ایغور مسلمانوں پر کیوں ہے پاکستان خاموش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
‘چین’ کے سامنے بول گئے’چیں’
‘چین’ کے سامنے بول گئے’چیں’

 

سہیل / نئی دہلی   

کہتے ہیں کہ انسان کو صاحب کردار ہونا چاہیے۔ اس کی شخصیت میں دوغلاپن نہیں ہونا چاہیے۔ وہ جو با ت کہے اس پر قائم رہے۔ ایک جیسے معاملات پر ایک جیسی رائے رکھے اور ایک جیسا موقف اختیار کرے۔ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہو تو ایک انصاف پسند شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اپنے بیانات سے یہ جتانے اور بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک صاحب کردار شخص ہیں۔ حالانکہ ان کے اس دعوے پر دنیا کے دیگر ملکوں کو تو چھوڑیے خود پاکستانی عوام کے بہت بڑے طبقے کو بھی اعتبار نہیں ہے۔ عمران خان مسلمانوں کے مفادات کا چمپئن بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا رونا روتے ہیں۔ اسی طرح وہ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں آزربائیجان کے مسلمانوں کی حمایت میں بیان دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان آذربائیجان کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

آذربائیجان ہو یا کوئی دوسرا ملک اگر وہاں کے مسلمانوں پر یا کسی پر بھی ظلم ہو رہا ہو تو مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا اچھی بات ہے۔ لیکن کیا پاکستان کو واقعی مسلمانوں سے ہمدردی ہے اس لیے وہ آذربائیجان اور کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت کررہا ہے۔ شاید ایسا بالکل نہیں ہے۔ اور اس کے ثبوت کے لیے ہمیں بہت زیادہ تحقیق اورغور و خوض کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے سب سے قریبی اور بھروسے مند دوست چین کی طرف صرف ایک نگاہ ڈال لیں تو یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجائے گی کہ مسلمانوں سے پاکستان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ہمدردی محض دکھاوا اور سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ورنہ چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ کیا جارہا ہے اور اس پر اقوام عالم نے جس طرح تشویش کا اظہار کیا ہے اس کے بعد کم ازکم پاکستان کو اپنی خاموشی تو ڑ دینی چاہیے تھی۔ لیکن عمران خان ایغور مسلمانوں کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں بولتے۔

داؤس میں پچھلی مرتبہ جب عالمی اقتصادی فورم کے موقعے پر ایک صحافی نے وزیراعظم عمران خان سے ایغور مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ کہہ کر دامن بچا نے کی کوشش کہ انھیں ایغور مسلمانوں کے مسائل و مصائب کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ لیکن جب رپورٹر نے اصرار کیا تو عمران خان نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے اور کہا کہ چین نے ہماری مدد کی ہے۔ وہ پاکستان کی مدد کے لیے اس وقت سامنے آیا جب ان کا ملک انتہائی مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور اس مدد کی وجہ سے پاکستان چینی حکومت کا انتہائی مشکور و ممنون ہے۔ لہٰذا وہ اس معاملے پر خاموش رہیں گے۔اس میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ عمران خان نے ایغور مسلمانوں کے بارے میں کہا کہ ان کو ان کی مشکلات کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ دروغ گوئی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا کوئی عالمی رہنما یا کسی ملک کا وزیر اعظم دوسرے ملک میں اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک سے لاعلم رہ سکتا ہے۔ انھوں نے کتنی سادگی سے کہا کہ انھیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اسی کو کہتے ہیں کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ چونکہ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو کچھ سہارا مل رہا ہے اس لیے وہ ایغور مسلمانوں کی بدحالی سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ آپ ایک جیسے دو الگ الگ معاملات میں الگ الگ موقف اختیار کریں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے سنکیانگ صوبے میں رہنے والے اقلیتی ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے جہاں ان کے عقائد زبردستی تبدیل کرائے جاتے ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ان حراستی مراکز میں دس لاکھ افراد رکھے گئے ہیں اور انھیں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قیدیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے نام پر بیعت کریں۔ بچوں کو ان کے خاندان، مذہب اور زبان سے الگ کیا جا رہا ہے۔ حتی کہ مسلم خواتین کو بانجھ بنانے کے اقدامات کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین کے ایغور مسلمان، مسلمان نہیں ہیں؟ لیکن اس معاملے پروزیر اعظم عمران خان کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔

پوری دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو عمران خان اس پر ضرور بولتے ہیں اور یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مفادات کے چیمپیئن ہیں۔ جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کو ختم کیے جانے کے ایک سال مکمل ہونے پر عمران خان نے ہندوستان کے اس فیصلے کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک مارچ کی قیادت کی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے اس قدم کو غیر قانونی بتایا تھا۔ حالانکہ ہندوستان کا یہ قدم مکمل طور پر آئین و قانون کے دائرے میں ہے اور پوری دنیا نے اسے تسلیم بھی کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم دوسرے پاکستانی سیاست دانوں کے مانند کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ بھی کہہ چکے ہیں۔ وہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ چین کے ایغور مسلمانوں کا آتا ہے تو ان کے لبوں پر قفل چڑھ جاتا ہے اور وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس معاملے پر ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کے بارے میں جن تشویشات کا اظہار کرتا ہے انھیں تشویشات کا اظہار مغربی چین میں قید و بند کی اذیتیں جھیل رہے مسلمانوں کے بارے میں بھی کرے۔ ان کی بات بالکل درست ہے۔ اگر پاکستان دنیا کے مسلمانوں کا چیمپیئن بننا چاہتا ہے تو اسے اس مسئلے پر بھی بولنا چاہیے۔ انفرادی سطح پر ہر شخص کو اور اجتماعی سطح پر ملک کو کردار کا کھرا ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں منافقت نہیں ہونی چاہیے۔ ورنہ اس کا وقار جاتا رہے گا اور اس پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے گا۔ عالمی برادری میں پاکستان کی آج جو حالت اور حیثیت ہے اس کی واحد وجہ بھی غالباً یہی منافقت ہے۔