ممبئی حملہ اور پاکستان کی دہشت گردی کی تاریخ

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 28-11-2025
ممبئی حملہ اور پاکستان کی دہشت گردی کی تاریخ
ممبئی حملہ اور پاکستان کی دہشت گردی کی تاریخ

 



نئی دہلی : آواز دی وائس 

دہشت گردی کی بد ترین مثال بنے 26/11 ممبئی حملے کو دنیا کبھی نہیں بھلا پائے گی ، دہشت گردانہ حملے کی برسی کے موقع پر نیٹ اسٹریٹ نے 1947 سے 2025 تک ہندوستان کے خود مختار علاقے میں پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تاریخ کو دستاویز ی شکل دی ہے ۔قارئین کی دلچسپی کے لیے  اس رپورٹ کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں ۔اس رپورٹ کو  ڈاکٹر سواتی ارون نے ایڈیٹ کیا ہے جسے  ٹیم نیٹ اسٹریٹ نے تیار کیا ہے۔یہ رپورٹ 1947 سے 2025 تک ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اور دہشت گردی کے واقعات کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔ اس عرصے میں تعلقات اکثر کشیدگی اور عدم اعتماد کی کیفیت میں رہے۔ پاکستان نے اپنی ریاستی پالیسی کے تحت ہندوستان کے خلاف دہشت گردی کو اپنایا اور آئی ایس آئی اور فوج کی سرپرستی میں مختلف حملے کرائے۔

رپورٹ کے مطابق 1947 میں قبائلی لشکروں کے ذریعے جموں و کشمیر پر حملہ پاکستان کی فوجی مداخلت تھا۔ اس نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ہندستان سے الحاق پر مجبور کیا اور پہلی کشمیر جنگ چھڑی۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان نے شمال مشرقی ہندوستان میں باغی گروہوں کی حمایت کی تاکہ ملک کے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے ذریعے پاکستان نے کشمیر میں دراندازی اور بغاوت کی کوشش کی مگر ہندستان نے اسے ناکام بنایا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان میں آپریشن چنگیز خان کے تحت فوجی حملہ ہوا جس نے 1971 کی جنگ کو جنم دیا اور آخرکار بنگلہ دیش آزاد ہوا۔

1970 اور 1980 کی دہائی میں پاکستان نے غیر روایتی جنگ کی حکمت عملی اپنائی، جس میں ہوائی جہاز ہائی جیکنگ، خالصتانی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت اور ہندوستان میں پراکسی دہشت گردانہ کارروائیاں شامل تھیں۔ پاکستان کی آئی ایس آئی نے دہشت گرد گروہوں جیسے جیش محمد، لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کی تربیت اور مالی مدد کی۔ یہ گروہ کشمیر میں بغاوت، ریاستی ڈھانچے کو نقصان اور عام شہریوں و سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے میں ملوث رہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی یہ سرگرمیاں عالمی سطح پر بھی زیر نگرانی آئیں اور اسے دہشت گردی کی مالی معاونت کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھا گیا۔ ہندوستان نے ان حملوں کا ردعمل فوجی، سفارتی اور قانونی اقدامات کے ذریعے دیا، جس میں ہدفی فوجی کارروائیاں، مذاکرات اور سماجی اصلاحات شامل تھیں۔خلاصہ یہ کہ 1947 سے 2025 تک پاکستان کی ریاستی پالیسی اور دہشت گردانہ کارروائیوں نے ہندوستان کے لیے مسلسل داخلی اور سرحدی خطرات پیدا کیے۔ ہندستان نے ہر مرحلے پر اپنی قومی سلامتی کو تحفظ دینے اور دہشت گردانہ عناصر کو ناکارہ بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ یہ سلسلہ انسانی جانوں کے ضیاع اور خطے میں عدم استحکام کی یاد دہانی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلقات کی بنیاد کبھی اعتماد پر نہیں رہی

سال 1947 سے آج تک ہندستان اور پاکستان کے تعلقات کی کہانی ٹکراؤ اور بے اعتمادی سے بھری ہوئی ہے۔ کبھی کبھار معمول کے تعلقات بحال ہوئے لیکن یہ تسلسل کبھی مضبوط نہیں رہا۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ پاکستان یا اس کے زیر انتظام علاقوں سے آنے والے دہشت گرد حملوں نے بار بار ہندستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔ یہ حملے آئی ایس آئی اور فوج کی سرپرستی میں ہوتے رہے جبکہ اکثر اوقات پاکستان کی سول قیادت کو مکمل معلومات نہیں دی جاتیں۔یہ داستان اس وقت شروع ہوتی ہے جب 22 اکتوبر 1947 کو قبائلی حملہ آوروں نے سابق ریاست جموں و کشمیر پر چڑھائی کی تاکہ الحاق کے فیصلے کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکیں۔ پاکستان آرمی کے سابق میجر جنرل اکبر خان کی ایک نایاب کتاب میں اس منصوبے کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور دراصل پاکستانی فوج کے باقاعدہ اہلکار تھے۔

اس کے بعد سے پاکستان نے ہندستان کے خلاف ریاستی پالیسی کے طور پر دہشت گردی کو اپنایا۔ وقت کے ساتھ یہ پالیسی بدل کر مختلف شکلوں میں سامنے آئی جن میں منشیات کے ذریعے دہشت گردی۔ اطلاعاتی جنگ۔ سائبر حملے اور ہندستان کے اندر سماجی بے چینی کو ہوا دینا شامل ہیں۔ یہ دستاویز مکمل فہرست نہیں بلکہ اہم واقعات کا مجموعہ ہے۔ 1947 کے بعد کے دور کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ کئی دہائیوں پر محیط ایک جیسے رویے کو سمجھا جا سکے۔ پاکستان ہمیشہ اپنے کردار سے انکار کرتا آیا ہے اور اکثر تحقیقات میں تعاون کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ اس کے باوجود متعدد پاکستان سے چلنے والی تنظیمیں اور افراد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت دہشت گرد قرار دیے گئے۔ اس ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے باعث ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی رکھا گیا۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد مختلف خطوں میں بھی حملوں میں ملوث رہے جن میں امریکہ۔ یورپ اور مغربی ایشیا شامل ہیں۔ہندستان کا رد عمل مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ کبھی یہ مسئلہ دو طرفہ سطح پر اٹھایا گیا۔ کبھی اسے اقوام متحدہ میں لے جایا گیا۔ کبھی طاقت کے استعمال کی دھمکی دی گئی۔ اور حالیہ برسوں میں ہندستان نے پاکستان میں موجود دہشت گرد ڈھانچوں اور کیمپوں کے خلاف ہدفی فوجی کارروائیاں بھی کیں۔گزشتہ تقریباً آٹھ دہائیوں کی یہ کہانی ایک بڑے انسانی سانحے کی یاد دلاتی ہے جس میں بے شمار بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔

