غوث سیوانی، نئی دہلی
پاکستانی عالم دین مولانا جاوید احمد غامدی اپنے منفرد نظریے اور بیباکانہ گفتگو کے سبب اکثر تنازعات میں آجاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کا تنگ نظر معاشرہ انہیں قبول نہیں کرپایا اور مولانا کو ترک وطن کرکے پہلے ملیشیا اور پھر امریکہ جانا پڑا۔ مولانا جاوید غامدی نے امریکہ میں بیٹھ کر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جس بیباکانہ طریقے سے اپنے خیالات ظاہر کر رہے ہیں،وہ پاکستان میں ممکن نہیں تھا۔ مولانا کھل کر پاکستانی معاشرہ، عدلیہ، فوج اور علما کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
وہ پاکستان میں پھلتی پھولتی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بھی غلط بتاتے ہیں اور اسے تباہی کا سبب مانتے ہیں۔ وہ کشمیر اور افغانستان میں پاکستان کے رویے کے بھی سخت ناقد ہیں۔ مولانا جاوید احمد غامدی مانتے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ کشمیر کے تعلق سے فیصلہ کا حق صرف کشمیریوں کو ہے لہٰذا پاکستان کو ہندوستانی قبضے والے علاقے میں دہشت گردی نہیں بھجنے چاہیئیں۔ اسی کے ساتھ مولانا، افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کو بھی درست نہیں سمجھتے اور طالبان کی حکومت کو درست نہیں سمجھتے۔
گزشتہ دنوں مولاناجاوید احمد غامدی نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔انہوں نے دہشت گردی وانتہاپسندی، پاکستان کی صورت حال اور اجتہاد کی ضرورت جیسے موضوعات پر بھی کھل کو بات کی۔ حالیہ ایام میں سوئیڈن میں قرآن جلانے کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن ،اللہ کی کتاب ہے۔ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا پیغام انسانوں تک پہنچائیں۔ ہم مسلمانوں نے کیا اپنی تمام توانائی صرف کرکے دنیا کو بتایا ہے کہ قرآن کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ ہمارا کام یہ ہے کہ اس کے پیغام کا تعارف کرائیں اور اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اس کا حق ہے کہ تنقید کرے، کوئی اعتراض کرتا ہے،تو اس کا حق ہے کہ اعتراض کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن کریم خود ایسی کتاب ہے جو لوگوں کے اعتراضات کے جواب دیتی ہے۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہی قرآن کی بہت سی سورتیں نازل ہوئی ہیں۔قرآن نے جو کام تب کیا تھا،ہمیں اب بھی وہی کرنا ہے۔ اب رہ گئی یہ بات کہ کوئی شخص اعتراض سے آگے بڑھ کر کوئی ایسا کام کرتا ہے جو ہمارے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے تواس پر بھی قرآن مجید نے کہا ہے کہ صبر کرو، جو اذیت تمہیں دی جائے ، اس پر صبر کرو۔
جاوید غامدی صاحب توہین قرآن کے واقعے کو ایک موقع کی طرح دیکھتے ہیں جس میں قرآن کا تعارف کرایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دنیا میں کہیں قرآن کی توہین یا جلانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو ساری دنیا اس جانب متوجہ ہوجاتی ہے۔ جو دن رات اپنے کام میں لگی ہوتی، ترقی کے خواب دیکھتی رہتی ہے، وہ متوجہ ہوجاتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ قرآن کے ساتھ کچھ ہوگیا ہے۔یہ قرآن کا تعارف کرانے کا اچھا موقع ہے۔ یہ سب دنیا میں ہوتا رہا ہے۔
پیغمبر کے زمانہ میں بھی ہوا اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ آپ کا کام ہے کہ قرآن کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ احتجاج کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا،مزید تضحیک ہوتی ہے۔ مواقع اور بڑھتے ہیں۔لوگ مشتعل ہوتے ہیں۔ گریزاں ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی تعلیم ہے کہ اگر کہیں قرآن کا مذاق اڑایا جائے تو ایسی محفلوں سے اٹھ جائو۔
