فاطمہ بے نظیر: کوویڈ ٹیسٹنگ کی گیم چینجر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 فاطمہ بے نظیر: کوویڈ ٹیسٹنگ کی گیم چینجر
فاطمہ بے نظیر: کوویڈ ٹیسٹنگ کی گیم چینجر

 


 آواز دی وائس، نئی دہلی

 فاطمہ بے نظیر ایک مالیکیولر بائیولوجسٹ (molecular biologist) ہیں۔ ان کی عمر 42 برس ہے۔وہ بنگلور میں رہتی ہیں اور ایک لیب سے وابستہ ہیں۔ فاطمہ بے نظیر مسلسل ریسرچ کرتی رہتی ہیں، حال ہی میں انھوں نے کوویڈ-19 کے تعلق سے بھی ایک ریسرچ کی ہے۔

انھوں نے وائرس کی جانچ کے لیے ایک نئی اور غیر زہرلی (non-toxic ) چیز کا استعمال کیا ہے۔

فاطمہ بے نظیر نے یہ دریافت قدرتی اجزا کی تراکیب سے کی ہے۔ جس کے استعمال کے لیے گلوب(gloves ) یعنی دستانہ پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اگر فاطمہ بے نظیر اپنے تجربے میں پوری طرح کامیاب ہوجاتی ہیں تویہ ڈی این اے کی ٹیسٹنگ میں ایک انقلاب لا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ وبائی مرض کے دوران ڈائی ٹیسٹ (Dye Penetration Test) قیمت آسمان چھو رہی تھیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو بہت زیادہ پریشانی ہوئی۔

awaz

بے نظیر اپنے ٹیسٹ کے تعلق سے بتاتی ہیں کہ ایک ہزار آر ٹی۔ پی سی آر ٹیسٹ( RT-PCR tests) کے 500 یو ایل شی شی(500 ul vial) کافی ہے۔

ایک نئی دریافت ڈی این اے(DNA) ٹیسٹنگ میں انقلاب لا سکتی ہے جو کہ کووڈ 19 وبائی مرض کے آغاز کے بعد بہت اہم ہو گیا ہے۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے محقق نے اس پر ریسرچ کرکے کامیابی حاصل کی ہے، جسے سائنس سے بے پناہ لگاو ہے۔

خیال رہے کہ کوویڈ 19 کے پہلے مرحلے میں آر ٹی ۔ پی سی آر(RT-PCR) ٹیسٹس انتہائی مشکل سے ہو رہے تھے۔ گویا سونے کی طرح یہ جانچ ہو رہی تھی۔

وہیں اس طرح کے ٹیسٹوں کی مانگ میں اضافے کے ساتھ لیب اور ماحولیاتی خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے جیسے نیوکلک ایسڈ کی جانچ میں استعمال ہونے والے فلوروسینٹ (یا فلوروفور) رنگ ، اکثر لیب کے عملے کے لیے بہت زیادہ زہریلے ہوتے ہیں اورپھر جب اسے ضائع کرنے کی بات آتی ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔

ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں مقیم ایک مالیکیولر بائیولوجسٹ کی ایجاد کردہ ایک نیا غیر زہریلا فلوروسینٹ ڈائی ممکنہ طور پر انقلاب لا سکتا ہے کہ اور اب یہ دیکھنے لائق بات ہوگی کہ یہ جانچ مستقبل قریب میں کیسے کی جاتی ہے۔

فاطمہ بے نظیر اگرچہ تکنیکی اعتبار سے ایک مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیں، تاہم وہ ہمیشہ سائنسداں بننا چاہتی تھیں تاہم ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ لے سکیں کیوں کہ ان کے نمبرات دو فیصید کم تھے۔

اس کے بعد انھوں نے بائیو ٹیکنالوجی (biotechnology)کا کورس کیا اور اس میدان میں آگئیں، اب جو ٹیسٹ انھوں نے دریافت کئے ہیں، وہ یقیناً کارنامہ ہے۔

اگر ان کی یہ ٹیسٹ کامیاب ہوجاتی ہے تو مسقبل میں یہ بائٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اہم دریافت مانی جائے گی۔