فیز اوّل 1947 تا 1971
انڈین فوج کا سری نگر پہنچنا 1947

1947 سے 1971 تک پاکستان کی کشمیر پالیسی کی بنیاد اس خیال پر رکھی گئی کہ مسلم اکثریتی آبادی اور جغرافیائی قربت کے اعتبار سے کشمیر کو دو قومی نظریے کے مطابق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان نے 1947 میں فوجی کارروائی شروع کی اور اپنی فوجی یونٹوں کو قبائلیوں اور نام نہاد رضاکاروں کے روپ میں کشمیر میں داخل کیا۔ اس حملے نے مہاراجہ ہری سنگھ کو مجبور کر دیا کہ وہ فوراً ہندستان سے فوجی مدد طلب کریں اور ریاست کے الحاق کے دستاویز پر دستخط کریں۔ اس کے بعد یہ تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلی جنگ میں بدل گیا۔ ہندستان نے پاکستان کے حملے کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان جنگ بندی کرے۔ اپنی فوجیں اور قبائلی لشکر واپس بلائے اور چونکہ کشمیر قانونی طور پر ہندستان کے ساتھ مل گیا تھا اس لئے اس کی خود مختاری کا احترام کرے۔ سلامتی کونسل نے قراردادیں منظور کیں جن میں پاکستان کو قبضہ چھوڑنے کا کہا گیا تاکہ بعد میں استصواب رائے ہوسکے۔ پاکستان نے کبھی ان شرائط کو پورا نہیں کیا اس لئے استصواب رائے ممکن نہ ہو سکا۔ 1949 کی جنگ بندی نے کشمیر کو تقسیم کر دیا اور جنگ بندی لائن قائم ہوئی جسے 1972 کے شملہ معاہدے کے بعد لائن آف کنٹرول کہا جانے لگا۔

اس دور میں پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر سفارتی کوششوں اور فوجی کارروائی دونوں راستوں کو آزمایا۔ سفارتی طور پر وہ ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھاتا رہا اور ثالثی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرتا رہا۔ فوجی طور پر 1947۔48 کی جنگ کے بعد پاکستان نے 1965 میں آپریشن جبرالٹر شروع کیا جس کا مقصد کشمیر میں خفیہ دراندازی کے ذریعے مسلح بغاوت کو ہوا دینا تھا۔ اس قدم نے 1965 کی جنگ کو جنم دیا جس میں ہندستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ داخلی طور پر پاکستان کی فوج نے کشمیر کے مسئلے کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا۔

1۔ 1947۔48 پونچھ بغاوت اور قبائلی حملہ
تاریخ اور مقام 22 اکتوبر 1947 پونچھ خطہ جموں و کشمیر ہندستان

پس منظر
پونچھ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا جہاں مسلم آبادی زیادہ تھی۔ یہاں کے کئی لوگ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی ہند فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ جنگ کے بعد مہاراجہ کی پالیسیوں سے ناراضی پیدا ہوئی جسے پاکستان نے استعمال کیا اور خفیہ طور پر باغیوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ ابتدا میں یہ احتجاج تھا جو جلد ایک مسلح بغاوت میں بدل گیا جس کا مقصد پاکستان میں شمولیت اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ تھا۔ ریاست کے مغربی علاقوں میں ڈوگرہ حکام کو قتل یا بے دخل کیا گیا اور پاکستان کے سرحدی قبائلی لشکر بغاوت کی مدد کے لئے پہنچ گئے۔

مقصد

بغاوت کو بھڑکانا اور مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو ڈوگرہ حکومت سے آزاد کرانے کے نام پر کارروائی آگے بڑھانا تھا۔

پاکستان کا کردار
مہاراجہ کے ممکنہ الحاق سے خوفزدہ ہو کر پاکستان نے قبائلی یلغار منظم کی تاکہ کشمیر کے کئی حصوں پر قبضہ کرکے زمینی صورت حال بدلی جائے اور مہاراجہ کو دباو میں لاکر پاکستان کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا جائے۔ پاکستان نے بغاوت کو ایک مقامی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ قبائلی لشکروں اور اپنی فوج کے لوگ اس میں شریک تھے جنہیں غیر علانیہ بھیجا گیا تاکہ کھلی جنگ کا تاثر نہ جائے۔

حملے کی تفصیل
22
اکتوبر 1947 پاکستانی فوج کی سرپرستی میں آپریشن گل مرگ شروع ہوا اور 5000 سے 7000 تک پشتون قبائلی مسلح گروہ مظفرآباد کی سمت سے کشمیر میں داخل ہوئے۔23 تا 24 اکتوبر مظفرآباد اور اوڑی قبائلی گروہوں کے قبضے میں چلے گئے۔ غیر مسلم شہریوں کے قتل عام۔ لوٹ مار اور ظلم کی خبریں سامنے آئیں۔ مقصد سری نگر تک پہنچنا تھا۔25 اکتوبر بارہمولہ پر قبضہ ہوا لیکن لوٹ مار اور خونریزی میں الجھ جانے کے باعث قبائلیوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یہی تاخیر فیصلہ کن ثابت ہوئی۔26 اکتوبر صورت حال بگڑنے پر مہاراجہ نے ہندستان کے ساتھ الحاق پر دستخط کئے۔27 اکتوبر ہندستانی فوج سری نگر میں اتاری گئی اور بارہمولہ۔ اوڑی اور دیگر محاذوں پر لڑائیاں ہوئیں۔

پاکستانی میجر جنرل اکبر خان نے اپنی کتاب ریڈرز ان کشمیر میں لکھا کہ یہ کارروائی پہلے سے منصوبہ بند تھی اور محض قبائلی بغاوت نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سیاسی شخصیات اور حکومتی عہدے دار بھی اس منصوبے میں شامل تھے۔ اکبر خان کے مطابق مقصد تھا کہ ہندستانی فوج کو مغربی سرحد سے دور رکھا جائے اور کشمیر کے اہم پانی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔

بین الاقوامی ذرائع میں بھی اس حقیقت کا ذکر موجود ہے۔ 1953 کے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ قبائلی حملہ پاکستان کی مدد سے ہوا۔ صحافیوں نے اس زمانے میں لکھا کہ سابق آئی این اے افسران بھی قبائلی فورسز کے ساتھ کشمیر میں داخل ہوئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں مقامی لوگوں اور قبائلیوں کے بیانات شامل ہیں جن میں بتایا گیا کہ پاکستان کے بھیجے ہوئے مسلح لشکر ٹرکوں اور پیدل کشمیر پہنچے اور کمزور ریاستی ڈھانچے کو روندتے ہوئے آگے بڑھے۔

نقصانات اور جانی تلافیاں
1947
۔48 کی ہندستان پاکستان جنگ جسے پہلی کشمیر جنگ بھی کہا جاتا ہے دونوں طرف بھاری نقصانات چھوڑ گئی۔ ہندستان کے تقریباً 1103 سے 1500 فوجی شہید ہوئے اور جموں و کشمیر اسٹیٹ فورس کے تقریباً 1990 اہلکار شہید یا لاپتہ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے تقریباً 1000 باقاعدہ فوجی اور 5000 قبائلی مسلح گروہ اور کشمیری باغی مارے گئے اور تقریباً 14000 زخمی ہوئے۔ یوں پاکستان کو مجموعی طور پر 20000 کے قریب جانی نقصانات اٹھانے پڑے۔

ہندستان کا رد عمل
ہندستان نے الحاق کے قانونی اقدام۔ فوری فوجی تعیناتی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے صورت حال کا جواب دیا۔ آخرکار جنگ بندی ہوئی اور یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ پاکستان نے کشمیر کو ہندستان سے علیحدہ کرنے کے لئے بغاوت کے پردے میں فوجی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

2۔ 1960 کی دہائی کے بعد ہندستان کے شمال مشرق میں بغاوت کی حمایت
تاریخ اور مقام 1960 کی دہائی میزورم۔ منی پور۔ ناگالینڈ۔ آسام ہندستان

