مودی : ایک فکر،ایک نظریہ نہیں بلکہ بذات خود ایک ادارہ ہیں۔ پروفیسر جسیم محمد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-09-2021
   پروفیسر جسیم محمد وزیراعظم نریندر مودی کے ہمراہ
پروفیسر جسیم محمد وزیراعظم نریندر مودی کے ہمراہ

 

 


ملک اصغرہاشمی/عبدالحئی خان

وزیراعظم نریندر مودی پر اُردو زبان میں کتاب لکھنے والے مصنف پروفیسرجسیم محمد نے کہا کہ ایک سوچ نے مجھے پوری طرح سے بدل دیا۔

ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جسیم محمد نے وزیراعظم نریندر مودی پراردو زبان میں پہلی کتاب لکھی ہے؛اس کا نام ہے 'نریندر بھائی مودی فرش سے عرش تک

پروفیسرجسیم محمد ایک عرصہ تک صحافت سے وابستہ رہےاور فی الوقت وہ اروناچل یونیورسٹی آف اسٹڈیز میں تقابلی مطالعہ کے پروفیسر ہیں۔ جسیم محمد نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اور جامعہ اُردو علی گڑھ کے ڈائریکٹر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میڈیا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔

آواز دی وائس کے ملک اصغر ہاشمی اور عبدالحئی خان نے وزیراعظم نریندرمودی پر کتاب لکھنے کے حوالے سے پروفیسر جسیم محمد سے طویل گفتگو کی ہے۔ اس کے متعلقہ حصے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں:-

آواز دی وائس: وزیراعظم نریندر مودی پر اُردو زبان میں کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

پروفیسر جسیم محمد: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جیسی طالب علمانہ زندگی گزری، وہ یقینی طور پر ایک مسلم ادارے میں پڑھنے والے دیگر طالب علموں کی طرح تھی۔

سن 2014 سے پہلے وزیراعظم نریندر مودی کے تعلق سےیقیناً میری سوچ اچھی نہیں تھی۔ ویسی ہی تھی، جیسی مسلم یونیورسٹیوں سے پڑھ کرنکلنے طلباء کی ہوتی ہے۔جس تنظیم سے میں وابستہ تھا اس کا گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں نظریہ اچھا نہ تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں،میں بی جے پی کے مخالفین میں سے تھا۔ سنگھ کی مخالفت کرتا تھا، حالاں کہ اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ حتیٰ کہ میں مودی جی کی بھی مخالفت کرتا تھا۔

جب مئی 2014 میں نریندرمودی ہندوستان کے وزیراعظم بنےتومیرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ مسلمانوں میں مودی جی سے اتنی نفرت کیوں ہے۔ جب کہ پورا ملک مودی،  مودی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ اس کو جاننے کی ضرورت ہے،اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد میں نے وزیراعظم نریندرمودی کے بارے میں مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ میں نے تحقیق کی نقطہ نظر سے ان سے متعلق ہندی، انگریزی اور اردو کی تقریباً 30-35 کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ نریندرمودی کے بارے میں لوگ، جزب اختلاف کی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں جو بتاتی ہیں،مودی جی ویسے  نہیں ہیں۔

اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب لکھوں گا جو ہندوستانی مسلمانوں، بی جے پی اور نریندرمودی کے درمیان کے فاصلے کو ختم کرے۔ اس لیے میں نے اُردو زبان میں کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ اور پھر میں نے کتاب ' نریندر بھائی مودی فرش سے عرش تک' تحریر کی۔ اردو زبان میں ان پر لکھی جانے والی باضابطہ یہ پہلی کتاب ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی قیام گاہ پر اس کا اجرا کیا۔

آواز دی وائس :کتاب کے تعلق سے مسلمانوں کا ردعمل کیسا رہا؟

پروفیسر جسیم محمد: کتاب لکھنے کا واحد مقصد فاصلے کو کم کرنا تھا۔ غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں میں مودی جی کے تعلق سے جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں تھی، ان میں کمی آئی۔غلط فہمیوں کو بڑھانے میں سیاسی جماعتوں، کانگریس اور بائیں بازو کا خاص کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے بھی غلط فہمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ وہ فاصلے جو مختلف مقامات پر کم کئے جا سکتے تھے، انہیں مزید بڑھایا گیا۔

آواز دی وائس: وزیراعظم نریندر مودی سے پہلی ملاقات کیسی رہی اور ان سے کیا باتیں ہوئیں؟

پروفیسر جسیم محمد: جب میں پہلی بار نریندر مودی سے ملا تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی ایک فکر ہے، ان کے پاس ایک نظریہ ہے۔ وہ بذات خود ایک ادارہ ہیں۔

آواز دی وائس: کیا کتاب لکھنے کے دوران وزیراعظم کے قریبی لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی؟

پروفیسر جیسم محمد:  مودی جی پر میری کتاب ان کے کسی قریبی سے ملے بغیر لکھی گئی ہے اور نہ میں نے کتاب میں ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے نہ تو کتاب میں یہ لکھا ہے کہ وہ کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں ، کب اٹھتے ہیں؟ مجھے یہ چیزیں غیر ضروری لگتی ہیں۔ یہ چیزیں نجی ہیں۔

میں نے جو کتاب لکھی ہے وہ ایک فکر پر مبنی ہے۔ اس میں ان کے خیالات پر بات کی گئی ہے، ان سے ملنے کے بعد اس کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ مودی جی کی نظر میں سب سے اہم قوم ہے۔ جب قوم رہے گی تبھی ملک باقی رہے گا۔ ان کا خیال ہے کہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر کچھ اچھا کیا جائے۔ان کی فکر سے متاثر ہو کر میرے ذہن میں ان پر کتاب لکھنے کا خیال آیا۔

آواز دی وائس: آپ ان کے کام کاج کو کیسے دیکھتے ہیں اور اِن دنوں وہ کیا کر رہے ہیں؟

پروفیسر جسیم محمد : سنہ 2020 میں جب پوری دنیا کورونا وائرس سے بری طرح لڑ رہی تھی۔ اسی دوران وزیراعظم نریندر مودی کی 70 ویں سالگرہ آئی۔ اس دن میرے ذہن میں بہت سی چیزیں گھوم رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ مجھے کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس سے ان کے نظریے کو فروغ ملے، ان کی فکر آگے بڑھایا جائے۔

لوگ انہیں پڑھیں،ان پر تحقیق کریں۔ جس طرح 'سنٹر فار گاندھی اسٹڈیز اورسنٹر فار امبیڈکر ہے۔ اسی طرح 'سنٹر فار نریندر مودی اسٹڈیز' قائم کیا جائے۔ اس لیے میں نے نریندر مودی اسٹڈی سنٹر قائم کیا ہے، ابھی اس پر کام جاری ہے۔

آپ کو یہ بتاتے ہوئے از حد خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس کے اندر تقریباً500 گز میں نریندر مودی اسٹڈی سنٹر کے نام سے ایک انسٹی ٹیوٹ شروع کیا ہے۔ جہاں وزیراعظم نریندر مودی کےماہانہ ریڈیو خطاب'من کی بات' پر مختلف تحقیقی مقالے تیار کئے جا رہے ہیں۔

میں نے مودی جی کے بین الاقوامی خطابات کو بھی مرتب کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی ہر ریاست میں نریندر مودی اسٹڈی سنٹر قائم کرنے کے لیے کام کئے جا رہے ہیں۔آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن، ویویکانند انٹر نیشنل فاؤنڈیشن کی طرز پر کام کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