علی گڑھ:برصغیر کی تقسیم کے وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حفاظت کمایوں رجمنٹ نے کی تھی جسے سردار پٹیل نے بطور وزیر داخلہ یہاں بھیجا تھا۔ یونیورسٹی مالی بحران سے دوچار تھی،یونیورسٹی انتظامیہ پر زبردست دباؤ تھا چنانچہ 1951 کے یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے اس وقت کی حکومت اور ملک کی قیادت نے ساری ذمہ داری اپنے سر لی۔ مولانا آزاد یہاں آئے اور یقین دہانی کرائی اور یونیورسٹی کے مفادات کا تحفظ کیا۔۔۔
ان سیاسی حقائق کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب، پروفیسر ایمریٹس، سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ، اے ایم یو نے کیا ۔
جو سرسید اکیڈمی اور علی گڑھ سوسائٹی آف ہسٹری اینڈ آرکیالوجی کے اشتراک سے نامور اسکالر ڈاکٹر لارنس گاٹیئر کی تازہ تصنیف ”بیٹوین نیشن اینڈ ’کمیونٹی‘: مسلم یونیورسٹیز اینڈ انڈین پولیٹکس آفٹر پارٹیشن“ پر منعقدہ مذاکرے میں اپنا صدارتی خطبہ دے رہے تھے۔ جس میں کمیونٹی، قومیت، سیکولرازم، سیاست میں یونیورسٹیز کے کردار، مسلم شناخت اور مسلم یونیورسٹی کے نشیب و فراز اور ارتقاء کے امور زیر بحث آئے۔
انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے دور کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا سارا کریڈٹ پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل اور مولانا آزاد اور پھر یہاں کی مقامی قیادت کو جاتا ہے۔ علی گڑھ میں 1947-48 کے دوران ایک بھی فرقہ وارانہ خلفشار رونما نہیں ہوا۔
پروفیسر حبیب نے کہا میں نے 1947 میں ہائی اسکول پاس کیا۔ اس دور میں کچھ اساتذہ، عملہ کے اراکین اور طلباء تھے جو اے ایم یو کو چھوڑ کر جارہے تھے، اس کے باوجود کلاسیز پابندی سے اور پوری حاضری کے ساتھ ہوتی رہیں۔ ایک استاد چلا گیا تو اگلے دن دوسرا استاد کلاس لیتا تھا، جس کی میں آج بھی تعریف کرتا ہوں۔ تمام پریشانیوں اور ہنگاموں کے باوجود کیمپس میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا اور حاضری میں کوئی رعایت نہیں تھی۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج کل ذرا سی بات پر کلاسز بند کردی جاتی ہیں، جب کہ 1947، 1948، 1949 کے ہنگامہ خیز دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
اے ایم یو میں منعقد پروگرام کا ایک منظر
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہا کہ اگرچہ اے ایم یو اور جامعہ کی کامیابیوں، خدمات اور تعلیمی تبدیلیوں پر مرکوز متعدد کتابیں، مونوگراف اور مضامین شائع ہوئے ہیں، لیکن یہ دونوں یونیورسٹیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے درمیان پیچیدہ تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ یہ تصنیف ملک اور کمیونٹی کے درمیان گفت و شنید کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم کے طور پر اے ایم یو اور جامعہ کے کردار کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔پروفیسر خاتون نے ڈاکٹر گاٹیئر کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی کہ کتاب اس بات پر زور دیتی ہے کہ ان اداروں نے خاموشی کے ساتھ مرکزی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان ایک ثالث کے طور پر کام کیا ہے، کیونکہ پورے ملک میں ایک مضبوط مسلم سیاسی جماعت کا وجود نہیں تھا۔