پس منظر
پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نے ہندستان کو اندر سے غیر مستحکم کرنے کے لئے غیر روایتی جنگ کا راستہ اپنایا۔ اس حکمت عملی کے تحت وہ میزورم کی ایم این ایف اور ناگا گروہوں کو تربیت۔ اسلحہ اور پناہ گاہیں فراہم کرتے رہے۔ اس مقصد کے لئے مشرقی پاکستان کے چٹاگانگ ہل ٹریکٹس اور سلہٹ میں کیمپ قائم کئے گئے جہاں سے خفیہ کارروائیاں بڑھائی گئیں۔ پاکستان کی ایجنسیاں مختلف قبائلی علیحدگی پسند گروہوں کو ایک مشترکہ مخالف ہندستان ایجنڈے کے تحت متحد کرنے کی کوشش میں لگ گئیں۔ سرحد کے آر پار محفوظ راستے اور چھپنے کی جگہیں دے کر بغاوت کو مسلسل سہارا فراہم کیا گیا۔

مقصد
پاکستان کا مقصد ہندستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا۔ اس کی فوجی توجہ کو بانٹ دینا اور قومی یکجہتی کو متاثر کرنا تھا۔ اسے مشرقی پاکستان میں ہندستان کی مبینہ حمایت کا بدلہ سمجھا گیا۔

طریقہ کار
باغی ہندستانی حکام کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف رہے۔ گھات لگا کر حملے کئے گئے۔ سرکاری چوکیوں پر بیک وقت حملے کئے گئے تاکہ سیکیورٹی فورسز دباؤ میں آ جائیں۔ اسلحہ پولیس کے ذخائر سے لوٹا گیا یا مشرقی پاکستان سے لایا گیا۔ ناگا پہاڑیوں کے گھنے جنگلات کو چھاپہ مار کارروائیوں اور واپس لوٹنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ بعض مقامات پر سرکاری اہلکاروں اور اپنے مخالفین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

1964 میں جنگ بندی
ایک جنگ بندی کے بعد مذاکرات ہوئے لیکن این این سی کے سخت گیر گروہ بغاوت جاری رکھتے رہے۔

1 مارچ 1966
ایم این ایف نے ہندستان کے خلاف مکمل بغاوت کا آغاز کیا جسے میزؤ بغاوت کہا جاتا ہے۔

4 تا 8 مارچ 1966
باغیوں نے ایزور پر حملہ کیا۔ صورت حال سنگین ہونے پر انڈین ایئر فورس نے ایزور پر فضائی کارروائی کی جو آزادی کے بعد پہلی اندرونی فضائی کارروائی تھی۔ اس کارروائی کے بعد ایم این ایف کے جنگجو مشرقی پاکستان بھاگ گئے جہاں آئی ایس آئی نے انہیں پناہ۔ اسلحہ۔ تربیت اور دیگر مدد فراہم کی۔

5 مئی 1966
آپریشن جیرکو کے دوران ایم این ایف نے مربوط حملہ کیا جس سے بھاری نقصانات ہوئے اور اسلحہ بھی قبضے میں لیا گیا۔

1966 کے بعد
ایم این ایف نے چھاپہ مار کارروائیوں۔ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور عام لوگوں سے رقم وصولی کی کارروائیاں جاری رکھیں۔

پاکستان کا کردار
پاکستان کا بنیادی مقصد ہندستان کے مشرقی حصے کو مسلسل عدم استحکام میں رکھنا تھا۔ اس کا مقصد ناگا یا میزؤ عوام کی حمایت نہیں بلکہ ہندستان پر دباؤ بڑھانا تھا۔ مشرقی پاکستان کی ایجنسیاں باغیوں کو تربیت دینے۔ رابطے قائم کرنے اور سرحد پار آنے جانے میں بھرپور مدد دیتی رہیں۔ ایم این ایف کے کئی رہنما ڈھاکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے رہے۔

نقصانات اور تلافیاں
ہندستانی وزارت داخلہ اور جنوبی ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 1960 کی دہائی سے شروع ہونے والی بغاوتوں نے ہزاروں جانیں لی ہیں۔ سیکیورٹی اہلکاروں۔ عام شہریوں اور مسلح باغیوں کے نقصانات ہر سال حالات کے مطابق بدلتے رہے۔

ہندستان کا جواب
ہندستان نے شمال مشرقی ریاستوں میں جاری ان بغاوتوں کو ختم کرنے کے لئے فوجی کارروائی۔ سیاسی مذاکرات اور سماجی و معاشی اقدامات کا راستہ اپنایا۔ ابتدا میں اے ایف ایس پی اے نافذ کیا گیا اور فوج کو وسیع اختیارات دیے گئے۔ وقت کے ساتھ حکمت عملی بدلی اور امن معاہدے۔ سرینڈر کرنے والے جنگجوؤں کی بحالی اور بنیادی مسائل کے حل کی کوششیں شروع ہوئیں۔ کئی علاقوں میں عسکری سرگرمیاں کم ہو گئیں اور حکومتی نظام بہتر ہوا۔ اس تمام عمل نے خطے میں دیرپا امن اور استحکام کی راہ ہموار کی۔

1965 آپریشن جبرالٹر
تاریخ اور مقام اگست 1965 جموں و کشمیر ہندستان

مقصد
پاکستان کا مقصد کشمیر میں حالات بدلنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کشمیر کی مسلم آبادی ہندستانی انتظام سے ناخوش ہے اور اگر باہر سے مدد ملے تو وہ بغاوت کر دے گی۔ 1964 میں جواہر لعل نہرو کی وفات کے بعد پاکستان کو یہ بھی لگا کہ ہندستان میں قیادت کا خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ ایوب خان کی حکومت پر اندرونی دباؤ تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کیا جائے کیونکہ اسے پاکستان کی سیاست اور قومی تشخص کا بنیادی مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کے مغربی طاقتوں اور چین سے تعلقات نے بھی اسے یہ تاثر دیا کہ وہ ہندستان کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

حملے کی تفصیل
پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کے تحت اپنے فوجی اہلکاروں کو عام شہریوں کے بھیس میں کشمیر بھیجا تاکہ وہاں بغاوت کرائی جا سکے۔ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور دونوں ملک 1965 کی جنگ میں داخل ہو گئے۔

ابتدائی 1965 پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی کی تاکہ کشمیر میں دراندازی کر کے بغاوت بھڑکائی جائے۔
1
تا 5 اگست 1965 پاکستان کے ہزاروں فوجی عام شہریوں کے لباس میں جموں و کشمیر کے علاقے کپواڑہ۔ سوپور۔ ہندوارہ۔ بارہ مولا اور راجوری پونچھ سیکٹر میں داخل ہوئے۔
6
اگست 1965 ہندستانی فوج نے دراندازی پکڑ لی اور مقامی حمایت نہ مل سکی۔
6
تا 14 اگست 1965 جھڑپیں بڑھ گئیں اور ہندستان نے جوابی کارروائیاں شروع کیں۔
1
ستمبر 1965 پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلیم کے نام سے باقاعدہ حملہ کیا اور چھم جوڑیاں سیکٹر میں کارروائی کی۔
6
ستمبر 1965 ہندستان نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے لاہور کے قریب بڑا حملہ شروع کیا اور مکمل جنگ چھڑ گئی۔

