نظیراکبرآبادی کی زبانی ’بھگوان شیوا‘ کی تعریف

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-03-2021
نظیراکبرآبادی
نظیراکبرآبادی

 

 

ثاقب سلیم

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں ،اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ملک کی تہذیب بھی مشترکہ ہے۔ جس میں یکسانیت ہے۔حالانکہ موجودہ دور میں شاید لوگ یقین نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ صدیوں سے دانشور اور تاریخ داں دیگر مذاہب کی تعریف میں لکھتے آئے ہیں۔ملک کی یکساں تہذیب اور تمدن پر روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ کسی نے شاعری میں تعریف کی تو کسی نے نثر میں۔ایسے مسلمان شاعروں کی ایک لمبی فہرست بن سکتی ہیں جنہوں ہندو دیوتاوں کی تعریف میں کلام کہے ہیں۔ ان میں علامہ اقبال ،نظیراکبرآبادی جیسے نام شامل ہیں۔جنہوں نے بھگوان شیوا کی تعریف میں شاعری کی ۔

اس شیو یاتری کےموقع میں میں چاہتا ہوں کہ اکبر نذیراکبر آبادی کی ایک نظم کی یاد دلاوں جس میں انہوں نےبھگوان شیوا کی تعریف کی تھی۔حالانکہ اس کے بعد بھی ایسے شاعر آئے جنہوں نے نذیراکبر آبادی کی طرز پر شاعری کی۔مگر اس کا آغاز کرنے کا سہرایقینا نظیراکبرآبادی کے سر جاتا ہے۔ان کے بعد اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مرزا غالب نے بھی اس طرز کو اپنایا تھا۔ اقبال نے نئے ہندوستان کو شیوا کا مندر بیان کیا تھا۔

اس طرح ثنا اللہ میراجی نے شیو اور پاروتی کو بہترین محبتی جوڑا قرار دیا تھا۔اور بھی متعدد مسلم شاعروں نے بھگوان شیوا کی تعریف کی ہے۔ مگر جتنا لگاو بھگوان شیوا سے نذیر اکبرآبادی کو تھا شاید کسی کو نہیں ہوگا۔ نظیراکبرآبادی کی ایک نظم کا عنوان ہے ’مہا دیو جی کا بیاہ‘۔

پہلے ناؤں گنیش کا، لیجئے سیس نوائے

جا سے کارج سدھ ہوں، سدا مہورت لائے

یہ شعر پڑھیں تو آج کے دور میں حیر ت ہوتی ہے کہ ایک شاعر جو مسلمان ہے،اپنے سامعین سے درخواست کررہا ہے کہ اس کہانی کو شروع کرنے سے قبل بھگوان شیوا کا نام لیں۔آج کے دور میں دقیانوسی ایسے شاعر کے خون کی پیاسی ہوجائے گی لیکن دو صدیوں قبل ایسے حالات نہیں تھے۔یہ شعر پڑئیں تو آج کے دور میں حیر ت ہوتی ہے کہ ایک شاعر جو مسلمان ہے،اپنے سامعین سے درخواست کررہا ہے کہ اس کہانی کو شروع کرنے سے قبل بھگوان شیوا کا نام لیں۔آج کے دور میں دقیانوسی ایسے شاعر کے خون کی پیاسی ہوجائے گی لیکن دو صدیوں قبل ایسے حالات نہیں تھے۔

بول بچن آنند کے، پریم، پیت اور چاہ

سن لو یارو، دھیان دھر، مہادیو کا بیاہ

جوگی جنگم سے سنا، وہ بھی کیا بیان

اور کتھا میں جو سنا، اس کا بھی پرمان

سننے والے بھی رہیں ہنسی خوشی دن رین

اور پڑھیں جو یاد کر، ان کو بھی سکھ چین

اور جس نے اس بیاہ کی، مہما کہی بنائے

اس کے بھی ہر حال میں، شیو جی رہیں سہائے

خوشی رہے دن رات وہ، کبھی نہ ہو دلگیر

مہما اس کی بھی رہے جس کا نام نظیرؔ

ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جب میں اس نظم کو پڑھتا ہوں تواس بات کا احساس ہوتا ہے موجودہ دور میں ہندو اورمسلمانوں کے درمیان اختلافات دراصل انیسویں اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے دور کی دین ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نذیر اکبر آبادی کی شاعری 1857سے قبل کی ہے،مگر انہیں آج کے دور کی طرح بھگوان شیواکے ہندو پن کا احساس نہیں تھا۔ایک سچا مسلمان ایک ہندو بھگوان کی تعریف میں کلام سنا سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک دونوں مذاہب کے درمیان کوئی حد بندی نہیں تھی۔اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی تہوارثقافت ساز نظر آتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگوان شیوا کی سراہنا کرنےکی روایت تو زندہ رہ گئی ہے کیونکہ سترہویں صدی میں علی مردان خان ،اٹھارہویں صدی میں نظیراکبرآبادی اور بیسویں صدی میں میرا جی نے اس روایت کو زندہ رکھا لیکن ایک سچ یہ بھی ہے مسلمان شاعروں میں اس جوش اور جنون گھٹ گیا ہے۔