بھاگود گیتا کا ترجمہ کرنے والے مسلمان

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
بھاگود گیتا کا ترجمہ کرنے والے مسلمان
بھاگود گیتا کا ترجمہ کرنے والے مسلمان

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ گیان کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ جنہیں علم کی اہمیت کا اندازہ ہے، وہ اسے کہیں سے بھی حاصل کرتے ہیں اور اس کی تقسیم میں بھی کنجوسی نہیں کرتے۔ جس طرح قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والوں میں عیسائی، یہودی اور ہندو شامل ہیں، اسی طرح بھاگود گیتا کے مترجمین میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں نے اس کا ترجمہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا ہے۔ انہوں نے تب گیتا کا ترجمہ کیا تھا جب قرآن کریم کا بھی کسی دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں نے جہاں نثر میں گیتا کے ترجمے کئے وہیں نظم کے حسین پیرائےمیں بھی اس کاترجمہ کیا۔ گزشتہ دنوں تلنگانہ کی

ایک مسلم لڑکی ہبہ فاطمہ سرخیوں میں تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس نے بھاگود گیتا کا ترجمہ اردو اور ہندی میں کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ موجودہ ماحول میں اس قسم کے اقدام بادبہاری کے سرد جھونکوں کی طرح ہیں جن سے جسم ہی نہیں روح کو بھی سکون مل جاتا ہے۔ مسلمانوں کو کبھی بھی ہندووں کے مذہب اور ان کے مذہبی گرنتھوں سے کدورت نہیں رہی ہے بلکہ ان کا احترام کرتے رہے ہیں اور ان کے ترجموں کا آغاز مسلمانوں نے ہی کیا۔ایک عالمی رکارڈ ہولڈر صلاح الدین عرف صلو چودھری نے بھی گیتا کا آسان ہندی میں ترجمہ کیاہے۔یہاں ہم ایسے ہی کچھ مسلمان مترجمین کا ذکر کرنے جارہے ہیں، لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کی گیتا کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟

awaz

گیتا کی اہمیت

شریمد بھگود گیتا، دنیا کی معروف مذہبی کتابوں میں سے ایک ہے۔اس میں، بھگوان کرشن کے وہ مواعظ ہیں جو انہوں نے مہابھارت کے میدان جنگ میں ارجن کے سامنےدیئےتھے۔ گیتا ایک ایسی کتاب ہدایت ہے جس پر عمل کرکے انسان اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔

 گیتا کے اقوال، انسان کو صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کا راستہ دکھاتے ہیں اور مذہب کے راستے پر چلتے ہوئے اچھے کام کرنے کا درس دیتے ہیں۔ مہابھارت کے میدان جنگ میں کھڑے ارجن اور کرشن کے درمیان ہونے والے مکالمے سے ہر انسان تحریک حاصل کرسکتا ہے۔

  جب ارجن، میدان جنگ میں جاتے ہیں تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے سامنے دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ تب بھگوان شری کرشن انہیں صحیح علم دیتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں۔ ارجن کو تبلیغ کرتے ہوئے شری کرشن کہتے ہیں کہ ، یہ جنگ مذہب اور بددیانتی کے درمیان ہے۔ اس لیے ہتھیار اٹھاؤ اور دھرم کو قائم کرو۔

گیتا میں کہا گیا ہے کہ غصہ کنفیوژن پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے عقل بے چین ہوجاتی ہے۔ الجھا ہوا آدمی اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ پھر ساری منطق فنا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان گر جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہیے۔

گیتا میں بھگوان شری کرشن نے کہا ہے کہ انسان کو اپنے اعمال کی جزا ملتی ہے۔ اس لیے انسان کو ہمیشہ اچھے کام کرنے چاہئیں۔

بھگوان شری کرشن کا کہنا ہے کہ خود شناسی سے خود کو پہچانو کیونکہ جب تم خود کو پہچانو گے، تب ہی اپنی صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکو گے۔ جہالت کو علم کی تلوار سے کاٹ کر الگ کیا جائے۔ جب کوئی شخص اپنی صلاحیت کا اندازہ لگاتا ہے، تب ہی اسے نجات مل سکتی ہے۔