طریقہ کار
پاکستان نےspecially trained فوجیوں کو شہریوں کے بھیس میں کشمیر بھیجا۔ ان کی تعداد مختلف اندازوں کے مطابق 30000 سے 40000 کے درمیان تھی۔ ان میں باقاعدہ فوجی اور کمانڈو شامل تھے۔
پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں مجاہدین طرز کے جنگجوؤں کی بھرتی اور تربیت کی گئی۔
دراندازی کے لئے پہاڑی اور جنگلاتی راستے چنے گئے تاکہ ہندستانی نگرانی سے بچا جا سکے۔
دراندازوں کو صلاح الدین فورس اور غزنوی فورس جیسے نام دیے گئے تاکہ کارروائی کو مذہبی رنگ دیا جا سکے۔
منصوبہ یہ تھا کہ وہ ہندستانی رسد کو نقصان پہنچائیں۔ مواصلاتی لائنیں کاٹیں۔ انفراسٹرکچر تباہ کریں اور کشمیری مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کریں۔

پاکستان کا کردار
آئی ایس آئی جسے 1948 کی جنگ کے بعد بنایا گیا تھا کشمیر میں خفیہ فعالیت بڑھا چکی تھی۔ وہ آزاد کشمیر کے ریجمینٹس اور مقامی ہمدردوں کے ساتھ کام کر رہی تھی۔صدر ایوب خان۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل اختر ملک کو یقین دلایا گیا کہ کشمیری عوام بغاوت کریں گے۔یہ معلومات حد سے زیادہ پر امید تھیں اور زمینی حقیقت کا غلط اندازہ پیش کرتی تھیں۔پاکستانی قیادت سمجھتی تھی کہ یہ کارروائی محدود رہے گی اور ہندستان بڑا جواب نہیں دے گا۔یہ خیال بھی تھا کہ چین پاکستان کی مدد کے لئے ایک دوسرا محاذ کھول سکتا ہے۔اس منصوبے کی قیادت جنرل اختر حسین ملک کے ہاتھ میں تھی۔ ان کے ماتحت تقریباً 7000 سے 20000 اہلکاروں کو گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی۔پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل موسیٰ نے اس آپریشن پر تحفظات ظاہر کئے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ یہ منصوبہ مناسب تیاری کے بغیر شروع کیا گیا لیکن اس کے باوجود اسے نافذ کر دیا گیا۔

نتیجہ
آپریشن جبرالٹر اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا۔ نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی اور نہ ہی دراندازوں کو مقامی تعاون ملا۔ ہندستانی فوج نے سخت جواب دیا اور انجام کار یہ منصوبہ 1965 کی جنگ میں بدل گیا۔

ہندوستان کا جواب یہ تھا کہ 6 ستمبر 1965 کو ہندوستانی افواج نے بین الاقوامی سرحد عبور کی اور پنجاب کے محاذ پر پیش قدمی کی۔ یہ اس لئے کیا گیا تاکہ کشمیر میں پاکستانی دباؤ کم ہو سکے۔ جنگ میں اسال اتّر جیسی بڑی ٹینک لڑائیاں ہوئیں۔ جنگ 17 دن چلتی رہی اور ہندوستانی فوج پاکستان کے اندر گہرائی تک پہنچ گئی۔ ہندوستانی فوج لاہور کے قریب تک جا پہنچی تھی اور اسے قبضہ کرنے کی پوزیشن میں تھی لیکن عالمی دباؤ پر کارروائی روک دی گئی۔ 22 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی جس کے بعد جنوری 1966 میں تاشقند معاہدہ طے پایا۔

4۔ 1971 آپریشن چنگیز خان

تاریخ اور مقام 3 دسمبر 1971 مشرقی اور مغربی پاکستان۔

پس منظر یہ تھا کہ 3 دسمبر 1971 کو پاکستان نے آپریشن چنگیز خان کے نام سے اچانک فضائی حملہ شروع کیا۔ یہی حملہ 1971 کی ہندوستان۔پاکستان جنگ کی باضابطہ شروعات بنا۔1947 سے 1970 تک پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ مغربی پاکستان جو آج کا پاکستان ہے اور مشرقی پاکستان جو آج کا بنگلہ دیش ہے۔ آبادی زیادہ مشرقی پاکستان میں تھی لیکن ساری سیاسی اور عسکری طاقت مغربی پاکستان کے پاس رہی۔ اختلافات 1952 کی لسانی تحریک سے بڑھنے لگے۔7 دسمبر 1970 کو پہلی عام انتخابات ہوئے۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ شیخ مجیب الرحمان کی جماعت نے 162 میں سے 160 نشستیں جیت لیں۔ لیکن مغربی پاکستان کی قیادت خصوصاً یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج پھوٹ پڑا۔25 مارچ 1971 کو آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے ایک سفاک فوجی کارروائی شروع ہوئی جس میں بنگالی طلبہ دانشوروں اور عام شہریوں پر ظلم کیا گیا۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندازاً 10 ملین افراد سرحد پار کر کے ہندوستان پہنچے جس سے شدید معاشی اور انتظامی بحران کھڑا ہوا۔اپریل سے نومبر 1971 کے دوران ہندوستان نے مکتی باہنی کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا۔ یہ فورس پاکستانی فوج کے خلاف مزاحمت میں سرگرم تھی۔21 نومبر 1971 کو ہندوستان نے بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی قیادت سمجھتی تھی کہ جنگ ناگزیر ہے اور ہندوستان مشرقی پاکستان میں بڑی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان چاہتا تھا کہ پہلے حملہ کر کے عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ اور چین کو مداخلت پر مجبور کر دے تاکہ ہندوستان فیصلہ کن کامیابی نہ حاصل کر سکے۔

3 دسمبر 1971 کی شام تقریباً 17:45 بجے پاکستان نے ہندوستان کے گیارہ ہوائی اڈوں پر اچانک حملہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی فضائیہ کو کمزور کیا جائے اور رن وے تباہ کر دیئے جائیں تاکہ جہاز اڑان نہ بھر سکیں۔ پاکستانی طیارے نہایت نچلی پرواز میں حملہ کر رہے تھے تاکہ ریڈار کی نظروں سے بچ سکیں۔ لیکن یہ حملے محدود نوعیت کے تھے۔ ان میں ربط اور طویل منصوبہ بندی کی کمی تھی اسی لئے زیادہ مؤثر نہ ہو سکے۔جانی و مالی نقصان بہت زیادہ تھا۔ ہندوستان کے تقریباً 2 ہزار سے 3 ہزار فوجی شہید ہوئے اور 9 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ پاکستان کا نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا۔ اندازاً 6 ہزار سے 9 ہزار فوجی مارے گئے۔ 10 ہزار سے 25 ہزار زخمی ہوئے۔ 93 ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فوجی ہتھیار ڈالی تھی۔ سب سے زیادہ تباہی مشرقی پاکستان کے عوام پر آئی۔ اندازاً 3 ملین تک شہری مارے گئے۔ لاکھوں خواتین ظلم کا نشانہ بنیں اور 10 ملین افراد نے ہجرت کی۔16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ ریس کورس میں لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے ہندوستانی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے اور جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اسی کے ساتھ ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش معرض وجود میں آئی اور برصغیر کا جغرافیہ ہمیشہ کیلئے بدل گیا۔ہندوستان کا جواب نہایت حکمت عملی کے ساتھ تھا۔ بری بحری اور فضائی افواج نے مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر برق رفتاری سے کارروائی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی فوج چند ہی دنوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔

