حضرت امام حسین ؓکی شہادت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 05-08-2022
 حضرت امام حسین ؓکی شہادت
حضرت امام حسین ؓکی شہادت

 


 

awazthevoice


پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

حضرت امام حسینؓ کی شہادتِ عظمیٰ کا واقعہ اسلام کی تاریخِ عزیمت کا ایک روشن باب ہے۔ یہ فدائیت اور اسلام کی راہ میں قربانی کا وہ عظیم ترین نمونہ ہے جس کی ابتداحضرت اسماعیلؑ  سے ہوتی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس حقیقت کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے:

نہایت سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسیں ابتداء ہیں اسماعیلؑ

 شہادتِ کربلا کے واقعہ پر صدیاں گزر گئیں لیکن یہ واقعہ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ اب بھی ذہنوں میں اس طرح تازہ ہے جیسے یہ واقعہ ابھی حال ہی میں پیش آیا ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے اس واقعے سے سبق اور عبرت حاصل نہیں کیا ۔ اس کے افکارو نظریات اس کے انمٹ نقوش قائم نہ ہوئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بہت سی اہم اور عظیم شخصیات عقیدہ کی سطح پر اختلاف کے باوجود شہادتِ امام حسینؓ کے تئیں خراجِ عقیدت پیش کرتی رہی ہیں ۔گاندھی جی لکھتے ہیں:

’’میں نے امام حسینؓ کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے ۔کربلا کے واقعہ پر غور و خوض بھی کیا ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر مجھ پر واضح ہوا کہ اگر ہندوستان آزادی چاہتا ہے تو اسے حضرتِ حسینؓ کی سیرت و کردار کی پیروی کرنی پڑے گی۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی اہم سنتوں میں سے ایک اہم سنت نظام کائنات میں ہمیشہ جاری وساری رہی ہے کہ جب بھی شمعِ حق کو بجھانے کے لئے باطل کی تیزو تند ہوائیں چلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا رخ موڑنے اور ان کا زور توڑنے کے لئے ایسی شخصیات کو مبعوث فرماتا اور میدان میں لاتا ہے جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی اس شمع کو گل ہونے نہیں دیتے۔

حضرتِ امام حسینؓ نے شمع محمدی کو بجھنے سے بچانے کا جو فرض انجام دیا وہ اس بات کی اہم مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاندانِ محمدی یا اہلِ بیت کے ہی ایک جلیل القدر شخصیت کو یہ ذمہ داری عطا کی ۔ اس واقعے کی عظمت اور پاکیزگی کا یہ بھی ایک روشن پہلو ہے۔

اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد اسلامی ریاست راہِ مستقیم پر نہیں رہی۔ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی اور اس نے آگے چل کر جبر اور مطلق العنانیت کی شکل اختیار کر لی۔اسلام میں سیاست دین کا اٹوٹ جز ہے۔ اس لئے سیاست میں فساد اور بگاڑ آنے کا مطلب تھا۔ دین کی اصل حقیقت اور روح کا نظروں سے اوجھل ہوجانا۔ قابلِ غور   بات یہ ہے کہ اگر اسلامی تاریخ کے آغاز میں ہی اس صورتِحال سے سمجھوتہ کر لیا جاتااور ملوکیت سے بیعت کا طوق گردن میں ڈال لیا جاتا تو شاید اسلامی تاریخ کا رخ کچھ اور ہی ہوتا۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار پرستی اور جاہ طلبی کا مزاج کسی بھی اصول اور نظریے کا پابند نہیں ہوتا۔

اس کے سامنے صرف ایک مقصد ہوتا ہے ۔ مذہب، انسانیت اور اخلاق کے تمام اصولوں کو چشم انداز کرتے ہوئے اپنی ہوسِ حکمرانی کی تکمیل۔ حضرتِ امام حسین ؓکا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر اسلامی نظام ِ اجتماعی کے تحفظ کی خاطر اپنی قیمتی جان قربان کردی۔ اس طرح شہادتِ امام حسینؓ  حق کی حفاظت کے لئے آخری حد تک خود کو لٹا دینے اور سب کچھ نچھاور کر دینے کا آخری استعارہ اور روشن علامت بن گئی۔امت کا سوادِ اعظم اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ حسینؓ کا قتل اصل میں یزید کی ہی موت ہے اور یہ کہ اسلام کی زندگی کربلا جیسے واقعات میں ہی پوشیدہ ہے:

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا لے بعد

حسینی روح اور جذبہ امت میں ہمیشہ کارفرما رہا ۔ جب بھی اسلام کو سر بلند کرنا اور ’’افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطانِ جائر‘‘(سب سے بڑا جہاد ظالم حکمراں کے سامنے کلمہٗ حق بلند کرنا ہے۔وقت کے جابر و ظالم طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ضرورت پیش آئی ، حسینی جذبہ سے سرشار سرمایہٗ امت کی نگہبانی کرنے والوں نے اس سے کبھی دریغ نہیں کیا۔اسی جذبۂ شہادت و عزیمت کی میراث کو سنبھالے ہوئے فلسطین کے مظلومین اور مستضعفین  نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے میدانِ حق میں ڈٹے ہوئے ہیں۔سفاک صہیونی فوجیں ان کے اجتماعی وجود کو تار تار کردینے کے درپے ہیں۔ لیکن وہ کسی بھی قیمت پر سرِ تسلیم خم کر دینے کیلئے تیار نہیں۔

حضرتِ امام حسین ؓنے شہادت کا جو نمونہ پیش کیا ، وہ محض اپنی ذات تک محدود نہیں ۔انہوں نے اپنے پورے خاندان کو، شیر خوار بچوں سمیت داؤ پر لگادیا۔ شاید تنہا نواسۂ رسولؐ کی شہادت حصولِ مقصد کے لئے کافی تھی، لیکن نوجوانانِ جنت کے سردار حضرتِ امام حسینؓ کے سامنے پوری انسانیت کے لئے یہ نظیر قایم کرنا تھی کہ حق کی علم برداری اور دین کا احیااس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ دین سے محبت رکھنے والااس کے لئے اپنی کسی بھی عزیز سے عزیز متاع کو بھی اللہ کی راہ میں لٹا اور مٹا دینے سے گریز نہ کرے۔

محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جس کے آغاز میں اسلامی تاریخ کا یہ عظیم واقعۂ شہادت، امتِ مسلمہ کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ اسی طرح اسلام کے لئے فداکارانہ جذبہ کے تحت سال کی شروعات کریں اور پورے سال اس جذبہ کو اپنے سینوں میں تازہ رکھیں۔ اس بات کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی کہ حضرتِ امام حسین ؓکی شہادت کی اصل حقیقت اور اس کے پیغام کی روح کو اویلات کے پردوں میں چھپا دیا جائے تاکہ نئی نسلوں کے لئے وہ قوتِ فکروعمل کے ماخذ اورسرچشموں کی حیثیت سے ان کے ذہنوں میں باقی نہ رہے۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرتِ امام حسینؓ کی شہادتِ کبریٰ کے اس واقعے کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی روح سے لوگوں کو واقف کرانے کی کوشش کی جائے۔ حضرتِ امام حسین کے تئیں ہماری سچی خراجِ عقیدت یہی ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)