شہادت حسین: اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 08-08-2022
 شہادت حسین: اسلام  زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
شہادت حسین: اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

 

awazthevoice

 ڈاکٹرعبید الرحمن ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ                                        

محرم جو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اسے چار مبارک مہینوں میں سمجھاجاتاہے۔ قرآن مجید کہتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے(محرم، ذو القعدہ، ذو الجہ اور رجب) حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہذٰا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو ‘‘۔  (التوبہ:  ۳۶)

تاریخ شاہد ہے کہ ماہ محرم کئی واقعات کی وجہ سے عظیم اہمیت کا حامل ہے۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق ۱۰؍محرم کو ہوئی او ر وہ اسی روز جنت میں داخل ہوئے۔ اسی روز وہ جنت سے نکالے گئے اور اسی روز ان کی توبہ بھی قبول ہوئی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ پہلی مرتبہ زمین پر بارش ماہ محرم ہی میںنازل ہوئی۔ پیغمبر نوح علیہ السلام کی کشتی خوفناک طوفان کے بعد اسی مہینہ میں جودی پہاڑ پر اتری۔ دسویں محرم کو ہی نمرود کی آگ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کے لئے پھولوں میں بدل گئی۔ پیغمبر یونس علیہ السلام کو اسی مہینے میں مچھلی کے پیٹ سے نکالاگیا۔ پیغمبر سلیمان علیہ السلام کو اس مہینے کی دس تاریخ کو ہی ایک شاندار تخت عطاکیاگیا۔پیغبر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم وبربریت سے اسی مہینے میں نجات ملی۔نواسۂ رسول ﷺحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دس محرم کو ہی شہید کیاگیا۔

یہ قابل لحاظ بات ہے کہ جب پیغمبر محمد ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپؐ نے دیکھا کہ یہود دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی دن تھا جب پیغمبر موسیؑ اور ان کے پیروکاروں نے معجزانہ طور پربحراحمر پار کیا اور فرعون اس کے پانی میں غرق ہوگیا۔ یہودیوں کی یہ بات سن کر نبی پاک ﷺ نے فرمایا:’’ہم موسیؑ کے تم سے کہیں زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ اورآپؐ نے مسلمانوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’رمضان کے بعد بہترین روزہ اللہ کے محبوب مہینے محرم میں روزہ رکھناہے‘‘۔احادیث کی ایک بڑی تعدادمیں محرم کے فضائل وصفات کا بیان پرشکوہ انداز میں ہے۔ اب یہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کس قدر یوم عاشوراء یعنی دس محرم کا اہتمام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوںکے مابین کوئی اختلاف یا امتیاز نہیں ہے کیونکہ وہ سبھی اس عظیم اور محترم دن کا بڑی عقیدت سے اہتمام کرتے ہیں۔

اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ دسویں محرم کو شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ واقعتًا تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اپنی کتاب’’المرتضٰی‘‘ میں مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ رقمطراز ہیں:’’ابو مخنف بیان کرتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کے بعد انہوں نے ان کے جسم پر نیزوں کے ضرب کے ۳۳اور دوسرے اسلحوں کے ۳۴نشانات دیکھے۔ ان شہداء کے تعداد جنہوں نے حضرت حسین ؓ کے ساتھ اپنی جان دی ۷۲تھی۔ محمدبن حنیفہ بیان کرتے ہیں کہ شہداء میں ۱۷نبی کریم ﷺ کی دخترحضرت فاطمہؓ کی اولاد تھے۔جس روز یہ المیہ وقوع پذیر ہوا وہ جمعہ ۱۰؍محرم ۶۱ھ مطابق ۱۰؍اکتوبر ۶۸۰ء کادن تھا۔ حضرت حسینؓ کی عمر مبارک اس وقت ۵۴سال ساڑھے چھہ مہینے تھی‘‘۔ درحقیقت حضرت حسینؓ صراط مستقیم پر تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ ان کی شہادت برائی اور فتنہ پرور قوتوں کے خلاف جنگ میں ان کی شجاعت، بہادری ، دیانت داری، امانت داری، صداقت، عدل اور راستبازی کی غماز ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یزید جس کی فوج نے حضرت حسینؓ کی جماعت پر حملہ کیاتھا نے خوداپنے گناہ کا اعتراف کیاتھا اور حضرت حسینؓ کی موت پر ماتم کیاتھا۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ جب حضرت حسینؓ کا سر یزید کے سامنے لایاگیا ، تو اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ اس نے اپنے درباریوں سے کہا:’’اگر تم نے حسین کو قتل نہ کیاہوتا تو میں تمہاری سرزنش نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ابن سمیہ پر ، خدا کی قسم! اگر میںوہاں ہوتا تو میں انہیںمعاف کردیتا‘‘۔(البدایہ، جلد ۸، صفحہ ۱۸۹)

غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ اس معاملے میں شیعہ اور سنی کا ایک دوسرے سے اس معاملہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سنی اور شیعہ دونوں حضرت حسینؓ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہما کوجنت میں نوجوانوں کا سردار کہاجاتاہے۔ جمعہ کے خطبوںمیں سنی امام اکثر اپنے عوامی خطبے میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی تعریف بیان کرتے ہیں۔

امام ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت حسنؓ کو شہادت سے نوازا اوران لوگوں کو جنہوں نے ان کی جان لی یا غلط عمل میں ان کا تعاون کیا یا اس کو منظوری دی ذلیل کیا۔ حضرت حسینؓ اسلام کے اولین شہداء کاایک نمونہ تھے کیونکہ وہ اور ان کے بھائی جنت میں نوجوانوںکے سردار ہیں۔ ان کی پرورش اسلام کے ابتدائی دور میںہوئی اور اسی لئے وہ ہجرت اور اسلام کی راہ میں ملنے والی صعوبتوں اور اس ایذاء رسانی سے جس سے ان کے پیشرو دوچارہوئے محروم رہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں شہادت سے سرفراز فرمایا اورانہیں عزت واحترام سے سربلند کیا اور انہیں بلند مقام عطافرمایا۔ ان کی شہادت سخت المیہ تھی‘‘۔  (فتاوی ابن تیمیہ، جلد ۹، صفحہ ۴۸۳)

خلاصہ یہ کہ سنی اور شیعہ دونوں حضرت حسینؓ کی بڑی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں۔ کربلا کاالمیہ دونوں کے نزدیک انتہائی دردناک اور ناقابل فراموش تصور کیاجاتاہے ۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج اس المیے کو ایک سیاسی رنگ دیاجاتاہے۔ حضرت حسینؓ کے لئے بہترین خراج تحسین یہ ہے کہ محرم کی دسویںتاریخ کو روزہ رکھا جائے اور اچھے اعما ل اور نیک اور پاکیزہ افعال میں اپنے کو شامل کیاجائے۔ حضرت حسینؓ نے ایک امانت دار اور خداسے ڈرنے والے معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگادی ، لہذٰا ان کی مہم کی ترجمانی کے لئے اختلافات کھڑے کرکے ان کو دھوکہ نہیں دیاجانا چاہیے اس طور پر کہ معاشرہ بٹ جائے۔