مولانا شوکت علی: ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مولانا شوکت علی: ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے
مولانا شوکت علی: ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے

 

 

awazthevoice

 

   

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

میں خدا کا فرمانبردار بندہ ہوں اور ہندوستان کا آزاد شہری ہوں۔ مجھے نہ کسی بادشاہ کی ضرورت ہے، نہ عدالت کی اور نہ فوج کی۔ یہاں تک کہ اگر مجھ پر موت کا مقدمہ چلایا جائے تو اسے بھی خوشی کے ساتھ قبول کروں گا۔

مشہورمجاہد آزادی مولانا شوکت علی نے یہ بات ستمبر 1921 میں کراچی کی ایک برطانوی عدالت میں جج کے روبرو کہی تھی۔ خیال رہے کہ ان کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی، مولوی حسین احمد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدد، مولوی نثار احمد اور شری شاردا پیٹھ کے جگت گرو شنکراچاریہ پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

مرکزی خلافت کمیٹی(CKC) کے بینر تلے مولانا شوکت علی نے اس فتوے کی تائید کی تھی کہ جس میں کہا گیا تھا کہ برطانوی فوج کی خدمت کرنا حرام یعنی گناہ ہے۔

عدالت کے روبرو مولانا شوکت علی سمیت تمام ملزمان نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ ان کی طرف سے دیا گیا بیان ان کی سیاسی بصیرت، حب الوطنی ، مذہب کی پاسداری اور ہندو مسلم اتحاد کا پختہ ثبوت ہے۔

کسی کو نام کی وجہ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ مولانا شوکت علی نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہوگی، اگرچہ یہ حقئیقت ہے کہ انہوں نے کسی بھی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ مولانا شوکت علی نے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج، علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی، جو موجودہ دور میں 'علی گڑھ مسلم یونیورسٹی' کہلاتی ہے۔

اس کالج میں یورپی اساتذہ کرام درس دیا کرتے تھے۔اپنی طرزِرہائش کی وجہ سے مولانا شوکت علی 20ویں صدی کے اوائل میں کسی بھی انگریزی تعلیم یافتہ ’براؤن صاحب‘(Brown Sahib) کی طرح ہی تھے،جنہوں نے کالج کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی، انگریزی میں گفتگو کی، کلین شیو رہے اور ایک افسر کے طور پر برطانوی حکومت کی خدمات بھی انجام دی۔

بلقان کی جنگ کے بحران، پہلی جنگ عظیم، خلافت کے خاتمے اورجلیانوالہ باغ کے قتلِ عام وغیرہ سے وہ بے حد افسردہ ہوئے پھر ان کی شخصیت سے ایک محب وطن مسلمان بیدار ہوا۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب کہ وہ مہاتما گاندھی کی زیر قیادت خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں کے ممتاز رہنماوں میں شامل ہوگئے۔

جب مولانا شوکت علی کو سن1921 میں برطانوی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تو انہوں نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا دفاع کرنے کے بجائے تقریرکی۔ جب جج نے انہیں یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ وہ شوکت کا لیکچر سننے کا خواہش مند نہیں ہیں تومولانا شوکت علی ایک سچے انقلابی لیڈر کی طرح جواب دیا کہ پھرآپ مجھے پھانسی کے تختے پر چڑھا سکتے ہیں۔ میں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں او مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ آپ اس کو سنیں یا نہ سنیں۔

مولانا شوکت علی نے تقریر کے دوران اعلان کیا کہ میں خدا کا فرمانبردار بندہ ہوں اور ہندوستان کا آزاد شہری ہوں۔ مجھے نہ کسی بادشاہ کی ضرورت ہے، نہ عدالت کی اور نہ فوج کی۔ یہاں تک کہ اگر مجھ پر موت کا مقدمہ چلایا جائے تو اس سے مجھے بے حد خوشی ہوگی۔

مولاناشوکت علی نے اپنی تقریر کا آغاز ہندو مسلم اتحاد کے خصوصی ذکر کے ساتھ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہندوستان منقسم لوگوں کا گھر ہے اور ہندو بھی تحریک خلافت میں برابر کے شریک تھے۔ ملک بھر میں ہر شہر میں ہندو خلافت کمیٹیوں کا حصہ تھے۔ان جگہوں پرجہاں مسلمانوں کی تعداد کم تھی، ہندوؤں نے تمام ہندو عہدیداروں کے ساتھ یہ کمیٹیاں قائم کی تھیں۔

