مسلمان اور سول سروسیز کے امتحانات: کچھ کرنے کے کام

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-10-2021
مسلمان اور سول سروسیز کے امتحانات: کچھ کرنے کے کام
مسلمان اور سول سروسیز کے امتحانات: کچھ کرنے کے کام

 


awaz

 پروفیسر اختر الواسع،نئی دہلی

ہمارے ملک میں جن چار ستونوں پر ریاست کی اساس ہے ان میں ایک ان میں مجلس قانون ساز دوسرے انتظامیہ، تیسری عدلیہ اور چوتھا پریس ہے۔مجالس قانون ساز سے جو قانون پاس ہوتے ہیں ان کی کامیابی کے ساتھ نفاذ اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری انتظامیہ کے سر ہوتی ہے۔ یہ انتظامیہ اوپر سے نیچے تک بہت صاف شفاف طریقے سے اور تحریری امتحان نیز انٹرویو کے مختلف مراحل سے گزر کر منتخب کئے جاتے ہیں۔

انہیں پہلے تریبت دی جاتی ہے اور اس کے بعد انہیں عملی میدان میں اتار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ریاستی اور مرکزی سطح پر پبلک سروس کمیشن، سب آردینیٹ اسٹاف کمیشن جیسے ادارے اس کام کو انتہائی خیروخوبی کے، مستعدی اور شفافیت کے ساتھ انجام دیتے آ رہے ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی سول سروسیز اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے نتائج راحت بھرے جھونکے سے کم نہیں۔ ملک کی تعمیر وترقی پر گہری نگاہ رکھنے والے نتائج پر تبصرہ وتذکرہ کر رہے ہیں اور اپنے اپنے طور پر رائے، مشورے اور صلاح دینے میں لگے ہیں۔

مسلم نمائندگی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یو پی ایس سی امتحانات کے حالیہ نتائج بظاہر مایوس کن ہیں، 761امیدواروں کی فہرست میں صرف 31مسلم چہرے شامل ہیں، جو ہر فرقے اور ہر طبقے کے کامیاب طلبہ کی مجموعی تعداد کا کم و بیش 4 فیصد ہے۔ان میں کئی ایسے ہیں جنہوں نے نہایت نامساعد حالات میں تیاری کی، مشکلات کا شکوہ نہیں کیا، اپنے ہدف کو پانے کے لئے جان، مال اور نفس کی ہزاروں قربانیاں دیں، آج نتیجہ سامنے ہے۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ سر فہرست امیدواروں میں ایک مسلم لڑکی صدف چودھری نے 23ویں رینک حاصل کی ہے،فیضان احمد 58ویں اور دھینہ دستگیر 63ویں مقام پر ہیں۔

بہار پبلک سروس کمیشن ریزلٹ بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔نتائج کے اعداد وشمار دل کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو 2016ا ور2017 میں سب سے زیادہ 50اور52 مسلم امیدواروں نے کامیابی کا پرچم لہرایا تھا۔سنہ 2015 میں کل 1078 میں 34، 2014میں کل 1236 میں 38، 2013میں کل 1122 میں 34، 2012میں کل 998 میں 30، 2011 میں کل 920 امیدواروں میں21، اور 2010 میں کل 875 میں 21 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جب کہ 2009 میں کل 791 امیدواروں میں 31 مسلم امیدوار سرخ رو ہوئے تھے۔

گزشتہ برسوں کے مقابلے میں حالیہ نتائج مایوس کن ضرور ہیں، لیکن میں پھر بھی مایوس نہیں ہوں اور مجھے یقین کامل ہے کہ یہی حالات مزید بہتری اور جد و جہد کا راستہ بھی کھولیں گے۔ملک کے سب سے بڑے اور باوقار امتحان پاس کرنے کا خواب کون نہیں دیکھتا؟ سبھوں کو دیکھنا چاہیے۔ دیگر امیدواروں کی طرح مسلم بچوں کے بھی خواب وخواہشات مشترک ہیں، وہ کامیاب ہونا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں، پیسہ کمانا اور شہرت وعزت کی اونچی اڑان چاہتے ہیں، لیکن صرف خواب دیکھنا ہی کافی نہیں ہے۔