پروفیسر خاتون نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ڈاکٹر گاٹیئر کی تصنیف مسلم شناخت کی جستجو اور قوم کی تعمیر کے عمل کو آگے بڑھانے میں اے ایم یو اور جامعہ کے کردار کی تفہیم میں مددگار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرسید اسکالر ڈیوڈ لییلیویلڈ نے جمہوریت کے جوہر کے طور پر تکثیریت کو برقرار رکھنے کے لئے اے ایم یو اور جامعہ کی بجا طور پر تعریف کی۔اپنی تحقیق اور دلچسپ طرز تحریر کے ذریعہ ڈاکٹر گاٹیئر نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان، اپنی انتہائی تعلیمی، معاشی اور سماجی پسماندگی کے باوجود ہندوستان کے قابل فخر اور فعال شہری ہیں، اور وہ بیک وقت اسلام کی تاریخی اور قدیم میراث کو لے کر چلتے ہیں۔
وائس چانسلر نے سرسید اکیڈمی کی جانب سے مختلف شعبوں کے نامور اسکالرز کی اہم کتب پر مذاکرے کے انعقاد کو سراہا۔
مصنفہ ڈاکٹر لارنس گاٹیئر نے کتاب کے مندرجات پر بحث کی اور اس خیال کی تردید کی کہ یہ کتاب جامعہ اور اے ایم یو کے درمیان موازنہ ہے۔
انھوں نے کہا اس کتاب کو مختلف طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ علم کی پیداوار کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ یہ تصنیف اس بات کو بھی سامنے لاتی ہے اے ایم یو اور جامعہ دونوں ادارے کس طرح قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر گاٹیئرنے مختلف مقررین کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر اپنے خیالات پیش کئے۔
پروفیسر سید علی ندیم رضاوی نے علی گڑھ سوسائٹی آف ہسٹری اینڈ آرکیالوجی کی تاریخ اور دستیابیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر گاٹیئر کی کتاب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس نظریہ سے بھی اختلاف کیا جو بہت سے چارٹ اور گراف سے سامنے آتا ہے کہ جامعہ ترقی پسند ہے جبکہ اے ایم یو ایک رجعت پسند ادارہ ہے۔ انہوں نے اس نظریے سے بھی اختلاف کیا کہ جب اے ایم یو کے اساتذہ جامعہ سے وابستہ ہونے لگے تو جامعہ بھی رجعت پسند ہونے لگی۔ تاہم پروفیسر رضوی نے کتاب کی تعریف کی
دوسری طرف دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر فرحت حسن نے اس نظریے سے اختلاف کیا کہ یہ کتاب جامعہ اور علی گڑھ کے بارے میں ہے۔ انھوں نے کہاکہ کتاب کو علمی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ پروفیسر حسن نے کہا، ”کتاب کے مشمولات کو لے کر علی گڑھ اور جامعہ کے درمیان مقابلہ اور موازنہ غیر ضروری ہے۔ یہ خالصتاً تجرباتی تحقیق اور بنیادی سورسیز پر مبنی ایک علمی کاوش ہے۔
انہوں نے کتاب میں اپنائے گئے امپیریکل نقطہ نظر کی تعریف کی، ساتھ ہی زبانی روایات اور بنیادی مآخذ کے استعمال سے اخذ کردہ نتائج کو بھی سراہا۔ انھوں نے کتاب کے صفحات سے ابھرنے والے نہرو کی سیکولرازم اور قوم پرستی کے نظریہ سے اتفاق نہیں کیا۔
پروفیسر شافع قدوائی، ڈائریکٹر، سرسید اکیڈمی نے کتاب کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ علی گڑھ کی تاریخ کے بارے میں ایک اہم مباحثہ ہے اور ایک ایسی کتاب ہے جو تاریخ کی سلسلہ وار تصویر نہیں، بلکہ تاریخ کے اہم امور و واقعات کو اس انداز میں پیش کرتی ہے جس سے اداروں کے نشیب و فراز اور ملک و قوم کی تعمیر و تشکیل میں ان اداروں کا کردار ابھر کر سامنے آتاہے۔ انہوں نے مہمانوں، مقررین اور دیگر حاضرین کا خیرمقدم بھی کیا۔
پروفیسر نعیمہ خاتون نے دیگر معززین کے ہمراہ کتاب کا اجراء کیا۔
ڈاکٹر محمد شاہد نے شکریہ کے کلمات ادا کئے جبکہ سید حسین حیدر نے نظامت کے فرائض انجام دئے