مولانا وحیدالدین خان: سائنٹیفک نظریات کے علمبردار عالم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-04-2021
مولانا وحیدالدین خان
مولانا وحیدالدین خان

 

 

 عبدالحئی خان

مولانا وحید الدین خان کو سمجھنے کے لیے ان کی کتابوں اور ان کی تحریروں کو پڑھنا ہوگا۔ وہ ایک اعتدال پسند اسلامک اسکالر اور عالم دین ہیں، جب ٹی وی یا اخباروں میں کوئی مذہبی بحث ہوتی ہے تو مولانا کو تلاش کیا جاتا تھا، کیونکہ بہت ہی متوازن اور تعمیرانہ رخ اختیار کرتے تھے۔ انہیں ان کے بارے میں کسی تحریر یا مضمون سے نہیں سمجھا جاسکتا ، کیونکہ کچھ تضاد اگر ان کے مخالف ہیں تو بعض ان کے نظر یہ کے سخت حامی بھی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اپنی سادگی اور بیباکی کی وجہ سے مولانا ہر طبقہ میں مقبول رہے ہیں۔

مولانا کی پیدائش

مولانا 1925ء میں اتر پردیش کے مردم خیز علاقہ اعظم گڑھ کے بڈھریا قصبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسہ الاصلاح اعظم گڑھ میں انہوں نے عا لمیت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اسلامی مرکزنئی دہلی کے سربراہ رہے اوروہاں سے مقرر،مصنف اور مفکر کی خدمات انجام دیتے رہے اوراپنے مرکز کے رسالہ الرسالہ کے مدیر رہے۔مولانا  ہفت روزہ الجمعیۃمیں 1967ء سے 1974ء ایڈیٹر رہے۔ انہیں اردو ، ہندی، عربی،فارسی اورانگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا، یہی وجہ تھی کہ ان کی تحریروں کو ہر طبقہ جن میں دانشوروں کی تعداد زیاد ہ ہے،بہت ہی دلچسپی سے مطالعہ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے ہندو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ برادران وطن میں اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ،انہیں حتی الامکان دور کیا جاسکے۔ ان کے نزدیک دعوت دین کے لیے یہ ایک بنیادی اصول ہے۔

انفرادی نظریہ کے علمبردار

اپنی خود نویس سوانح میں مولانا اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میری پوری زندگی پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گزری ہے۔ شاید فطر ت کا بھی اور انسانی تاریخ کا بھی۔ مجھے کوئی شخص تفکیری حیوان کہہ سکتا ہے۔ میری تفکیری زندگی کا ایک حصہ ہے جو الرسالہ یا کتب میں شائع ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا نسبتاً غیر منظم ڈائریوں کے صفحات پر ہے‘‘۔ ان سب کے باوجود مولانا کے انفرادی نظریات کے سبب بعض اہل علم اور نقاد صاحبان ان سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔

خود نوشت سوانح عمری

مولانا وحید الدین خان کی خودن نوشت سوانح عمری ’ اوراق حیات‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔ یہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی سوانح کو شاہ عمران حسن نے ترتیب دیا ہے اوراس کی تیاری میں تقریباً 10؍برس لگے تھے۔ مولانا کی دوسری تصنیفات کی فہرست طویل ہے ،جو کل ملا کر دو سو سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں اور ان کی علمی قابلیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا اہم اسلامی موضوعات پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ بعض اہم کتابوں کے نام اس طرح ہیں۔ تذکیرالقرآن ، اللہ اکبر، الاسلام، پیغمبر انقلاب، مذہب اور سائنس، مذہب اور جدید چیلنج، ہند پاک ڈائری، اسلام دورے جدید کے خالق، عقلیات اسلام، فسادات کا مسئلہ، سوشلزم اور اسلام۔ ان کے علاوہ عربی کتب کے تراجم اور الاسلام یتحدی انگریزی کتب ہیں۔ مولانا کی عظمت اورعلمی بلندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کتاب الاسلام یتحدی قطر ، قاہرہ،طرابلس،خرطوم اورتیونس کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی اعزازات

ڈیجورگس بین الاقوامی ایوارڈ سابق سویت یونین کے صدر گوریر چیف کے ہاتھوں دیاگیا۔ پدم بھوشن،قومی یکجہتی اعزاز، کمیونل ہارمنی اعزاز، قومی اتحاد اعزاز، ارونا آصف علی( بھائی چارگی ایوارڈ)، بین الاقوامی اعزاز۔ مولانا کی خدمات کے صلہ میں 1989ء میں حکومت پاکستان نے مولانا کی کتاب پیغمبر انقلاب پر پہلابین الاقوای انعام دیا۔ مولانا چونکہ منفرد نظریات اور خیالات کے حامی تھے ،اس لیے ان کو مسلم عالموں کا دعوتی طریقہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے اپنے ہم عصر علماء کو اپنے قلم کے ذریعہ نشانہ نشانہ بناتے تھے۔ ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انہیں ہر معاملہ میں مسلمانوں میں خامی نظر آتی ہے اور وہ غیر مسلموں کے ہر دلعزیز بننے جارہے ہیں۔ ان کے نظریہ کے مطابق ’’ ہندستان کی اسلامی جماعتیںذرہ برابر اشاعت اسلام اورتبلیغ کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں۔ حالانکہ مولانا آخری سانس تک تصنیف کا کام کرتے رہے۔ ادھر انہوں نے ٹی وی ، ریڈیو اورسمیناروں میں خرابی صحت کی وجہ سے جانا بندکردیا تھا، لیکن جس طرح لوگ ان کی زندگی میں ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے ہیں، امید ہے کہ اب ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کے صالح تعمیر ی اور سائنٹفک نظریات سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے ۔