فیز دوم 1972 تا 1989

تعارف

ہندوستان کی روایتی فوجی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکنے پر پاکستان نے 1950 کی دہائی ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے غیر روایتی جنگی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں اس حکمت عملی کو مضبوط شکل دی گئی۔ اس کے دو بڑے طریقے تھے۔ ہوائی جہازوں کا ہائی جیک کرنا اور ہندوستان میں خالصتان تحریک کو ہوا دینا۔ اس کا اصل ہدف پنجاب اور جموں کشمیر جیسے حساس سرحدی علاقے تھے۔جنرل ضیا الحق نے کھلے الفاظ میں کہا کہ خالصتان تحریک ہندوستان کو کمزور کرنے اور اسے اندرونی خلفشار میں مبتلا رکھنے کا ایک موقع ہے۔ سابق آئی ایس آئی سربراہ حمید گل نے بھی کہا کہ اگر پنجاب میں بد امنی رہے تو پاکستان کی فوج کو ایک اضافی ڈویژن مفت مل جاتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان نے مسلسل پراکسی جنگ لڑی۔ ہائی جیکنگ کرائی۔ القفاح جیسے گروہ بنائے۔ برطانیہ میں ایک ہندوستانی سفارت کار کا قتل کرایا۔ خالصتانی دہشت گردوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک پوری مدد فراہم کی۔ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کو اندر سے کمزور کیا جائے اور اس کے داخلی مسائل کو عالمی سطح پر پیش کر کے اسے دباؤ میں رکھا جائے۔

ہائی جیکنگ اور دہشت گردانہ کارروائیاں

نیچے جموں و کشمیر میں ہونے والے بڑے دہشت گردانہ واقعات درج ہیں جنہیں پاکستان کی آئی ایس آئی کی سرپرستی حاصل تھی۔30 جنوری 1971 کو انڈین ایئر لائنز کے فوکر ایف 27 طیارے گنگا کو سرینگر سے لاہور ہائی جیک کیا گیا۔ دو کشمیری علیحدگی پسندوں نے طیارے کو قبضے میں لیا اور 2 فروری 1971 کو عملہ اور مسافروں کو چھوڑ کر جہاز کو جلا دیا۔پاکستان کا کردار واضح تھا۔ ایک ہائی جیکر ہاشم قریشی پشاور میں اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں گیا تھا۔ معلوم نہیں کہ اس کی ملاقات مکبول بٹ سے کیسے ہوئی جو نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی تھے۔ لیکن ہاشم جلد ہی اس تنظیم کے لئے کام کرنے پر تیار ہو گیا۔ ہندوستان لوٹنے سے پہلے اسے تنظیم کی نظریاتی تربیت دی گئی۔ اسے ہتھیار چلانے اور گوریلا طریقوں کی بنیادی تربیت بھی دی گئی۔

تاشقند معاہدے کے بعد کشمیر میں القفاح نامی تنظیم سرگرم ہوئی۔ 1969 تک یہ ایک منظم گروہ بن چکا تھا۔ اس کا مقصد جاسوسی کرنا۔ بم دھماکے کرنا۔ لوٹ مار کرنا اور تخریب کاری پھیلانا تھا۔ یہ مقدس مقامات کو نقصان پہنچانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا تھا تاکہ مذہبی منافرت بھڑکے۔ اس گروہ نے ریڈ کشمیر کے نام سے پمفلٹس بھی تقسیم کئے جن میں علیحدگی کی بات کی جاتی تھی۔القفاح کے سرکردہ لوگوں کو پاکستانی انٹیلی جنس کے افسران تربیت اور رہنمائی دیتے تھے۔ ان میں میجر حبیب اللہ۔ میجر قیصر قریشی۔ میجر طفیل۔ میجر اصغر اور ظفر اقبال راٹھڑ شامل تھے۔ یہ لوگ بارڈر عبور کر کے کشمیر آتے جاتے تھے اور پاکستان کے سفارتخانے سے رابطے میں رہتے تھے۔ القفاح نے سرکاری اداروں میں بھی رسائی حاصل کر لی تھی۔ ریاستی سیکریٹریٹ کا ایک ہیڈ اسسٹنٹ اس کا رکن تھا۔اسی دوران اسلحے کی ایک بڑی کھیپ پاکستان سے کشمیر میں بھیجی گئی تاکہ القفاح کے کارندوں کو مسلح کیا جا سکے۔ ان لوگوں نے کشمیر میں تین بڑی دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔

3 فروری 1984 کو برمنگھم میں تعینات ہندوستانی سفارتکار رویندرا مھاترے کو اغوا کر کے 5 فروری کو قتل کر دیا گیا۔ یہ کام کشمیر لبریشن آرمی نے کیا جو جے کے ایل ایف سے وابستہ تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مکبول بٹ کو تہاڑ جیل سے رہا کیا جائے۔ اس کے ساتھیوں کو رہا کیا جائے اور 1 ملین پاؤنڈ تاوان دیا جائے۔ 2023 کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ قاتل کا نام ملک مسرت تھا جو پوک کا رہنے والا تھا۔برطانیہ نے ملزمان کی حوالگی مانگی لیکن پاکستان نے بار بار انکار کیا یا یہ کہا کہ انہیں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ لیکن برطانوی پولیس نے ان کی ٹھیک ٹھیک لوکیشن دی تھی۔ اس کے باوجود پاکستان کے وزارت خارجہ کے افسران نے تعاون سے گریز کیا۔

24 اگست 1984 کو دہلی سے سرینگر جانے والی انڈین ایئر لائنز کی پرواز کو سات سکھ علیحدگی پسندوں نے ہائی جیک کیا۔ یہ سب آل انڈیا سکھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تھے۔ جہاز کو لاہور لے جایا گیا۔ ہائی جیکروں کے پاس جعلی ہتھیار تھے لیکن لاہور پہنچنے کے بعد آئی ایس آئی نے انہیں ایک اصلی پستول مہیا کی۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ جہاز بعد میں متحدہ عرب امارات لے جایا گیا اور ہائی جیکروں نے وہیں ہتھیار ڈال دیئے۔ہندوستان نے ہائی جیکنگ کے واقعات پر سخت ردعمل دکھایا۔ 1982 میں ایک قانون بنایا گیا۔ اینٹی ہائی جیکنگ ایکٹ۔ جس کا مقصد بین الاقوامی تعاون بڑھانا۔ مجرموں کی حوالگی ممکن بنانا اور ہائی جیکنگ کے خلاف مضبوط قانونی کارروائی کرنا تھا۔

آئی ایس آئی کی خالصتان تحریک کو مدد

1980 کی دہائی میں افغان جنگ نے آئی ایس آئی کی ساری توجہ اور توانائی لے لی تھی۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے مل کر کام کر رہے تھے۔ اس کے بدلے سی آئی اے نے ہندوستانی پنجاب میں آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کو نظر انداز کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی مشرقی سرحد محفوظ رہے تاکہ وہ پوری توجہ افغانستان پر دے سکے۔اسی دوران ضیا الحق اور آئی ایس آئی یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ کشمیر کو پاکستان کے کنٹرول میں لایا جائے۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان یہ مقصد حاصل نہ کر سکا تھا اور ریفرنڈم کا معاملہ اقوام متحدہ میں دب گیا تھا۔ پاکستان کے پاس یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کو کشمیر سے باہر دھکیل سکے۔ اسی لئے آئی ایس آئی نے پراکسی جنگ کا راستہ اختیار کیا۔