توہین رسالت کی سزا کیا ہے؟اس معاملے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں مختلف جرائم کی سزا متعین کی گئی ہے مگر کہیں بھی توہین رسالت کی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ قرآن کریم اس کے ذکر سے خالی ہے۔ عہد نبوی میں بھی اہانت رسول کے واقعات ہوئے مگر اس کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ مولانا نے کہا کہ ایک واقعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ ماننے پر ایک شخص کی گردن اڑادی تھی۔ لیکن یہ روایت بہت کمزور ہے اور تیسرے درجہ کہ کتب احادیث میں بھی یہ واقعہ نہیں ملتا ہے۔
پاکستان کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان، ابتدا سے ہی کشکمش کا شکار ملک رہا ہے۔ طرز حکومت کے معاملے میں کشمکش رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں موجود انتہاپسندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ کو طالبان جیسا نظام چاہئے تو پھر انہیں کو حکومت کے لئے بلالیں۔ اس سے بدترین حکومت کیا ہوسکتی ہے؟ اسی کے ساتھ مولانا جاوید خامدی نے افغانستان میں طالبان کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو افغان عوام کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی حکومت کو عوام کے شخصی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔خدا نےآپ کو اس بات کا حق نہیں دیا۔۔۔۔۔
پاکستان میں عدم استحکام مستقل ہے، اضافہ ہوتا جارہا ہے؟ اس معاملے میں مولانا جاوید غامدی کہتے ہیں کہ پاکستان کو پیدائش سے دوبیمیاریاں ہیں لاحق ہیں۔ ایک ملٹری کے پاس اقتدار کا جانا ہے کیونکہ ملٹری اور جمہوریت میں کشمکش ہے۔ دوسری بیماری ہے مذہبی اور قومی ریاست کی کشمکش ہے۔ سلطنتوں کا دور پہلی جنگ عظیم کے بعد ختم، ہوگیا تھا، اس کے بعد قومی ریاستوں کا دور شروع ہوا۔ جو ریاستیں آزاد ہوئیں ، انہوں نے قومی ریاست کا راستہ اپنایا۔قومی ریاست کا دور یوروپ میں پہلے شروع ہوا پھر ایشیا میں بھی ہوا۔ قومی ریاست کا مطلب ہے کہ ایک خطے میں رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں، ان کا مذہب خواہ کچھ بھی ہو۔
ان کا رنگ مختلف ہوسکتا ہے، نسل مختلف ہوسکتا ہے۔ کسی شخص سے مذہب، رنگ ونسل کی بنیاد پر بھید بھائو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جمہوری نظام ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک ہے مذہبی ریاست۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک مذہب کی ریاست ہو، یہ سنی علما ہوسکتے ہیں، شیعہ علما ہوسکتے ہیں، کوئی طالبان جیسی قوم ہوسکتی ہے۔ مذہبی اور قومی ریاست میں بڑا فرق ہے۔ یہ مشرق ومغرب جیسا فرق ہے۔
مذہبی ریاست میں صرف ایک مذہب کے لوگوں کو حکومت کی قوت دی جائے گی، اس میں عام شہریوں کی مداخلت نہیں ہوگی۔ دوسرے مذہب کے لوگ دوسرے درجے کے ، تیسرے درجے کے شہری کے طور پر رہیں گے۔ یہاں یہ عرض کر دوں کہ مسلمانوں کی وہ حکومت جس میں شریعت پر عمل ہو، وہ ایک تیسری قسم کی حکومت ہے۔ ہمارے یہاں مذہبی اور قومی حکومت کی کشمکش رہی ہے۔ ہم نے اسے ایسی صورت دینے کی کوشش کی کہ یہ ایک زاویے سے قومی حکومت لگے اور ایک زاویے سے مذہبی حکومت دکھائی دے۔
پاکستان کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مولانا کا کہنا ہے کہ میرے خیال سے پاکستان کے مرض کا علاج ضروری ہے۔ یہاں نہ تو جمہوریت چلے گی اور نہ آمریت چلے گی۔ تجربہ ہوچکا ہے۔ کئی کئی سال تجربے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں چلا۔ اگر یہ کشمکش نہیں ختم ہوگی اورعدلیہ و فوج دستور کی پیروی نہیں کرتے تو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔دستور ایک میثاق ہے۔۔۔۔ میں پاکستان کی پوری تاریخ میں 1973 کے دستور کو اہمیت دیتا ہوں۔یہ پاکستان کی بقا کا ضامن ہے۔ ہر دستور میں کچھ مسائل ہوتے ہیں، انہیں ہم درست کرسکتے ہیں۔ لیکن اس دستور کو نہ کبھی فوج نے دل سے قبول کیا ہے اور معذرت کے ساتھ، نہ اسے عدلیہ نے دل سے قبول کیا ہے۔ ۔۔۔ اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے، ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہماری عدلیہ بھی آبرو باختہ عدلیہ ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں جمہوریت کو نہیں مانتی ہیں۔ جمہوریت ان کے لئے ایک حکمت عملی کی چیز ہے۔ مذہبی حکومت قائم کرنے کے لئے اگر جمہوریت کو سیڑھی بنانا پڑے تووہ اسے قبول کر لیتی ہیں۔