بھگوان شری کرشن کہتے ہیں کہ موت ایک ناقابل تغیر سچائی ہے، لیکن صرف یہ جسم فانی ہے۔ روح لافانی ہے، روح کو کوئی نہیں کاٹ سکتا، آگ اسے جلا نہیں سکتی اور پانی اسے بھگو نہیں سکتا۔ جس طرح ایک کپڑا بدل کر دوسرے میں داخل ہوتا ہے، اسی طرح روح ایک جسم کو چھوڑ کر دوسرے میں داخل ہوتی ہے۔

صلو چودھری کہتے ہیں کہ بھاگود گیتا ’مینول آف لائف‘ ہے۔ یعنی یہ زندگی گزارنے کاسلیقہ سکھاتی ہے۔ اس میں حکمت ودانائی کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔گیتا کی تعلیمات اور قرآن کے درس میں اسّی فیصد مماثلت ہے۔انہوں نے کہا کہ گیتا اور قرآن دونوں کتابوں میں کہا گیا ہے کہ سچ بولو اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرو۔

 مولانا علی میاں ندوی کا حوالہ دیتے ہوئے صلو چودھری کہتے ہیں کہ گیتا میں صحیفۂ ابراہیمی کے کچھ اوراق شامل ہوسکتے ہیں۔

گیتا میں مسلمانوں کی دلچسپی کیوں؟

بھاگود گیتا سناتن دھرم کی کتاب ہے مگر اس میں مسلم محققین کوہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ وہ اس کتاب میں نورقرآنی دیکھتے ہیں۔ گیتا کے ایک مترجم صلو چودھری سے جب پوچھا گیا کہ انہیں گیتا کا ترجمہ کرنے کا خیال کیسے آیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں مطالعہ کا شوق ہے۔ وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں اورمذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ انہیں مذہب اسلام سے لگائو ہے اور دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے کہ انہیں اس کا خیال آیا۔

صلو چودھری کا کہنا ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر زمانہ اور ہر قوم میں اللہ کے پیغمبرآئے تاکہ انسان کو درست راستہ دکھائیں۔ آسمانی صحیفے بھی نازل ہوئے۔ حالانکہ امتداد زمانہ کے ساتھ صحائف میں لوگوں نے تحریف کردیا ہے۔ پرانے مذاہب کی اصل شکل محفوظ نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ آج کل جس قسم کا دھرم کا پرچار ہورہا ہے، وہ گیتا میں نہیں۔ کوئی مذہب نفرت نہیں سکھاتا۔ آج سیاسی باتوں کو مذہب کا رنگ دیا جارہا ہے۔آج گیتا اور قرآن دونوں پڑھنے اور سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

واضح ہوکہ صلو چودھری کا اصل نام صلاح الدین چودھری ہے۔ انہوں نے کار کے ذریعے پوری دنیا کا تیزتر چکر لگانے کا عالمی رکارڈ بنایا ہے۔ انہوں نے دوبار اس چیلنج کو پورا کیا۔ صلو چودھری کا ایک دوسرا منفرد کارنامہ بھاگود گیتا کا آسان ہندی ترجمہ ہے۔2013میں ان کی کتاب منظرعام پرآچکی ہے۔صلوچودھری کہتے ہیں کہ انہوں نے گیتا کے متعدد ترجمے پڑھے جو مختلف زبانوں میں تھے۔ اردو میں خواجہ دل محمد کا ترجمہ بھی پڑھا۔ انگلش کا ترجمہ بھی پڑھا مگر پھر خیال آیا کہ ایک عام آدمی کو سمجھانے کے لئے عام فہم ترجمہ کی ضرورت ہے۔ سنسکرت تو عوام سمجھ نہیں سکتے جب کہ اردو ترجموں میں عربی وفارسی کے ثقیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں،ایسے میں میں نے آسان اور عوامی زبان میں ترجمہ کا سوچا اور اسے انجام دیا۔ پھر بھی اگر کوئی مشکل لفظ آگیا تو حاشیئے میں اس کا ترجمہ لکھ دیا تاکہ ہر کوئی سمجھ سکے۔