کشمیر کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی نے سکھ علیحدگی پسند تحریک کو بھی مضبوط کیا۔ 1970 کی دہائی میں پاکستان کے پاس روایتی ہتھیار کم تھے۔ اتحادی بھی کم تھے۔ نیوکلیئر طاقت بھی محدود تھی۔ اسی لئے اسے اندرونی بغاوتوں کو ہوا دینا فائدہ مند لگا۔ یہ جنگ کم خرچ اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پہلے خالصتان کے خیال کو سیاسی طور پر ہوا دی تھی اور ضیا کے دور میں پاکستان کی مداخلت کھل کر بڑھ گئی۔پاکستان کے مقاصد تھے۔ 1971 کی ہار کا بدلہ لینا۔ ہندوستان کی عالمی شبیہ خراب کرنا۔ اور ہندوستان کے امریکہ مخالف رویے کا جواب دینا۔

جیش محمد ایک دیوبندی جہادی تنظیم ہے جو پاکستان میں قائم کی گئی۔ اس کی بنیاد سن 2000 میں مسعود اظہر نے رکھی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جموں و کشمیر کو ہندوستان سے الگ کرکے پاکستان کے ساتھ ملا دیا جائے۔یہ تنظیم کئی بڑے حملوں میں شامل رہی ہے۔ ان حملوں کا مقصد خوف پھیلانا اور ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرنا تھا۔ اس کے کارکن مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ تنظیم نے اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے کے لئے نوجوانوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا۔جیش محمد کی سرگرمیوں نے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا۔ اس کے حملوں نے نہ صرف عام شہریوں بلکہ سکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں حالات مزید بگڑ گئے اور تشدد میں اضافہ ہوا۔یہ تنظیم آج بھی ایک بڑا خطرہ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کے نظریات اور طریقہ کار دونوں پرتشدد ہیں۔ اس نے سرحد کے دونوں طرف شدت پسندی کو ہوا دی ہے اور علاقائی امن کو متاثر کیا ہے۔

پارلیمنٹ پر حملہ اور 2019 کا پلوامہ حملہ دونوں جیش محمد کے کئے ہوئے تھے۔ یہ تنظیم پاکستان کی آئی ایس آئی سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا فکری رشتہ القاعدہ سے ہے۔ لشکر طیبہ جس کا مطلب پاکوں کی فوج ہے ایک پاکستانی جہادی تنظیم ہے جو سلفی نظریے پر قائم ہے۔ اس کا مقصد کشمیر کو پاکستان سے ملانا تھا۔ اس کی بنیاد 1985 تا 1986 میں حافظ سعید زافر اقبال شہباز اور عبداللہ عزام نے رکھی تھی اور اس کی مالی مدد اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ اس نے ہندوستان میں کئی بڑے حملے کئے جن میں 2000 کا لال قلعہ حملہ اور 2008 کا ممبئی حملہ شامل ہیں۔ یہ تنظیم بھی پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔مقاصد اور گروہوں میں تبدیلی اس طرح آئی کہ شروع میں جے کے ایل ایف آزاد کشمیر کا مطالبہ کرتی تھی۔ لیکن پاکستان نے اپنی حمایت حزب المجاہدین لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروہوں کی طرف منتقل کردی جو یا تو پاکستان سے الحاق چاہتے تھے یا ایک مذہبی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ غیر ملکی جنگجوؤں کے بڑھتے ہوئے کردار نے اس لڑائی کو مذہبی اور بین الاقوامی جہادی رخ دے دیا۔

ممبئی پولیس کی اینٹی ٹیرر اسکواڈ نے الزام لگایا کہ تیرہ میں سے چار افراد پاکستانی تھے اور وہ غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ اینٹی ٹیرر اسکواڈ نے یہ بھی کہا کہ تیرہ ملزموں میں شامل ہندوستانی افراد نے خود کو ایران جانے والے شیعہ زائرین کے طور پر ظاہر کیا تھا لیکن وہ تربیت کے لئے پاکستان گئے تھے۔ کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا اس دھماکے کی مرکزی سازش میں شامل تھی اور کچھ پاکستانی شہری بھی اس میں شریک تھے۔ چارج شیٹ کے مطابق محمد ماجد شفیع نے پاکستانی شہریوں کو بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحد کے راستے ہندوستان لانے اور دھماکوں کے بعد واپس لے جانے کا انتظام کیا تھا۔ لشکر طیبہ ان بم دھماکوں کی اصل منصوبہ ساز تھی اور اس نے ملزموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی تھی۔ ایس آئی ایم آئی نے پاکستان میں جہادی گروہوں سے رابطے قائم کئے اور آئی ایس آئی کے ہاتھ میں کھیلتی رہی۔ ممبئی کے پولیس چیف نے الزام لگایا کہ ان دھماکوں کے پیچھے آئی ایس آئی تھی۔ پاکستان نے فوری طور پر ان دعووں کی تردید کی اور ثبوت کا مطالبہ کیا تھا۔ ان حملوں میں دو سو سے زیادہ افراد جان سے گئے اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

ان حملوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلے سے کمزور امن عمل کو شدید طور پر متاثر کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں فریق دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور اس لعنت سے نمٹنے پر متفق ہیں۔ ستمبر 2006 میں کیوبا میں ہونے والے نان الائنڈ سربراہ اجلاس میں ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے مشترکہ انسداد دہشت گردی میکانزم پر اتفاق کیا تھا تاکہ دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کو بڑھایا جا سکے لیکن الزامات کے سلسلے اور پاکستان کی جانب سے مسلسل انکار نے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہندوستان نے اکثر پاکستان کے رویے کو اس میکانزم کے لئے ایک امتحان کے طور پر دیکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف سیاسی اور معاشی معاملات پر ہونے والی بات چیت یا تو معطل ہوگئی یا بہت کم سطح پر آگئی۔

سات جولائی 2008 کو کابل میں ہندوستانی سفارت خانے پر حملہ ہندوستان اور پاکستان کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی رقابت کا نتیجہ تھا۔ افغانستان کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے پاکستان اور طالبان نواز عناصر کو ناراض کیا تھا۔ اس حملے نے کابل میں ہونے والے دیگر بڑے دھماکوں کا سلسلہ مزید بڑھا دیا اور اس وقت ہوا جب طالبان مضبوط ہو رہے تھے اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو کے جانی نقصان عراق سے بڑھ چکے تھے۔ امریکی سی آئی اے نے بعد میں پاکستان کو وہ شواہد فراہم کئے جو ریکارڈ شدہ گفتگو سے حاصل ہوئے تھے اور جن سے ظاہر ہوا کہ آئی ایس آئی نے اس حملے میں مدد کی تھی۔ ہندوستان اور افغانستان کے اداروں کا ماننا تھا کہ پاکستانی فوج کی پشاور میں تعینات تین سو چوبیس ملٹری انٹیلی جنس بٹالین نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ افغانستان کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ خودکش بمباروں کی تربیت پاکستان میں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نرائنن نے کہا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ امریکی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستانی انٹیلی جنس نے حقانی نیٹ ورک کی مدد سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ حملہ صبح آٹھ بج کر تیس منٹ پر کیا گیا جب ایک خودکش بمبار نے گاڑی میں نصب بارودی مواد سفارت خانے کے مرکزی دروازے پر اڑا دیا۔ یہ کابل میں طالبان کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا حملہ تھا۔ اس حملے میں انسٹھ افراد جاں بحق ہوئے جن میں ہندوستانی ڈیفنس اتاشی ایک سینئر افسر دو دیگر حکام اور ایک مقامی ڈرائیور شامل تھے۔ ایک سو پچاس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں آئی ٹی بی پی کے پانچ اہلکار بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے فوراً بعد ہندوستان نے افغانستان میں اپنے تمام سفارتی مشنز کی سکیورٹی بڑھا دی۔