پاکستان میں مذہبی اور فوجی جماعت کو مختلف سمجھتے ہیں؟اس سوال کے جواب میں جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ہمیشہ اتحاد رہا ہے۔ ملٹری کے پاس بندوق کی طاقت ہے اور مذہبی لوگوں کے پاس لوگوں کے جذبات کی قوت ہے۔ اس لئے کہ ہم برصغیر کے مسلمان بہت جذباتی پس منظر رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں مل کر کام کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ آپ ایک نظریہ رکھتے ہیں اور اسے دوسروں سے منوانے کے لئے متشددانہ رویے اختیار کر لیتے ہیں، یہی انتہاپسندی ہے۔ آپ دوسروں پر جبر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ دوسروں کو بندوق کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔ یامعاشرے میں ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ جہاں کہیں پائی جائے، یہ انتہا پسندی ہے۔ اس انتہا پسندی نے ایک شکل اختیار کرلی ہے، مختلف گروہ منظم ہوگئے ہیں، انہوں نے ایک دوسرے گردنیں کاٹنی شروع کردیں، اس سے دہشت گردی وجود میں آگئی۔ یعنی انسانی جانیں خطرے میں پڑگئیں۔
جب ملالہ پر حملہ کیا گیا تھا تو میں نے ایک بات کہی تھی کہ اس نے زبان سے ایک بات کہی تھی، تو زبان سے جواب دیدیتے۔ اس کا جواب گولی تو نہیں۔ گویا اپنی بات بندوق کی نوک پر منوانی ہے، دوسروں کی زبان بند کردینی ہے، یہی دہشت گردی ہے۔ انتہا پسندی ہی دوسرے مرحلے میں دہشت گردی بن جاتی ہے۔ اگر حکومت سرپرستی بند کردے تو دہشت گردی میں کمی آتی ہے مگر انتہا پسندی کے لئے فکری جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑے تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ پورے منظم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہمارے لوگ تیار نہیں ہیں۔ اس کے لئے میں نے کوشش کی مگر ہمارے لوگوں میں شرح صدر نہیں ہے۔
اجتہاد پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم کا راستہ یہی ہے کہ آپ اجتہاد کریں، تحقیق کریں۔ سائنسی علوم ہوں یا دینی علوم سب میں اجتہاد اور تحقیق کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کے یہاں جو جمود پیدا ہوا ہے، وہ مسلمانوں کو لے ڈوبا ہے۔ ہمارے یہاں تحقیق اور غوروفکر کا دروازہ بند ہونےکے سبب ہی زوال ہوا ہے۔ یہ دروازہ کھولنا ضروری ہے۔ جب تک ہم دین کے معاملے میں سوال نہیں کرنے دیں گے علم آگے نہیں بڑھے گا۔ دین تو اللہ کا معاملہ ہے لیکن دین کو سمجھنے کے لئے سوال لازمی ہے۔ دین ہمیشہ سمجھنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ایک ناگزیر کام ہے، ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضرورت ہے۔
عورتوں کے لئے دوپٹہ سے سر ڈھانپنا لازم ہے؟ اس بارے میں جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ بوڑھی عورتیں اپنے سینے کا دوپٹہ ہٹا سکتی ہیں لیکن نہ ہٹائیں تو بہتر ہے۔ اسی طرح اگر عورتیں مردوں کے سامنے آرہی ہیں اور انہوں نے زیورات پہنے ہوں یا بنائو سنگار کر رکھے ہوں تو ان کے لئے اس کا چھپانا لازم ہے۔ البتہ انہوں نے اگر زیورات نہ پہنے ہوں اور بنائو سنگار بھی نہ کیا ہو تو بغیر دوپٹہ کے باہر نکل سکتی ہیں البتہ بہتر یہی ہے کہ وہ دوپٹہ سے سر کو ڈھانپ لیں۔
جاوید غامدی کا کہنا ہے کہ دوپٹہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی گناہ ہے؟اس سوال کے جواب میں مولانا غامدی کہتے ہیں کہ جی ہاں! ٹرافک ضابطوں کی خلاف ورزی گناہ ہے۔ کیونکہ آپ اگر ٹرافک ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس سے دوسروں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتاہے۔ اور یہ گناہ ہے۔