برڈ مین سالم علی کی خدمات ناقابل فراموش

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-11-2022
 برڈ مین سالم علی کی خدمات ناقابل فراموش
برڈ مین سالم علی کی خدمات ناقابل فراموش

 

 

جاوید علی خان 

پرندے  --- یہ لفظ زبان پر آتے ہں فضا میں اڑنے والے ان لاتعداد پرندوں کا خیال آ جاتا ہے جن کے شور سے  صبح ہونے کا احساس ہوتا ہے اور جب شور تھمتا ہے تو سورج ڈھلنے  کا احساس ہوتا ہے- ان پرندوں کی زندگی کے بارے میں کبھی کوئی نہیں سوچتا کتا بن یا میں ایک شخص ایسا آیا تھا جس نے پرندوں کو سمجھا ، ان کی خدمت اپنی پوری زندگی گزار دی جسے ہم سالم علی یعنی انڈین برڈ مین کے نام سے جانتے ہیں - جو آج اس دنیا میں نہیں مگر پرندوں کے لیے ان کی کی کام ام اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کو پرندوں کے لیے وقف کیا تھا

بلاشبہ بے زبانوں کی زبان سمجھنے کا فن خداداد ہوتا ہے، اگر آپ کسی پرندے یا جانور اور ان کی آنکھوں کو پڑھ لیتے ہیں اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو سمجھ جاتے ہیں-

ماہر طیور ڈاکٹر سالم علی پرندوں کے مطالعہ و مشاہدے میں نہ صرف اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا بلکہ فطرت میں ان کی اہمیت سے لوگوں کو متعارف کرانے کا اہم کردار ادا کیا۔

واضح رہے کہ سالم علی ہندوستان کے ایک مشہور آرنیتھولوجسٹ (پرندوں کا مطالعہ) اور ماہر نیچورل ہسٹری تھے۔ ان کی شہرت شہرہ آفاق کتاب فال آف اسپیرو کی وجہ سے ہوئی۔ سالم علی ہندوستان کی وہ پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے پرندوں کے بارے میں گہرا مطالعہ مرحلہ وار طریقے سے کیا اورہندوستان میں پرندوں کا سروے کیا۔ ان تمام مطالعات اور سروے سے ہندوستان میں آرنیتھولوجی کی ارتقا ہوئی۔انہوں نے سنہ 1947 میں بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی نامی ادارہ ممبئی میں قائم کیا اور اپنے شخصی رسوخ سے حکومت کی جانب سے حمایت حاصل کی۔

سالم علی کا بچپن 

آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹرسالم علی کا پورا نام سالم معزالدین عبدالعلی تھا۔ ان کی پیدائش12نومبر 1896ء کو سلیمانی بوہرہ مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔ان کے والد کا نام معز الدین اور والدہ کا نام زینت النسا تھا۔ یہ اپنے ماں باپ کی نویں اولاد تھے۔ان کی عمر ایک سال کی ہی تھی کہ ان کے والدکا انتقال ہو گیا اور دو سال کے بعدیعنی تین سال کی عمر میں ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ان بچوں کی پرورش نانیہال میں ہوئی جو ایک درمیانی طبقہ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ چونکہ ان کے ماموں امیر الدین طیب جی کے کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے ان کی پرورش میں ماموں اورممانی دونوں کا پیار شامل رہا۔ان کے ایک اور ماموں عباس طیب جی جنگ آزادی کی مشہور سپاہی تھے۔

کیسے پیدا ہوا شوق 

ان کے ماموں امیر الدین طیب جی ایک اچھے شکاری تھے اور قدرتی مناظر کے بہت دلدادہ تھے۔ماموں کی صحبت میں ان کو بھی شکار کا شوق پیدا ہوا اور اپنی ہوائی بندوق سے ایک چڑیا کاشکار کیا جو دوسری چڑیوں سے مختلف تھی۔انہیں وہ چڑیا بہت اچھی لگی۔انھوں نے اپنے ماموں سے اُس چڑیا کے بارے میں پوچھا۔ ان کے ماموں’ بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی(BNHS)‘ کے ممبر تھے لیکن چڑیا کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکے مگر سالم علی کو ’سوسائٹی‘ کے عجائب گھر میں جانے میں مدد کی۔ وہاں انہیں طرح طرح کے پرندوں کے بارے میں جانکاری ملی۔ وہاں اپنے ساتھ اُس مری ہوئی چڑیا کو بھی کاغذ میں لپیٹ کر لے گئے تھے۔ وہاں اُس چڑیا کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی۔یہیں سے ان کے دِل میں چڑیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔

بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی(BNHS)‘ کے سکریٹری ڈبلو․ایس․ملائی تھے، انہیں کی دیکھ ریکھ میں سالم علی نے سنجیدگی سے چڑیوں کا مطالعہ شروع کیا۔’ملائی صاحب‘ نے سالم صاحب کوسوسائٹی میں موجود سبھی چڑیوں کودکھایا ہی نہیں بلکہ انہیں چڑیوں کو جمع کرنے کی ترغیب بھی دی اور ہمت افزائی اور مطالعہ کے لیے کچھ کتابیں بھی دیں جس میں ’کامن برڈس آف ممبئی(Common Birds of Mumbai) بھی شامل تھی۔

awazthevoice

سر درد کا عارضہ

سالم علی اپنی ابتدائی تعلیم کے سلسلہ میں گرگوم اور ممبئی کے مشن اسکولوں میں داخلہ لیا۔تیرہ سال کی عمر میں انہیں سر درد کا عارضہ ہواجس کی وجہ سے وہ درجہ سے اکثر باہر کر دیے جاتے تھے۔اپنی بیماری کے علاج کے سلسلہ میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے یہاں سندھ چلے گئے وہاں سے یہ ٹھیک ہو کر آئے اور1913ء میں بڑی مشکلوں سے بامبے یونیورسٹی سے دسواں درجہ پاس کیا۔ملازمت کے سلسلہ میں یہ برما گئے۔

یہ علاقہ چاروں طرف جنگلوں سے گھرا تھاجو قدرتی مناظر اور شکار کے لیے بہت عمدہ جگہ تھی۔جنگل کے افسران سے تعلقات بڑھائے جو ان کو جنگلی ماحول کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ سات سال کے بعدیعنی 1917میں جب وہ ہندوستان لوٹے تو پھر اپنی تعلیم مکمل کرنے میں لگ گئے اور یہیں اپنی رشتہ داری میں شادی کی۔ ان کی شادی دسمبر  1918 میں ہوئی تھی اور ان کی بیوی کا نام تہمینہ تھا۔

تعلیم کا مشن

 1926 میں ممبئی میں پرنس آف ویلس میوزئیم میں ان کو ایک چھوٹی موٹی ملازمت ساڑھے تین سو ماہوار کی مل جانے سے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے میں لگ گئے۔1928 میں تعلیمی رخصت لیکرجرمنی چلے گئے۔ انہیں جرمنی یونیورسٹی میں کچھ دن کام کرنے کے بعد یہ برلن چلے گئے اور وہاں انھوں نے کافی تجربہ حاصل کیا۔ اور 1930 میں یہ ہندوستان لوٹے تو پتہ چلا کہ ان کی ملازمت بجٹ کی کمی کی وجہ سے ختم کر دی گئی ہے۔

تحقیق کا دور 

پورے ہندوستان میں طیوری خطے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں خاص طور سے یہ خطے نوابی ریاستوں کے قبضہ میں تھے جن کے سروے کا کام انھوں نے سنبھالاکیونکہ سربراہانِ ریاست پرندوں کی نسلوں کے لیے فکر مند تھے۔ اور یہیں سے انھوں نے گھوم گھوم کر تحقیق کا کام شروع کیا۔سالم علی نے برلن میں جو تحقیق سے متعلق تجربہ حاصل کیا تھا وہ یہاں کام آ رہا تھا۔کام سخت تھا لیکن ان کو کوئی ساتھی نہیں مل سکا۔بہر حال انھوں نے سخت محنت کر کے ملک کے کس خطہ میں کس طرح کے پرندے پائے جاتے ہیں،ان کی رہائش ، ان کا ماحول وغیرہ کا تجربہ فیلڈ میں رہ کر اور تجربہ گاہ دونوں جگہوں کے تجربہ حاصل کیا۔اس کام میں سلیم علی کے بیگم نے مشکل اور دشوار گزار راہوں میں بھی ساتھ نبھایا اور تجربہ گاہ میں بھی مدد کی۔ اگلی دو دہائیوں میں سالم علی نے برصغیر کے مختلف خطّوں سے طیور سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں سر گرداں رہے۔