عہدوسطیٰ کے مترجمین   

مہابھارت کا فارسی ترجمہ، مغل عہد میں ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس عظیم داستان کو  

سنسکرت کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ڈھالا گیا۔ یہ ترجمہ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے حکم سے ہوا اور اسے ’رزم نامہ‘ کا نام دیا گیا۔ کتاب کو خوبصورت اوررنگین تصویروں سے سجایا گیا۔ چونکہ گیتا ’مہابھارت‘ کا ہی ایک حصہ ہے لہٰذا اس کا بھی ترجمہ ہوا۔ ترجمہ کرنے والوں اور اسے مصور کرنے والوں میں بیشتر مسلمان ہی تھے۔چونکہ تب ایشیاسے افریقہ تک فارسی زبان کا چلن تھا لہٰذا اس داستان نے فارسی کا لبادہ اوڑھ کر متعدد مسلم ملکوں تک رسائی حاصل کرلی۔ 

تاریخی روایات کے مطابق 1582ء میں اکبر نے مہابھارت کو فارسی زبان میں ترجمہ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا اور1584 - 1586کے درمیان یہ کام کیاگیا۔ مہابھارت میں ایک لاکھ اشلوک تھے جن کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی کاپیاں متعدد لوگوں کو بھیجی گئیں۔ اس کی کاپیاں ان مسلم امرا کو خاص طور پر بھیجی گئیں، جنہیں ہندو علاقوں میں حکومت نے  مامور کر رکھا تھا۔ اکبر کی جانب سے یہ شاہی فرمان بھی جاری کیا گیا کہ اس کتاب کو تحفہ مانا جائے۔ ابوالفضل کے مطابق، اس کتاب کی اشاعت اور تحفہ کے پیچھے اچھے اور نیک ارادے تھے۔ اس ترجمہ کی ایک کاپی آج بھی جئے پور (راجستھان) کے ’سٹی پیلس میوزیم‘ میں محفوظ ہے۔

 مشفق نے اس رزم نامہ کے لیے کئی تصاویربنائی تھیں اور رنگین نقشے تیار کیے تھے۔اس کی دوسری کاپی1599 میں مکمل ہوئی جس میں 161 تصاویر اور پینٹنگس کا استعمال کیا گیا۔

ایک محقق شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

’’اکبر نے ادبیات کی سرپرستی کی۔ سنسکرت،عربی، ترکی، یونانی سے فارسی میں کتابیں ترجمہ کرائیں۔ سنسکرت سے جوکتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں رامائن، مہابھارت، بھاگوت گیتا، اتھروید اور ریاضی کی کتاب لیلاوتی مشہور ہیں۔‘‘ (رودکوثر،صفحہ 164)

اکبر کے حکم سے جن کتابوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا تھا ان کی تعداد مورخین نے پندرہ بتائی ہے۔ بھاگود گیتا کا ترجمہ فیضی نے کیا تھا۔ مہابھارت اور رامائن کو سنسکرت سے فارسی میں ڈھالا تھاملا عبدالقادر بدایونی نے۔

تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ شاہ جہاں کے بیٹے دارا شکوہ کو ہندو گرنتھوں سے خاص لگائو تھااور اس نے جن گرنتھوں کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا ، ان میں گیتا بھی شامل ہے۔ صلو چودھری کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے دارا شکوہ کا مقصد قومی یکجہتی کا فروغ اورہندو۔مسلم بھائی چارہ بنائے رکھنا تھا۔   

اردوترجمے

 مغلوں کے آخری دور میں بھاگود گیتا کو اردو کا لباس بھی پہنادیا گیا اور اب تو کئی منظوم ترجمے بھی ان کتابوں کے ہوچکے ہیں۔

