غریبی،جہالت اورتعلیم کے لیے ’کامن منیمم پروگرام‘ کی ضرورت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
غریبی،جہالت اورتعلیم کے لیے ’کامن منیمم پروگرام‘ کی ضرورت
غریبی،جہالت اورتعلیم کے لیے ’کامن منیمم پروگرام‘ کی ضرورت

 

 

Awaz

پروفیسر اختر الوسع 

ہندوستان میں اتحاد و اتفاق ہونا چاہیے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول ہونا چاہیے،امن و آتشی کا دور دورہ ہونا چاہیے ،مگر یہ کام کسی ایک مذہب یا طبقہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کے لیے سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی ۔ میں ایک ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی صفوں میں  اتحاد و اتفاق  پیدا کرنا چاہیے ،ملک کی یک جہتی کے لیے ،ملک  کے استحکام کے لیے ،ملک کی ترقی کے لیے ۔ اس کے لیے ہمیں ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے۔

اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ  ہمیں آپسی اختلافات کے ساتھ مذہبی اختلافات سے اوپر اٹھ کرایک ہونا ہوگا۔ہمیں اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہنے پر کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایک دوسرے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے ۔اس کے بعد ایک پروگرام  وضع کرنا چاہیے ،کامن منیمم پروگرام  ۔ جس کے سایہ تلے ہم ملک کی خدمت ،ترقی اور اتحاد کے لیے متحد ہوکر آگے بڑھ سکتے ہیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ وہ کونسی چیزیں ہیں جن کے لیے ہمیں اپنے ایمان کا سودا نہ کرنا پڑے اور ہم انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں۔اس کے لیے  ہمیں کچھ اصول وضع کرنے ہونگے۔

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے میرے عقیدے کے مطابق وطن سے محبت میرے ایمان کا جز ہے ۔اسی طرح انسانیت کی خدمت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ہم اپنے پڑوسی اور سماج کے وہ طبقات ہیں  جو مفلس اور کمزور ہیں ۔ہم ان کے کچھ کام آسکتے ہیں ۔کیسے کام آسکتے ہیں ۔ اس بارتے میں سوچنا ہوگا۔اس پر غور کرنےکی ضرورت ہے۔

اس کام میں بھی ہم مل جل کر کچھ کرسکتے ہیں ۔عملی طور پر کچھ کر دکھا سکتے ہیں۔اس سے جو فضا قائم ہوگی وہ ایک مثال بنے گی۔

میرا ماننا ہے کہاس ملک میں دوسری مذہبی اکائیاں ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ  بہتر اور مثبت  مکالمے  کا آغاز کرنا چاہیے۔،ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وقت بحث کا نہیں بلکہ مذاکرے کا ہے۔ مکالمے کا ہے۔

اب ضرورت ہے کہ ہم کچھ سمجھیں اور کچھ سمجھائیں۔ ایک دوسرے کو قریب لانے کا وقت ہے۔ کیا غلط فہمیاں ہمارے دلوں میں ہیں اور کیا دوسروں کے دلوں میں ہیں ۔ہمیں ان سب سے واقف ہونا چاہیے ۔یہی نہیں اہنیں باہمی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی بنیادوں پر دور کیا جانا چاہیے۔

ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ہمیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کا حق ہے ۔اس طرح دوسرے کو بھی وہ حق حاصل ہے  کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہے۔

اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ  اس ملک میں مذہبی منا فرت میرے یا آپ کے سبب نہیں۔ یہ خدا کی مرضی تھی جو ہمیں سوچ کے اعتبار سے پوری آزادی ملی۔ورنہ اللہ اتنی طاقت اور قدرت والا ہے کہ ہم سب کو ایک سانچے میں ڈھال سکتا تھا۔لیکن اللہ تعالی نے بھی ہر کسی کو یہ آزادی دی کہ وہ اپنے ذہین اور ضمیر کے مطابق جو مذہب چاہیے  اپنائے۔

یاد رہے کہ اپنے مذہب کے تعلق سے ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم حکمت اور دانائی کے ساتھ نر می اور نفاست کے ساتھ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں  وہ دوسروں تک پہنچا دیں ۔اس کو ماننا یا نہ ماننا ان کا اختیار ہے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ  قرآن پاک شکل میں جو اللہ کا کلام ہے اس میں دین سے کوئی زور زبردستی  نہیں ہے۔اس لیے  اگر ہمیں اپنے عقیدے کو ماننے کی آزادی عزیز ہے ۔اس طرح دوسرے کی آزادی اور احترام بھی کرنا چاہیے ۔

 ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اگر ہماری ہم وطنوں کے ساتھ بہتر ہم آہنگی ہو تو ہم ایک ایسا مشترکہ محاذ  ہم وطنوں کے ساتھ مل کر بنا سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ایک ’’کامن مینمم پروگرام‘‘  بنا سکتے ہیں ۔جس کے تحت ہم غریبی ،بیماری ،جہالت،منشیات کے استعمال  ،صنفی مساوات اور بچوں کے استحصال کے خلاف جنگ لڑ سکتے ہیں۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہندوستان وشو گرو بن سکتا ہے۔ ہم ایک نئے ہندوستان کو وجود میں لا سکتے ہیں ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ہم جن باتوں کو اس مشترکہ پروگرام میں شامل کریں گے ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔یہ مسائل تمام انسانوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں

تو آئیے  مذہب کے نام پر لڑنے کے بجائے اس بات کا عہد کریں کہ ہم کسی مذہبی عقیدے اور مذہبی پیشوا کی توہین نہیں کریں گے اور تمام انسانوں کو بلا تفریق خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے ۔ بقول پیغمبر اسلام ﷺ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