جب جواہر لعل نے مدد کی 

1939 میں ان کی بیگم تہمینہ کے انتقال نے ان کو توڑ کر رکھ دیا شاید یہی وجہ تھی کہ یہ پرندوں کی دنیا میں اور بھی ڈوب گئے۔ ڈاکٹر علی ’بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی(BNHS) سے منسلک ہو گئے۔ملک کی آزادی کے بعددو سو سال پرانی سوسائٹی ،فنڈ کی کمی کی وجہ سے بندی کے کگار پر آ گئی تھی۔ڈاکٹر سلیم نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل کوخط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیاتو انھوں نے فوراً فنڈ کا انتظام کر دیا اس طرح سے ایک مشکل مرحلہ سے سوسائٹی نکل آئی۔

کام کو سراہا گیا

حالانکہ ان کے کاموں کی سراہنا کافی دیر سے ہوئی پھر بھی انھوں نے کافی انعامات، اعزازات و تمغے حاصل کیے۔ سب سے پہلے1953میں اشیاٹک سوسائٹی آف بنگال نے’طلائی تمغا‘ سے نوازا۔حا صل شدہ انعامات میں بین الاقوامی اوارڈ’جے پال گٹّی‘بھی شامل ہے۔1970 میں ’انڈین نیشنل سائنس اکادمی کے سندر لال ہورا‘ مموریل مڈل حاصل کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(1958 )، دہلی یونیورسٹی (1973) اور آندھرا پردیش یونیورسٹی (1978) آنریری ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل ہوئیں۔1967 میں یہ ایک ایسے غیر برٹش شہری تھے جنہیں ’برٹش ماہرطیوریات یونئین کا طلائی تمغہ حاصل کیا۔اسی سال ڈاکٹرسالم علی نے ایک لاکھ ڈالروالا جے․پول گِٹّی وائلڈ لائف کنزرویشن انعام حاصل کیا۔  1969 میں’سی․فلپس مموریل مڈل‘ حاصل کیا۔ 1973 میں یو․ایس․ایس․آر․اکاڈمی آف میڈکل سائنس نے انہیں ’پاؤلووسکی سینیٹری مموریل ‘ مڈل سے نوازا گیا اور اسی سال میں ہی نیدر لینڈکے’آرڈر آف دی گولڈن آرک کا کمانڈر‘ بنایا گیا تھا۔ہندوستان کی مرکزی حکومت نے 1958 ’پدم بھوشن‘ اور1976 میں ’بدم وبھوشن‘ سے نوازا ۔ 1985 میں راج سبھا کے لیے ان کی نام زدگی کی گئی تھی۔محکمہ ڈاک نے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے۔

awazthevoice

ڈاکٹرسالم علی صر ف چڑیوں پر تحقیق کا کام ہی نہیں کرتے رہے بلکہ انھوں نے مختلف رسالوں کے لیے مضامین بھی لکھے خاص طور سے ’جنرل آف دی بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی‘ کے لیے کافی کچھ لکھتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں کئی ابھی تک شائع بھی نہیں ہو سکی ہیں۔تصنیف کے کام میں ان کی بیگم تحمینہ نے کافی مدد کی، ان کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ لندن میں انھوں نے باقاعدہ انگریزی سیکھی تھی۔ان کی کتابیں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب’دی بُک آف انڈین برڈس‘ تھی جس کاپہلا ایڈیشن 1941  میں شائع ہوا اور اسکا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا۔اس کے بارہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں پہلے دس ایڈیشن میں چھیالیس ہزارسے زیادہ کاپیان فروخت ہوئیں۔ان کے مراسلات اور مضامین کا مجموعہ دو والیوم میں 2007میں شائع ہوا۔اس کا مدون ’تارا گاندھی‘ نے کیا تھا جو ان کے آخری شاگردوں میں سے ایک تھے۔