انہوں نے خاص طور پرشنکراچاریہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شری شنکراچاریہ خلافت کے مقصد کے ساتھ اپنی ہندوبرادری کی حمایت کے لیے آئے تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر ہندوستانی، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، مرد ہو یا عورت، وہ سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک مشترک ہندوستانی قوم ہیں۔ مولانا شوکت علی نے جج سے کہا کہ وہ انگریزوں سے اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک وہ جلیانوالہ باغ کے شہداء کو انصاف نہیں دلا پائیں گے۔

سوراج کواپنا مقصد اول قرار دیتے ہوئے مولانا شوکت علی نے عدالت کو بتایا کہ وہ خود کو انگلستان کا دشمن شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ہراس شخص سے نفرت کرتا ہوں جو میرے خدا کا دشمن ہے، جو میرے عقیدے اور میرے ملک کا دشمن ہے اور جو کچھ میرے اختیار میں ہے میں اپنے حقوق کی واپسی کے لیے مسلسل لڑتا رہوں گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک برطانوی حکومت ہمیں سوراج نہیں دیتی جو میرا پیدائشی حق ہے،میں اسے لے کر رہوں گا اورانشاء اللہ ہم آپ کی حکومت کو جڑسےاکھاڑ پھینکیں گے۔

awazurdu

حیراکن بات یہ ہے کہ  20ویں صدی کے اوائل میں مولانا شوکت علی نے بھی خواتین کے حامی خیالات رکھے تھے۔ ان کی والدہ اور بہنوئی نے نمایاں طور پر تحریک خلافت کی قیادت کی تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ غیر ملکی راج کے خلاف اس قومی جدوجہد میں صرف مرد ہی نہیں ہندوستان کی خواتین بھی کود پڑی ہیں۔ ان خواتین نے اپنے برقعے پھینک دئیے تھے اور ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار تھیں۔

مولانا شوکت علی نے پوچھا کہ اگر وہ اور دوسرے مردوں کو قید کیا گیا تو کیا ہوگا،ہماری عورتوں نے اپنےبرقعے اتار دیے ہیں، میری ماں ان کے پاس جائیں گی، میرےبھائیوں کی بیوی ان کے پاس جائیں گی، میری بیٹیاں ان کے پاس جائیں گی، ہماری عورتیں ان کے پاس جائیںگے اور انہیں خدا کا پیغام دیں گے- چاہے ہمیں سزا دی جائے وہ ایسا کریں گی۔ آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں؟"

وہ ایک سچے قوم پرست تھے،جن کا ماننا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں، عورتیں برابر کی شریک ہیں اور ملک کی آزادی کے حصول کے لیے کوئی بھی شخص کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

ان کے خیال میں حب الوطنی، قوم سے وفاداری اور محبت ضروری تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ "میرا احساس یہ ہے - کہ جیسا کہ ہندوستان میرا ملک ہے - یہ ہر ایک کا ملک ہے، ہندو، مسلمان، سکھ، جین، عیسائی اور یہودی۔جس نے اسے اپنا گھر بنایا ہے۔

یہاں تک کہ ہر انگریز جس نے اسے اپنا گھر بنایا ہے اور وہ میرے ملک کی خدمت اور محبت کے لیے تیار ہے اور مجھے امید ہے کہ یہاں کسی کو اذیت نہیں دی جائے گی۔ جب میرے پاس میرا سوراج ہے، اس کے ضمیر کی وجہ سے۔ جو بھی ہندوستان کے تئیں سچا ہے۔ جو بھی ملک کی خدمت کرے گا۔ 

جو بھی خدمت کرے گا اسے اس سرزمین پر جگہ ملے گی اور ملک کا قانون اس کی حفاظت کرے گا ۔ یہ مولانا شوکت علی اور ہر مجاہد آزادی کے لیے رہنما اصول تھا جنہوں نے جدوجہد آزادی میں قربانیاں دیں۔ ہندوستان ہر مذہب، نسل، ذات اور جنس سے تعلق رکھنے والے کا ہے اور اس قوم سے محبت ہی ان کی قومیت کا تعین کرتی ہے۔

شوکت علی نے اپنی تقریر ایک گرجدار اعلان کے ساتھ ختم کی تھی کہ ’’میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ حکومت ایک مذاق اور اسکینڈل ہے۔ لعنت اس عدالت پر، لعنت اس حکومت پر، لعنت اس استغاثہ پر اور لعنت اس پورے ڈرامہ اور شو پر۔

 یہ تقریر ان کے قوم پرستی، مذہب، خودمختاری، انصاف اور آزادی کے خیالات کو عیاں کرتی ہے۔ یہ ایک رہنما اصول کے طور پر کام کرتا ہے، ہمیں ایک ظالم کے سامنے بہادری اور بلا ہچکچاہٹ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے، اور ہمیں ہندوستان کے ہمیشہ سے موجود اتحاد کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے۔