عید الاضحیٰ پر قربانی میں کمی: ایک فکری تجزیہ

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 07-06-2025
 عید الاضحیٰ پر قربانی میں کمی: ایک فکری تجزیہ
عید الاضحیٰ پر قربانی میں کمی: ایک فکری تجزیہ

 



تحریر: عامر سہیل وانی 

عید الاضحیٰ، جسے ہم "عید قربان" کے نام سے جانتے ہیں، اسلامی سال کا ایک انتہائی اہم اور روحانی لحاظ سے بامعنی تہوار ہے۔ اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے اپنے بیٹے کی قربانی دینے پر آمادگی کی یاد میں منایا جاتا ہے- یہ ایک واقعہ ہے جو بندگی، اطاعت، اور قربانی کے اعلیٰ ترین جذبے کی علامت ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ عظیم روحانی پیغام ایک رسمی اور مادی عمل میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، جہاں جانور کی قربانی کو مقصد سمجھ لیا گیا ہے، اور اس کی اصل روح و معنویت پیچھے رہ گئی ہے۔

قربانی کی حقیقی روح اللہ کی مکمل اطاعت اور اپنی خواہشات، مفادات، اور خودی کی نفی میں پنہاں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی بے مثال اطاعت اور حضرت اسماعیلؑ کی رضا و تسلیم قربانی کی اصل حقیقت کو واضح کرتی ہے۔ جانور کا ذبح محض اس جذبے کا ایک تمثیلی اظہار ہے- ایک ظاہری علامت، جس کے پیچھے اللہ کی رضا کے لیے نفس کی قربانی پوشیدہ ہے۔

قربانی کی یہ عبادت ہمیں ایثار، فروتنی، اور ہمدردی کا سبق دیتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بہت سے معاشروں میں یہ روحانی عمل سماجی نمائش، مقابلہ بازی، اور مادہ پرستی کا روپ دھار چکا ہے۔ قربانی کی روح کو جاننے کے بجائے جانور کی قیمت، وزن، یا تعداد کو ترجیح دی جاتی ہے، جو اس عمل کی اصل غایت کے بالکل برخلاف ہے۔

اسلامی تعلیمات میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ بھلائی فرض کی ہے، جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے کرو، چھری کو تیز کرو اور جانور کو آرام سے موت دو" (صحیح مسلم)۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک انتہائی حساس اور ہمدردانہ عمل ہے، جس میں جانور کو کم سے کم تکلیف پہنچانا بنیادی اصول ہے۔

قربانی کا ایک اہم پہلو گوشت کی تقسیم بھی ہے۔ سنت کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک حصہ خود کے لیے، دوسرا رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے، اور تیسرا غرباء و مساکین کے لیے۔ اس تقسیم کا مقصد سماجی انصاف، بھائی چارے اور معاشرتی فلاح کو فروغ دینا ہے۔ لیکن آج کل کے حالات میں یہ پہلو اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے۔

فقہی اعتبار سے بھی قربانی کی فرضیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علماء اسے صرف حاجیوں کے لیے واجب قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں۔ جدید دور میں بعض اہلِ علم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں غیر حاجیوں پر قربانی کا حکم واضح نہیں، اور یہ تصور بعض روایتی تشریحات کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ یہ نقطۂ نظر تمام مکاتب فکر میں مقبول نہیں، تاہم یہ اس بات کی نشاندہی ضرور کرتا ہے کہ ہمیں دینی اعمال کے باطن پر بھی غور کرنا چاہیے، نہ کہ صرف ظاہر پر۔

آج کے دور میں قربانی کے ساتھ جڑے کئی اخلاقی اور عملی چیلنجز بھی ہیں۔ لاکھوں جانوروں کی اجتماعی قربانی نہ صرف حیوانی حقوق کے خلاف اقدامات کو جنم دیتی ہے بلکہ ماحولیاتی، معاشی اور صحت سے متعلق مسائل کو بھی بڑھاتی ہے۔ جانوروں کی نقل و حمل، ذبح کے غیر مناسب طریقے، اور گوشت کی غیر منظم تقسیم ایسے پہلو ہیں جن پر توجہ دینا لازم ہے۔

اس پس منظر میں چند قابلِ عمل تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں:نیت کی تجدید: قربانی کو اللہ کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت کے جذبے کے ساتھ ادا کیا جائے، نہ کہ سماجی دکھاوے کے طور پر۔

اہلیت کی بنیاد پر قربانی: قربانی صرف اُن افراد پر لازم ہو جو مالی طور پر استطاعت رکھتے ہوں۔ دیگر افراد نیک نیتی سے صدقہ، فدیہ یا دیگر فلاحی کاموں کے ذریعے اس روحانی موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

جانوروں کے ساتھ حسن سلوک: سنت کے مطابق جانوروں کو کم سے کم تکلیف پہنچائی جائے، اور ذبح کا عمل باقاعدہ تربیت یافتہ افراد کے ذریعے انجام پائے۔

متبادل خیرات کی حوصلہ افزائی: وہ مالی وسائل جو قربانی پر خرچ ہوتے ہیں، اگر ان کا کچھ حصہ تعلیمی وظائف، غربت کے خاتمے، یا صحت کے شعبے میں استعمال کیا جائے تو یہ زیادہ پائیدار نفع دے سکتے ہیں

اجتماعی اور ورچوئل قربانی: مساجد، اسلامی تنظیموں اور فلاحی اداروں کے ذریعے اجتماعی قربانی یا آن لائن قربانی جیسے متبادل طریقوں کو فروغ دیا جائے تاکہ جانوروں کی تعداد کم ہو، اور ضرورت مندوں تک خیر و برکت باآسانی پہنچ سکے۔

عید الاضحیٰ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل عبادت قربانی کا ظاہر نہیں، بلکہ اس کا باطن ہے- یعنی خلوصِ نیت، اطاعتِ الٰہی، اور انسانیت کی خدمت۔ اگر ہم اس عظیم موقع پر قربانی کی اصل روح کو زندہ کر لیں، اور اپنے عمل کو شعوری طور پر اخلاقی و انسانی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں، تو یہ تہوار ایک عظیم فکری و روحانی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ قربانی کے عظیم تصور کو رسمی عادت کی بجائے ایک باوقار انسانی فریضہ بنانا آج کی سب سے بڑی دینی و اخلاقی ضرورت ہے۔