سبھاش چندر بوس: ایک عظیم مجاہدِ آزادی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-01-2022
سبھاش چندر بوس: ایک عظیم مجاہدِ آزادی
سبھاش چندر بوس: ایک عظیم مجاہدِ آزادی

 

 

نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش پر خاص پیشکش

awazthevoice

 

ڈاکٹرعبیدالرحمن ندوی،استاد دار العلوم ندوة العلماءلکھنو

ہندوستان نے کئی عظیم ہستیوں کوجنم دیاہے۔ نیتاجی سبھاش چندربوس انہیں میں سے ایک ہیں۔ ان کی پیدائش 23جنوری1897 کو کٹک اڑیسہ میں سکونت پذیرایک بنگالی پریوار میں ہوئی۔ وہ ایک بڑے پریوارکی نویں اولاد تھے۔ ان کے والد کٹک کے ایک نامور وکیل رائے بہادرجانکی ناتھ بوس اور والدہ پربھاوتی بوس تھیں۔

 تئیس(23) جنوری کو پورے ملک میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش کی سالگرہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یورپین پروٹیسٹنٹ کالجیٹ اسکول کٹک میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد،وہ1913ءمیں کولکتہ کے پریسیڈنسی کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے آئے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے انگریزی کے استاد کو ہندوستانیوں کوکمترکہنے کی وجہ سے ماردیا۔ نتیجةً کالج سے ان کا اخراج کردیا گیا۔ یہ واقعہ ان کی زندگی میں ایک نقطہ  انقلاب ثابت ہوا۔ بی اے کا امتحان پاس کرکے، وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ گئے۔انہوں نے 1920میں چوتھی پوزیشن حاصل کرتے ہوئےI.C.Sکے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔

لیکن جلدہی انہوں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اورخود کو ملک کی تحریک آزادی میں جھونک دیا۔ وہ ایک حقیقی محب وطن تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک بہادر اورنڈرانسا ن تھے۔ وہ کبھی برطانوی حکومت کے سامنے نہیں جھکے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کبھی اس سے سمجھوتا نہیں کیا۔ ہندوستان میں برطانوی حکومت ان سے خوفزد ہ تھی۔ اسی وجہ سے انہیں 25 اکتوبر1924 کوبغیرکسی الزام کے گرفتارکیا گیا۔ انہیں کولکتہ کے علی پور جیل بھیج دیا گیا اور25 جنوری 1925ءکو منڈلے برما منتقل کردیا گیا۔صحت کی خرابی کی وجہ سے انہیں مئی 1927 میں منڈلے سے رہا کر دیا گیا۔ کولکتہ لوٹنے پرانہیں 27 اکتوبر 1927کوبنگال کانگریس کمیٹی کا صدرمنتخب کیا گیا۔

 انہیں گاندھی جی کی پالیسیوں اور پروگراموں سے کبھی اتفا ق نہیں رہا، پھر انہوں نے عدم موالات تحریک میں حصہ لیا۔ لیکن انہوں نے ان کی شدید تنقید کی جب انہوں نے اس تحریک سے رجوع کرلیا۔ اسی طرح انہوں نے 1930 کی شہری نافرمانی تحریک میں شرکت کی۔ لیکن جب گاندھی جی نے1933میں اس تحریک سے رجوع کرلیا، تو انہوں نے دوبارہ ان کی پرزوراندازمیں تنقید کی۔ انہوں نے گاندھی جی کی جدید ٹکنالوجی کی مخالفت کی بھی تنقید کی۔ انہوں نے اعلان کیا:”ہمیں حال میں جینا ہوگا اور جدید صورت حال کو اختیار کرنا ہوگا۔ بیل گاڑی کے دن ہمیشہ کے لئے رخصت ہوچکے ہیں“۔

انہوں نے مزید کہا:”آزاد ہندوستان کو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے لئے خود کو ہتھیار سے لیس کرنا ہوگا جب تک ساری دنیا پورے دل سے غیرمسلح ہونے کی پالیسی قبول نہ کرلے“۔

سنہ1937تک سبھاش چندربوس کی پورے ہندوستان میں اچھی ساکھ رہی۔ انہوں نے کانگریس کوایک نئی زندگی دی۔ان کی شہرت کی وجہ سے، انہیں1938 میں کانگریس کا صدرمنتخب کیا گیا۔ انہوں نے قومی جدوجہد کی خاطر قومی منصوبہ بندی،اتحاد اور عوامی تنظیم کی تشکیل میں ایک رہنما کردارادا کیا۔ ہم ان کے تسلط اور ساکھ کا اندازہ 1939میں منعقد کانگریس صدرکے انتخاب سے لگا سکتے ہیں۔گاندھی جی نے بوس کے مقابلے پتابھی سیتارمیا کی حمایت کی۔ بوس پھربھی نمایندگان کی ایک بڑی اکثریت کے ذریعہ جو ان کے نظریات کے حامی تھے کانگریس کے صدرمنتخب ہوئے۔ یہ ملحوظ رہے کہ گاندھی جی کے حمایتیوں نے سبھاش کی مخالفت شروع کردی اوران کی صدارت کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔

آخرکارسبھاش سے یہ برداشت نہیں ہواکہ وہ ایک کٹھ پتلی صدر بن کررہیں اور انہوں نے کانگریس کی صدارت سے29اپریل1939 کو استعفیٰ دے دیا۔ بعد میں سبھاش نے کانگریس کے اندر ایک انتہائی اور ترقی پسند پارٹی کی بنیاد رکھی۔اس پارٹی کوفارورڈ بلاک کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ نڈت جواہر لال نہروکی طرح، سبھاش اشتراکی نظریات کے ایک طاقتور حامی تھے۔ انہوں نے ایک اشتراکی سماج کی تشکیل کے لئے متعدد پیمانے تجویز کئے:

(1) انہوں نے کاشتکاروں کے استحصال کے خاتمے کے لئے زمینداری منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی۔

(2) انہوں نے حکومت سے زمینی ٹیکس ہٹانے اور دیہی قرض کے لئے مناسب انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا۔

(3) انہوں نے جواہرلال نہروکے ساتھ آل انڈیاٹریڈ یونین کانگریس کی تشکیل میں حصہ لیا تاکہ حکومت پردباو بنایا جائے کہ وہ مزدوروں کے مطالبات پر توجہ دے۔

ڈی۔ این کندرا کہتے ہیں:”سبھاش کے قومی جذبے اور انقلابی نظریات کی وجہ سے، برطانوی حکومت نے جنوری1941میں انہیں کلکتہ میں انہیں کے گھرمیں نظر بند کر دیا۔ وہ ہندوستان سے مارچ 1941میں نکل گئے اور مدد کے لئے روس چلے گئے۔ لیکن جب روس نے اتحادیوں میں شمولیت اختیارکی، تووہ جرمنی چلے گئے۔فروری1943میں وہ جاپان کے لئے روانہ ہوئے تاکہ جاپانیوں کے تعاون سے انگریزوں کے خلاف ایک مسلح جدوجہد کی تنظیم کریں۔سنگاپورمیں، انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے آزاد ہند فوج منظم کی۔ اس کی مدد ایک پرانے انقلابی راس بہاری بوس نے کی۔ وہ پہلے ہی ہندوستان کی مکمل اور فوری آزادی کے حصول کے لئے انڈین انڈی پنڈنس لیگ ( Indian Independence League ) کی تنظیم کرچکے تھے۔

اسی طرح ستمبر 1942میں پہلے ہی انڈین نیشنل آرمی( Indian National Army) جس کے پہلے کمانڈر ان چیف موہن سنگھ تھے۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی سبھاش چندربوس انڈین انڈی پنڈنس لیگ کے صدرنیز انڈین آرمی کے سپہ سالار اعلیٰ ہوگئے ۔انڈین نیشنل آرمی میں بڑی تعداد میں ان ہندوستانیوں نے شمولیت اختیارکی جو جنوب وسط ایشیا میں رہ رہے تھے اور ان ہندوستانی سپاہیوں اورافسروں نے جنہیں جاپانی افواج نے برما، ملایا اور سنگاپورمیں پکڑاتھا۔سپاہیوں نے انہیں نیتاجی کہا۔ انہوں نے سپاہیوں کو نعرہ دیا:تم مجھے خون دومیں تمہیں آزادی دوں گا۔ ان کی جنگی للکارتھی”دلی چلو“۔انہوں نے بھرتی اورتربیت کے شعبے قائم کئے۔ مردوں اورعورتوں کے لئے تربیت گاہیں کھولی گئیں۔

انہوں نے اکتوبر 1943 میں آزاد ہندوستان کی عارضی حکومت کی بھی بنیاد رکھی۔ اس حکومت کو دنیا کی نوطاقتوں نے بشمول جرمنی، اٹلی، جاپان اور برما کے تسلیم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزوں کے خلاف اپنی فوجی مہم کا آغازکیا۔ جاپانیوں نے جزیرہ انڈمان نکوبار نیتاجی کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے ان کے نام بالترتیب ’شہید‘ اور ’سواراج‘ رکھے۔ اس طرح انہیں آزاد ہندوستان میں پہلی ریاست حاصل ہوئی“۔

کولکتہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس بی پی چکربرتی نے بالکل درست کہاہے:”جب بیسویں صدی کے ہندوستان کے تاریخ کے نئے موڑ، اورخصوصی طورپر آزادی کی خاطرملک کی انوکھی جدوجہد کی داستان لکھی جائے گی تو بلا شک وشبہ ایک ہی شخص کا نام لیاجائے گا جس نے اپنے ہم وطنوں میں سب سے اہم اور غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ اپنے مادر وطن کو غیر ملکی غلامی سے نجات دلانے میں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شخص نے اپنے پاوں دو براعظموں میں ایک دیوپیکرکے طرح پھیلا دئیے، اور اس کی آزاد فوج کے قدموں کے نشان یورپ کے جنگلات اورریگستانوں اور ایشیا کی پہاڑیوں اورکوہساروں میں منعکس ہوئے۔اس کے مسلح حملوں نے برطانوی سلطنت کی بنیاد ہی ہلا دی۔ ا س کا نام سبھاش چندربوس تھا“۔

خلاصہ کلام یہ کہ سبھاش ہندوستان کی شان اوراس کا غرور ہیں۔ ان کی زندگی ہمارے لئے تشویق وتحریک کا ذریعہ ہے۔ ہمارے ملک کی جدوجہدآزادی کے لئے ان کی بے غرض خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بوس کی وفات کولے کر کافی ابہام اور اختلاف ہے۔ لیکن یہ خیال ہے کہ18اگست 1945میں ٹوکیو جاتے ہوئے ان کا جہاز حادثے کا شکار ہوگیا جس میں ان کی موت واقع ہوئی۔