صلوچودھری کہتے ہیں کہ گیتا کا پہلا اردو ترجمہ سترہویں صدی میں سید متین نام کے ایک شخص نے کیا تھا۔ یہ اردو کا پہلا ترجمہ تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے الگ الگ دور میں ترجمے کئے۔

فارسی کی طرح اردو زبان میں خاص بھاگود گیتا کے متعدد ترجمے کئے گئے ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں اس کے ترجمے اور تفاسیر اردو میں موجود ہیں۔

گیتا کا گیان اردو شاعری میں بھی جگہ جگہ ملتا ہے جہاں اس کے مفاہیم کو شعراءنے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے، وہیں کئی شعراءنے گیتا کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔گیتا کا اب تک کا آخری منظوم ترجمہ انورجلالپوری نے’اردو شاعری میں گیتا‘کے عنوان سے کیا ہے۔ان کا یہ ترجمہ دیکھیں ، ایسا لگتا ہے گویا قرآن کی آیت الکرسی کا منظوم ترجمہ ہے:

خدا ہے ازل سے ابد تک خدا

نہیں اس کی قدرت کی کچھ انتہا

وہ موجود ہے اور دیکھے سبھی

وہ اِک لمحے کو بھی نہ سوئے کبھی

لطافت بھی بے انتہا اس میں ہے

جو گیانی سنیں وہ صدا اس میں ہے

سبھی کچھ سنبھالے ہوئے ہے وہی

مگر وہ نہ آئے تصور میں بھی

وہ ظلمت نہیں نور ہی نور ہے

اندھیرا تو اس سے بہت دور ہے

اوپر درج مصرعوں میں جہاں سلاست وروانگی ہے وہیں زبان وہ بیان بھی بہت سادہ ہے۔ انھیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا قرآن کا پیغام توحید پیش کیا جارہا ہے۔جس وحدت کا پیغام قرآن کریم میں دیا گیا ہے اسی کی تعلیم گیتا میں بھی ملتی ہے۔نورِ وحدت سے معمور ان اشعار کو ذرادیکھیں جو گیتا کا ہی ترجمہ ہیں:

فضاﺅں میں جیسے ہوائیں رہیں

اسی طرح سب جیو مجھ میں بسیں

مقدس ہوں، پھل دینے والا ہوں میں

مجھے جان لے سب سے اعلا ہوں میں

مرے بیج سے سب جگت جنم لے

برہمانڈ کی سلطنت جنم لے

کئی دیوتاﺅں میں اٹکے ہیں جو

مرے راستے سے بھی بھٹکے ہیں وہ

انور جلال پوری نے بھگود گیتا کے 700اشلوکوں کا1700اردو اشعار میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی کتاب کا سابق چیف منسٹر اتر پردیش اکھلیش یادو نے رسم اجرا انجام دیا تھا۔  انور جلال پوری کی کتاب نہ صرف اردو اشعار میں اشلوکوں کا ترجمہ ہے بلکہ یہ مقدس متن کے جوہر کو دوبارہ گرفت میں لینے کی ایک کوشش ہے۔

گیتا اور اس کے مسلم مترجمین

بھاگود گیتا کو ہندومت کی تعلیمات کا عطرمجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مقدس کتاب کا دنیا کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اس کے مترجمین میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں نے اس کے منثور اور منظوم ترجمے میں دلچسپی دکھائی۔ یہ ترجمے آج بھی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں اور کچھ نایاب یاکمیاب ہیں۔ گیتا کو سمجھنے کے لئے ایک دو ترجمے کافی تھے مگر اس کے باجود سینکڑوں ترجمے ہوئے جو اس حقیقت کا اظہار تھے کہ قلمکاروں کو گیتا اور اس کی تعلیمات سے کتنی دلچسپی ہے۔ خاص طور پر مسلمان اہل علم نے اس کے ترجمے میں دلسچپی دکھائی، جو ہندوستان کی ہم آہنگی کی ثقافت کا ثبوت بھی ہے۔ اس سے ملک کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مدد ملی۔ خاص طور پر اردو میں گیتاکے جو ترجمے ہوئے ان کے مترجمین میں ہندووں سے زیادہ مسلمان نظر آتے ہیں۔