شکار ی سے معالج تک 

بچپن سے ہی چڑیوں کے شکا ر کے شوقین تھے اور شاید اسی شوق نے ان کو چڑیوں کے قریب کیا۔انھوں نے چڑیوں کے بارے میں کتابوں سے نہیں سیکھا بلکہ عملی طریقہ اپنا کر معالومات حاصل کیں اسکے لیے انھوں نے حیدرآباد، تریونکور،کوچین، افغانستان، کیلاش مانسرور، کچھ، میسور، سکّم، بھوٹان، اروناچل پردیش اور بھرتپور کا دورہ کیا اور مختلف پرندوں سے متعلق تحقیق کی۔

ایک تجربہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’چڑا کے ایک گھونسلہ میں مادہ چڑیاانڈوں پر بیٹھی تھی اور نر چڑاباہر پنجوں کی مدد سے لٹکا ہوا تھا۔ڈاکٹر سالم نے اس نر چڑے کو اپنی ہوائی بندوق سے مار دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مادہ چڑیا ایک نر چڑے کو لے آئی اور وہ بھی اُسی طرح رکھوالی کے لیے لٹک گیا،اور وہ اندر انڈوں پربیٹھ گئی ۔اسی طرح سے انھوں نے سات دنوں میں آٹھ چڑے مارے اور ہر بار نیا چڑا اس کی زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آجاتا تھا‘۔

آنے والے وقتوں میں سالم علی کو اس لیے نہیں یاد کیا جائیگا کہ وہ ایک سچے اور اپنے کام کے لیے ایماندار اور وفادارتھے یابدرالدین طےّب جی کے خاندان کے فرد تھے، پنڈت جواہر لال نہرو اور اندراگاندھی سے ذاتی تعلقات تھے،پدم بھوشن اور بدم وبھوشن سے سرفراز کیے گئے تھے، راجیہ سبھا کی ممبر شپ تھی، مختلف سائنس اکادمیوں سے تعلق تھا، متعددانعامات اور اعزازات حاصل کیے تھے بلکہ ان کو اس لیے یاد کیا جائے گا کہ پرندوں سے ان کو کس قدر محبت تھی۔ان کی اس فطری محبت پر کسی نے مزاق میں کہا تھا ’چلو اُڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر تھوڑا بھی اُڑ لیے تو ہمارے زندگی ڈاکٹر سالم کی دیکھ ریکھ میں گزر جائے گی‘۔

awazthevoice

ڈاکٹر سالم علی ’پرند سائنٹسٹ ‘ کی حیثیت سے ساری دنیامیں مشہور ہیں۔زندگی کے آخری دنوں میں کافی بیمار رہے اور پروسٹیٹ کینسر سے 29جون1987 کو ممبئی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ گوا میں 178ہیکٹر میں’سالم علی بَرڈس سینکچری(Salim Ali Birds Sanctuary) پھیلی ہوئی ہے جو ان کے نام سے منسوب ہے۔ برڈ مین(Bird Man)‘ کے نام سے مشہور ہندوستان کا ایک ایسا شخص جو ساری زندگی چڑیوں کے پیچھے بھاگتا رہا اور طرح طرح کی معلومات حاصل کر کے رقم رکتا رہا تاکہ آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کر سکیں۔

اعزازات 

1953 - جائے گوبندا لا گولڈ میڈل - ایشیاٹک سوسائٹی بنگال۔

1958 - علی گڑھ مسلم یونیورسٹی - ڈاکٹریٹ

1970 - سندرلال ہورا میموریل میڈل - انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی

1973 - دہلی یونیورسٹی - ڈاکٹریٹ

1978 - آندھرا یونیورسٹی - ڈاکٹریٹ

1967 - برٹش آرنیتھولوجسٹس یونین - گولڈ میڈل - پہلے غیر برطانوی شخصیت

1969 - جان سی۔ فلپس میموریل میڈل - انٹرنیشنل یونین فور کنسرویشن آف نیچر اینڈ نیچورل ریسورسیس

1973 - پاولووسکی سینٹینری میموریل میڈل - یو یس یس آر اکیڈمی آف میڈیکل سائنسیس

1973 - آرڈر آف دی گولڈین آرک - پرنس برنارڈ آف نیدرلینڈس

1958 - پدما بھوشن - حکومت ہند

1976 - پدما وبھوشن - حکومت ہند 

1985 - راجیہ سبھا - رکنیت