چھبیس نومبر 2008 کو ممبئی پر ہونے والا حملہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنگین واقعہ تھا۔ چند گھنٹے پہلے دونوں ملکوں کے اعلیٰ افسران نے اسلام آباد میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا تھا لیکن حملہ ہونے کے بعد پورا ماحول بدل گیا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مالیاتی مرکز کو نشانہ بنا کر اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا جائے۔ یہ حملے لشکر طیبہ نے پاکستان میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ کئے تھے اور دہشت گردوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہدایات دی جاتی رہیں۔ ابتدا میں پاکستان نے انکار کیا لیکن بعد میں قبول کیا کہ اجمل قصاب پاکستانی شہری تھا۔ 2009 میں پاکستان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ حملے کراچی اور ٹھٹھہ میں موجود کیمپوں سے منصوبہ بندی کے تحت کرائے گئے تھے۔ ممبئی پولیس کی تحقیقات نے سینتیس ملزموں کی نشاندہی کی جن میں زیادہ تر پاکستانی شہری تھے۔ ڈیوڈ ہیڈلی نے تمام مقامات کا سروے کیا تھا اور اس نے عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا۔ دس دہشت گردوں نے پاکستان میں لشکر طیبہ کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ نو مارے گئے اور ایک گرفتار ہوا تھا۔ ہیڈلی نے عدالت میں بتایا تھا کہ اس نے آئی ایس آئی کے افسران سے بھی ملاقات کی تھی۔ پاکستان نے کچھ افراد کو گرفتار کیا لیکن ہندوستان کے مطابق کارروائی ناکافی تھی اور کئی افراد ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔ اس حملے میں ایک سو چھھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

ہندوستان نے اس سانحے کے بعد انتہا پسند گروہوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی۔ ساحلی نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا گیا اور خفیہ معلومات کے اشتراک کو مضبوط کیا گیا۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے مرکز کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ضروری ہے اور ہمیں اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔

اس کے بعد 2010 سے 2025 تک پاکستان کی جانب سے مسلسل دہشت گردی نے ہندوستان کے لئے سب سے بڑا بیرونی خطرہ پیدا کیا۔ جرمن بیکری دھماکہ 2010 میں ہوا اور یہ ممبئی حملوں کے بعد پہلا بڑا واقعہ تھا۔ اس دھماکے کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی بات چیت کو متاثر کرنا تھا۔ بارہ فروری 2010 کو یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک بیگ میں رکھا گیا دھماکہ خیز مواد پھٹا۔ اس واقعے میں سترہ افراد مارے گئے تھے اور ساٹھ سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ اس حملے میں آئی ایم اور لشکر طیبہ کا ہاتھ تھا۔

یکم جنوری 2016 کو پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے کے پیچھے جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر کا ہاتھ تھا۔ چھ دہشت گردوں نے منشیات کی سمگلنگ کے راستے سے ہندوستان میں داخل ہو کر حملہ کیا۔ سات سکیورٹی اہلکار اور ایک شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ ہندوستان نے مضبوط فوجی کارروائی کی اور پاکستان سے سخت جواب طلب کیا۔

اٹھارہ ستمبر 2016 کو Uri میں ہندوستانی آرمی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوروں نے صبح سویرے کیمپ میں گھس کر فائرنگ شروع کردی۔ انیس فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے اس کے جواب میں کنٹرول لائن کے پار سرجیکل اسٹرائیکس کیں اور دہشت گرد لانچ پیڈ تباہ کئے۔انتیس نومبر 2016 کو نگروٹا میں حملہ ہوا جس میں تین دہشت گردوں نے آرمی کیمپ پر فائرنگ کی۔ تحقیقات میں ثابت ہوا کہ یہ حملہ جیش محمد نے کیا تھا۔ اس میں سات ہندوستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ ہندوستان نے پاکستان سے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کی حمایت بند کرے اور دہشت گرد ڈھانچہ ختم کرے۔

نارکو ٹیررزم سے مراد پاکستان کی جانب سے منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا وہ گٹھ جوڑ ہے جسے بنیادی طور پر آئی ایس آئی اور مختلف دہشت گرد گروہ چلاتے ہیں۔ سرحدوں پر سخت نگرانی اور دراندازی روکنے کے مضبوط اقدامات کے بعد پاکستان نے اپنی حکمت عملی بدل دی ہے۔ اب بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو سرحد پار بھیجنے کے بجائے تین طریقوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ڈرون کے ذریعے اسلحہ گولہ بارود اور منشیات پھینکی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ خاص طور پر پنجاب اور جموں میں استعمال ہوتا ہے۔ مقامی نوجوانوں کو آن لائن شدت پسندی کی طرف مائل کرکے انہیں اکیلے حملہ آوروں کے طور پر یا منشیات اور اسلحے کے کاروبار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں انہیں سرحد پار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سرحد کے دشوار گزار علاقوں اور سمندری راستوں سے بھی اسمگلنگ کے لئے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار رپورٹس ہیں کہ نشے کے عادی افراد یا ذہنی طور پر کمزور دکھائے جانے والے لوگ ہندوستان میں داخل کئے جاتے ہیں تاکہ قید دہشت گردوں کو پیغام پہنچایا جائے یا منشیات کا نیٹ ورک چلایا جائے۔

نارکو ٹیررزم کا بنیادی مرکز گولڈن کریسنٹ ہے۔ یہ خطہ دنیا میں افیون پیدا کرنے کا اہم مرکز ہے۔ ہندوستان اس کے قریب ہونے کی وجہ سے شدید خطرے میں رہتا ہے۔ ہیروئن اور دیگر منشیات پاکستان کے راستے زمینی اور سمندری راستوں سے ہندوستان لائی جاتی ہیں۔ آئی ایس آئی کو ان تمام کارروائیوں کا بنیادی محرک سمجھا جاتا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو ایک ساتھ جوڑ کر یہ ادارہ اپنے نیٹ ورک کے لئے مسلسل رقم کے بہاؤ کو یقینی بناتا ہے۔ ہندوستان کی سرحد سے ملحق ریاستیں جیسے جموں و کشمیر پنجاب راجستھان اور گجرات سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ نارکو ٹیررزم ہندوستان کے لئے دوہرا خطرہ ہے۔ ایک طرف یہ دہشت گردی کو مضبوط کرتا ہے اور دوسری طرف ملک میں منشیات کی لت کا سنگین بحران پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان اس خطرے سے نمٹنے کے لئے بارڈر سکیورٹی کو بہتر بنا رہا ہے۔ خفیہ معلومات کے تبادلے میں اضافہ کیا جا چکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں تیز کی گئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کو مضبوط کیا گیا ہے تاکہ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکا جا سکے۔