خواب کی تعبیر کے لئے جو جتن کئے جاتے ہیں اور صبر آزما مراحل سے گزرا جاتا ہے، اس کی طرف بھی قدم بڑھانا ہوگا۔ جہاں تک مسلم طلبہ کی کامیابی کا تعلق ہے، کامیابی کے فیصد میں اضافہ نہیں ہوا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم طلبہ بڑی تعداد میں ناکام ہوجاتے ہیں، بلکہ اس صبر آزما امتحان میں ان کی شرکت ہی کم ہوتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جس پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ ہر بار جب ریزلٹ آتا ہے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں مسلم آبادی کا جو تناسب ہے، اس اعتبار سے ریزلٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔

جسٹس سچر نے صاف طور پر کہا ہے کہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بے حد کم ہے مگر یہ اس لئے نہیں ہے کہ مقابلہ جاتی امتحانوں میں ان کے ساتھ کوئی امتیاز برتا جاتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ کم تعداد میں شریکِ امتحان ہوتے ہیں۔اس لئے جو لوگ نتائج میں تعصب برتنے کی بات کرتے ہیں، وہ سچائی سے پرے ہیں۔یونین پبلک سروس کمیشن، ریاستی پبلک سروس کمیشن اور دیگر اعلی مقابلہ جاتی امتحانات میں شفافیت؛ پہلی ترجیح ہوتی ہے، جدید تکنیک اور وسائل نے تو اس میں مزید نکھار لا دیا ہے۔

یہاں لیا قت اور صلاحیت ہی انتخاب کی کسوٹی ہوتی ہے۔ حتمی فہرست جاری ہو نے تک مذہب، خطے، زبان،ذات پات اور امیدواروں کا سماجی پس منظر نامعلوم رہتا ہے۔ یہاں تک کہ انٹرویو پینل کو تحریری امتحان میں امیدواروں کے حاصل کردہ نمبروں کا بھی علم نہیں ہوتا، انتخاب کا پورا عمل امیدوار کے پروفائل سے الگ تھلگ ہوتا ہے۔یوپی ایس سی ٹاپر کشمیر کے شاہ فیصل اپنے ذاتی تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو انتخابی عمل کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ ایک ادارے کے طور پر یو پی ایس سی؛ غیر جانبداری، انصاف اور معیار کی کسوٹی سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔

گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اعلی ملازمتوں میں مسلم نوجوانوں کی کم نمائندگی مقابلہ جاتی امتحانات میں نہ بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔ وہ اگر امتحان دینے کے لئے تیار بھی ہو تے ہیں تو کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی، لمبی ریس میں دوڑ نہیں پاتے، چند مرحلوں میں تھک کر بیٹھ جاتے ہیں، ان کی تیاری بھی آدھی ادھوری ہوتی ہے۔سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمان تعلیمی، معاشی اور سماجی طور پر ملک کے کسی بھی سماجی یا مذہبی فرقہ سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کلنک کومٹانے کے لئے صرف معمولی توجہ کافی نہیں، دیوانگی اور خود کو فنا کرکے ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جب کوئی عزم کے کوہ ہمالہ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو کامیابی قدم ضرور چومتی ہے۔

جہد مسلسل اور عزم واستقلال سے ہی امت کا نصیب بدلا جاسکتا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے، جس نے بھی خود کو ثابت کیا، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔آپ دیکھیں گے کہ مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی درج کرنے والے بچوں نے جب جہد مسلسل کی راہ اپنا ئی تو وہ دریا پار کر گئے۔ یہ محنت طلب ضرور ہے مگر یکسوئی اور مستقل مزاجی سے کامیابی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ وہ کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی جو آسانی سے مل جائے۔

مسلم نوجوانوں کو مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک کرانے کے لئے چند بنیادی کام کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلا کام ذہن سازی اور عوامی بیداری کا ہے۔ اصحاب ثروت اپنے ذہین بچوں کومقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرانے کے بجائے شارٹ کٹ پر لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیشنل کورسیز میں ڈال دیتے ہیں۔ان کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یوپی ایس سی اور ریاستی پبلک سروس کمیشنوں کے امتحانات میں کامیاب ہو نے والے ملک کا دماغ ہو تے ہیں، وہی پالیسی طے کرتے ہیں اور ملک کی قسمت کا فیصلہ کر تے ہیں۔ایک ایسے وقت جب مسلمان مین اسٹریم سے دور ہو تے جار ہے ہیں، ملک اور حکومت کا دماغ بن کر ہی وہ موثر ہو سکتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لئے یہ محاذ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔

نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