جن مسلمان قلمکاروں نے شریمد بھاگود گیتا کا ترجمہ کیا ان میں شامل ہیں خواجہ دل محمد، جنہوں نے ’دل کی گیتا‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔ یہ منظوم ترجمہ ، فکشن ہاﺅس لاہور کی جانب سے شائع ہوا تھا۔

خواجہ دل محمد کے بارے میں جو جانکاریاں ملی ہیں، ان کے مطابق وہ  فروری 1883ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور 27مئی 1961ء کو یہیں  وفات پائی۔ کینسر کے سبب ان کی موت ہوئی۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور میں ریاضی کے استاد رہے اور پھرپرنسپل بھی بنے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے نامو رشاگردوں میں شیخ عبداللہ (سابق وزیر اعلیٰ ریاست جموں و کشمیر) ، عبدالحمید سالک اور مولانا غلام رسول مہر تھے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے، شریمد بھاگود گیتا،کا ایک ترجمہ کیا تھا جسے سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا تھا۔ اس پر انتظار حسین نے مقدمہ تحریر کیا تھا۔

مترجم گیتا پروفیسر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کا تعلق بھی لاہور(پاکستان) سے تھا۔ وہ پاکستان کےمعروف فلسفی، شاعر، نقاد، محقق، ماہر اقبالیات، ماہر غالبیات، مترجم تھے۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) کےپروفیسر اورادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ ان کا تعلق ایک کشمیری خاندان سے تھا جو لاہور میں آبسا تھا۔تقریباً ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم 30 جنوری 1959ء کو لاہور میں حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے۔  وہ  علامہ اقبال سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔

گیتا کے جو ترجمے دستیاب ہیں ان میں ایک’نغمہ خداوندی ترجمہ بھگوت گیتا‘بھی ہے۔ اس کے مولف یا مترجم مرزا جعفر علی خان اثر لکھنوی ہیں۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر گزرے ہیں۔انہوں نے مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی سے کلام پر اصلاح لی تھی۔ان کے شعری مجموعےاثرستان، بہاراں، رنگ بست، لالہ و گل، نو بہاراں شامل ہیں۔

اردو تنقید میں ان کے مضامین کا مجموعہ 'چھان بین'، 'انیس کی مرثیہ نگاری'اور 'مطالعۂ غالب' کے علاوہ'فرہنگ اثر'منظر عام پر آئے ہیں۔

ایک ترجمہ محمد اجمل خان نے کیا تھا جو ’نغمہ خداوندی‘ کے ٹائٹل کے ساتھ، برقی پریس الہ آباد سے1935میں شائع ہوا تھا۔ واضح ہوکہ یہ صاحب مولانا ابوالکلام آزاد کے پرسنل سکریٹری تھے اور بعد کے دور میں راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے۔

awaz

صلوچودھری کا ترجمہ گیتا،جو اردو،ہندی اور رومن میں ہے

 شان الحق حقی نےبھگود گیتا کا ایک ترجمہ کیا تھا جس میں پروفیسر خلیق انجم نے مقدمہ لکھا تھا۔ یہ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دلی،کی جانب سے1994میں شائع ہوا تھا۔

شان الحق حقّیؔ،دہلی کے رہنے والے تھے۔ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ بعد کے دور میں پاکستان ہجرت کر گئے۔ انہوں نے متعدد علمی اور قلمی کام کئے۔ شان الحق حقی کو حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کا اعزازدیا گیا۔ ان کا 2005 میں کینیڈا میں انتقال ہوا۔  

عبدالغنی شیخ نےگیتا کا اردو ترجمہ کیا تھاجو متعدد حصوں میں تقسیم تھا۔

گیتا کے ایک مترجم حَسن الدین احمد تھے۔