اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نئے منتخب صدر اور ہند و مالدیو تعلقات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-06-2021
ایک خوش آئند فیصلہ
ایک خوش آئند فیصلہ

 

awazurdu

پروفیسر اخترالواسع

مجلس اقوام متحدہ کی 76ویں جنرل اسمبلی کے لئے ہمارے پڑوسی ملک مالدیو کے وزیر خارجہ عزت مآب عبداللہ شاہد کا انتخاب ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ عزت مآب عبداللہ شاہدکا مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لئے یہ مقابلہ افغانستان کے سابق وزیر خارجہ عزت مآب زلمایئ رسول سے تھا جن پر انہوں نے تقریباً 95ووٹوں کی غالب اکثریت سے سبقت حاصل کی۔ مالدیو جو تقریباً 1200 آباد و غیرآباد جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے اس کو پہلی دفعہ یہ موقعہ ملاہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی جزائر پر مشتمل ملک کو جس کی آبادی سب سے کم ہے، پہلی دفعہ مالدیو کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

عزت مآب عبداللہ شاہد نے اپنے انتخاب کے بعد جو تقریر کی اس میں انہوں نے اس بات کا خاص طور سے اعلان کیا کہ وہ اپنے ساتھ ایک ایسی ٹیم تشکیل دیں گے جو صنفی مساوات، تمام خطوں کی نمائندگی، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کی نمائندگی ہو، کے لئے کام کریں گے۔ ساتھ میں دنیا میں ماحولیاتی امور پر جو تشویش پائی جاتی ہے اور مالدیو جس میں خود بھی شریک ہے ان کے حل کے لئے بھی خاطرخواہ توجہ دی جائے گی۔ اور اس دور میں جس میں دنیا کو رونا کی قہر سامانی کا سامنا کر رہی ہے سب کے لئے ٹیکہ کاری ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ہمارے لئے یہ بڑی خوشی، اعزاز اور اعتماد کی بات ہے کہ عبداللہ شاہد نے اپنی ٹیم میں جن دو لوگوں کو سب سے پہلے منتخب کیا ہے اور گزشتہ جمعرات کو ان کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے اس بھروسے کا اظہار کیا کہ یہ لوگ میرے منصوبوں کو جس کو ”امیدوں کی صدارت“ کا نام دیا گیا ہے، پورا کریں گے۔

عزت مآب عبداللہ شاہد نے جنرل اسمبلی کے صدر کے طور پر جہاں اپنے خصوصی مندوب کی حیثیت سے مالدیو کی امریکہ اور کینیڈا میں سفیر اور مجلس اقوام متحدہ میں مالدیو کی مستقل مندوب محترمہ تلمیذا حسین کا انتخاب کیا ہے تو دوسری طرف مجلس اقوام متحدہ ہی میں ہندوستان کے نائب مستقبل مندوب مسٹر ناگ راج نائیڈو کمار کو اپنی کابینہ کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ان دونوں نامزدگیوں سے جہاں عالمی برادری میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ، وقار اور مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے وہیں مالدیو جیسے پڑوسی ملک میں ہندوستان پر پائے جانے والے اعتماد و اعتبار کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

مئی 1962 میں مالدیو کی راجدھانی مالے میں پیدا ہونے والے عزت مآب عبداللہ شاہد اپنے ملک کے ایک انتہائی تجربے کار اور منجھے ہوئے سفارتکار اور سیاست داں ہیں۔ وہ 1983 میں مالدیو کی وزارت خارجہ میں شامل ہوئے اور مستقل حیثیتوں سے کام کرتے ہوئے دس سال کی مدت میں 1993 میں ڈائریکٹر انٹرنینشل افیئرس بن گئے۔ اس کے بعد 1995 میں وہ مالدیو کے صدر کے ایکزیکیٹو سیکریٹری بنے جہاں انہوں نے امتیازی حیثیت سے دس سال تک کام کیا۔ عزت مآب عبداللہ شاہد اپنے ملک کی سیاست میں پہلے 1994 میں صدر کے نمائندے کی حیثیت سے دستور ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ بعد ازاں وہ انتخابات میں حصہ لے کر مالدیو کی پارلیمنٹ یعنی عوامی مجلس کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ 2009 میں وہ اپنے ملک کی پارلیمنٹ کے پہلے منتخب اسپیکر بنے۔ مالدیو کی عوامی مجلس کے اسپیکر کی حیثیت سے وہ سارک (SAARC) ملکوں کی اسپیکرس اور پارلیمنٹیرینس کانفرنس کے صدر بھی رہے، کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کی ایکزیکیٹو کے ممبر اور اس سے قبل کامن ویلتھ اسٹینڈینگ کمیٹی آف کامن ویلتھ اسپیکرس اور پریزائڈنگ آفیسرس میں بھی شامل رہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے مالدیو کی قومی زندگی میں عوامی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بہت سے سیاسی اور قانونی اصلاحات کے لئے آواز اٹھائی اور عملی کوششیں بھی کیں۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہم ہندوستانی دنیا کے بارے میں عام طور پر بھرپور واقفیت رکھتے ہیں لیکن مالدیو جیسے اپنے انتہائی عزیز اور قریبی دوست ملک کے بارے میں وہ واقفیت نہیں رکھتے جو ان کا حق ہے۔ ہم مالدیو کے بارے میں عام طو ر پر یہ تو جانتے ہیں کہ وہ خوبصورت جزیروں والا ایک سیاحتی اور تفریحی ملک ہے لیکن ہم میں سے اکثر کو یہ پتا نہیں کہ 1965 میں مالدیو کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے والوں میں ہم ہندوستانی آگے آگے تھے۔ 1988 میں جب کچھ تخریب پسند اور شرارتی عناصر نے وہاں کی منتخب حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہا تو یہ ہم ہندوستانی ہی تھے جنہوں نے فوری طور پر فوجی امداد بھیج کر مالدیو کو سیاسی بحران اور عدم استحکام کا شکار ہونے سے بچایا۔ 2004 میں جب سونامی کا قہر ٹوٹا اور مالدیو میں پینے کے پانی کابحران شدید شکل اختیار کر گیا تو یہ ہندوستان ہی تھا جس نے انسانی بنیادوں پر ان کی بھرپور مدد کی۔ مالدیو میں سب سے پہلا ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹل مالے شہر میں ہندوستان ہی نے بنایا۔ یہ اسپتال اپنی تعمیری بلندیوں کے ساتھ ہندوستان اور مالدیو کے تعلقات کی اونچائیوں کا بھی گواہ ہے۔ آج بھی جب کووڈ19- نے ساری دنیا کو ہلا رکھا ہے، ہندوستان نے اپنے پڑوسی ممالک میں سب سے زیادہ مالدیو ہی کو ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی ہے۔ ہندوستان مالدیو کے دارالحکومت مالے سے دوسرے جزیروں کے بیچ میں براہِ راست رابطے کے لئے نئے منصوبوں میں پوری طرح مدددے رہا ہے۔

ہندوستان اور مالدیو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بنے ہوئے ہیں۔ صدر مامون عبدالقیوم کا طویل صدارتی دور رہا ہو یا ممتاز سیاست داں نشید کا زمانہ یااب صدرصالح کی سربراہی کا دور، چین اور پاکستان کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہندوستان و مالدیو ایک دوسرے کے ساتھ خیرسگالی، باہمی مفاہمت اور مشترکہ تعاون میں ایک ساتھ رہ کر نہ صرف سارک بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر بھی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)