سن 2019 کا پلوامہ حملہ چودہ فروری 2019 کو پلوامہ میں ہوا۔ اس حملے کا مقصد عام انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کا ماحول خراب کرنا تھا اور انتخابی عمل کو متاثر کرنا تھا تاکہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ممکنہ کامیابی کو روکا جا سکے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے فوراً قبول کی۔ انہوں نے خودکش حملہ آور عادل احمد ڈار کی ویڈیو بھی جاری کی جو پلوامہ کا رہائشی تھا اور سن 2018 میں جیش محمد میں شامل ہوا تھا۔ عادل کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ سن 2016 میں احتجاج کے دوران زخمی ہونے کے بعد سخت مایوس اور غصے میں رہنے لگا تھا۔ جیش محمد ایک پاکستانی تنظیم ہے اور اس کا تعلق براہ راست پاکستان سے جڑتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس تنظیم کو آئی ایس آئی نے ہی قائم کیا تھا۔ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ محمد اسماعیل علوی تھا جسے سیف اللہ عدنان یا لمبو کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ فورینزک جانچ سے ثابت ہوا کہ حملے میں امونیم نائٹریٹ نائٹرو گلیسرین اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا تھا۔ تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ جیش محمد کے ایک اہم رکن شاکر بشیر مگری نے خودکش حملہ آور اور دیگر پاکستانی دہشت گردوں کو پناہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ وہ اسلحہ گولہ بارود رقم اور دھماکہ خیز مواد جمع کرتا اور پہنچاتا تھا۔ اس نے گاڑی میں بارودی مواد لگانے میں بھی مدد کی تھی۔

اس حملے کا طریقہ کار یہ تھا کہ مقامی نوجوان جو شدت پسندی کا شکار ہو چکا تھا اس نے بارودی مواد سے بھری گاڑی سی آر پی ایف کے قافلے کی بس سے ٹکرا دی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ پوری بس تباہ ہو گئی اور آس پاس کی کئی گاڑیاں بھی متاثر ہوئیں۔ یہ حملہ روایتی گھات لگانے والے حملوں کے بجائے ایک خطرناک خودکش حملے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس حملے میں چالیس سی آر پی ایف اہلکار شہید ہوئے اور پینتیس زخمی ہوئے۔ کوئی عام شہری متاثر نہیں ہوا۔ حملہ آور خود بھی ہلاک ہو گیا۔

ہندوستان نے اس حملے کے جواب میں چھبیس فروری 2019 کو بالا کوٹ میں جیش محمد کے تربیتی کیمپ پر فضائی حملہ کیا۔ ہندوستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول عبور کرکے کارروائی کی اور بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ختم کیا۔ سن 1971 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ہندوستانی جنگی طیارے پاکستان کے اندر تک گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے پاکستان سے ایم ایف این کا درجہ بھی واپس لے لیا۔

سن 2025 کا پہلگام حملہ بائیس اپریل 2025 کو ہوا۔ سولہ اپریل کو پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر نے اشتعال انگیز تقریر کی اور کہا کہ پاکستان کشمیر کو نہیں بھولے گا اور اس کی حمایت جاری رکھے گا۔ اسی دوران ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو سری نگر کے دورے پر آنا تھا۔ اس دوران امریکہ کے نائب صدر بھی ہندوستان کے دورے پر تھے۔ حملے کا مقصد جموں و کشمیر کی معیشت اور سیاحت کو نقصان پہنچانا اور دنیا کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرانا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری ٹی آر ایف نے قبول کی جسے لشکر طیبہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ حملہ آوروں نے خصوصی تربیت پاکستان میں حاصل کی تھی جن میں نظریاتی برین واشنگ جسمانی تربیت اور غیر روایتی جنگی تکنیکیں شامل تھیں۔ ان کا تعلق لشکر طیبہ جیش محمد یا حزب المجاہدین سے تھا۔

حملے میں دہشت گردوں نے پہلگام کے بیساراں وادی میں غیر مسلح سیاحوں کو چن چن کر قتل کیا۔ امریکی ساختہ ایم 9 کاربائن اور اے کے 47 سے بڑی تعداد میں خول ملے۔ دہشت گردوں نے اپنی ٹوپیوں پر لگے جدید کیمرے سے پورا حملہ ریکارڈ کیا۔ یہ طریقہ پہلے بھی پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ اور کشمیر ٹائیگرز استعمال کر چکے ہیں جو جیش محمد کے لئے کام کرتے ہیں۔ مقامی مددگاروں نے انہیں پیسہ پناہ اور دیگر سہولتیں فراہم کیں۔ حملے میں شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور زیادہ تر ہندو سیاحوں کو مارا گیا۔

اس حملے میں چھبیس افراد مارے گئے جن میں پچیس سیاح اور ایک مقامی گھوڑا بان شامل تھا۔ بیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ حملہ نہتے شہریوں پر کیا گیا تھا۔ ہندوستان نے اگلے ہی دن اہم اقدامات کئے۔ سندھ طاس معاہدہ معطل کیا گیا۔ واہگہ اٹاری سرحد بند کی گئی۔ سارک ویزا اسکیم ختم کی گئی۔ ہائی کمشن میں عملہ کم کیا گیا۔ پاکستانی فوجی سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا گیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ہر دہشت گرد کو ہر مددگار کو اور ہر منصوبہ ساز کو تلاش کرکے سزا دے گا۔ انہوں نے مسلح افواج کو مکمل آزادی دی کہ وہ کارروائی کے طریقے اہداف اور وقت کا فیصلہ خود کریں۔ اس بنیاد پر سات مئی 2025 کو رات ایک بجے آپریشن سندور شروع ہوا۔ ہندوستان نے پاکستان میں نو دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے جواب میں سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر حملے کئے اور ڈرون اور میزائل استعمال کئے۔ ہندوستان نے اس کے جواب میں پاکستانی فوجی ٹھکانوں اور گیارہ فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ شدید نقصانات کے بعد پاکستان نے دس مئی کو جنگ بندی کی درخواست کی۔ ہندوستان نے اسے قبول کر لیا۔آپریشن سندور ہندوستان کی پالیسی میں ایک تاریخی تبدیلی تھا۔ دفاعی وزیر نے کہا کہ ہندوستان کی پالیسی یہ ہے کہ ہندوستانی سرزمین پر ہر حملہ جنگ سمجھا جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب ایک نیا معمول قائم ہو چکا ہے۔ ہندوستان دہشت گردی کے ہر منبع کو کچلے گا۔ کوئی ایٹمی بلیک میل قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو حکومتیں دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہیں اور جو دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں وہ اب الگ نہیں سمجھے جائیں گے۔

اختتامیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی تاریخ ہندوستان کے لئے دکھ تکلیف اور مسلسل جنگ کی کہانی ہے۔ ہندوستان کا کثیر مذہبی معاشرہ اور جمہوری نظام ہر حملے کے باوجود مضبوط کھڑا رہا ہے۔ یہ دہشت گردی ہندوستان کی پیش رفت کو روک نہ سکی۔ یہ دستاویز یاد دلاتی ہے کہ دہشت گردی انسانیت کے خلاف جرم ہے اور جب اسے ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔ اس کے خلاف دنیا کو متحد ہو کر لڑنا ہوگا۔ کسی بھی مقصد کے لئے دہشت گردی جائز نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردوں اور انہیں پناہ دینے والوں کو سزا ملنی چاہئے۔ یہ تحریر دہشت گردی کے تمام متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ ہم انہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