتے استوار کرلئے۔اس ضمن میں ہندوستان نے بھی اسرائیل سے مکمل سفارتی‘تجارتی اور عسکری تعلقات قائم کرلئے۔اسرائیل بھی ہندوستان کو ایک اہم حلیف تصور کرتا ہے۔ایسے میں ہندوستان اس قضیہ کے پر امن تصفیہ میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ وقت ہے کہ جب ہندوستان کو اپنا یہ کردار ادا کرنا ہی چاہئے۔