شہیدوطن بھگت سنگھ:ذرایادکروقربانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2021
بھگت سنگھ، اپنے جانبازساتھیوں کے ساتھ
بھگت سنگھ، اپنے جانبازساتھیوں کے ساتھ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زورکتنابازوئے قاتل میں ہے

جب بھی دیش بھکتی کی بات ہوتی ہے،جب کہیں حب الوطنی کی مثال پیش کی جاتی ہے توبھگت سنگھ کا نام ضرورلیا جاتاہے۔بھگت سنگھ بھارت ماتا کا وہ سپوت تھا جس نے مادروطن کی آزادی کے لئے ہنستے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیاتھااوراپنی جان، جاں آفریں کے حوالے کردی تھی۔ بھگت سنگھ کی اسی قربانی کے سبب ہرطبقہ ان کا احترام کرتاہے۔ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ان کا یوم شہادت منایاجاتاہے۔

جس طرح سکھ ان کا احترام کرتے ہیں،اسی طرح ہندواورمسلمان بھی انھیں سمان دیتے ہیں۔جہاں انھیں پنجاب والے ایک ویر سپوت کے طور پر دیکھتے ہیں،وہیں کشمیر سے کنیاکمارتک انھیں جوانمردی کی ایک مثال ماناجاتاہے۔ ملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں بھی اس مجاہدآزادی کوخراج عقیدت پیش کرتی ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا سیاسی نظریہ کیا تھا۔

اطمینان اور صبر

بھگت سنگھ کو جس وقت پھانسی کے لئے لے جایا گیا، اس سے پہلے وہ کمیونسٹ میسنی فسٹو پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے جہاں تک اسے پڑھا تھا،وہاں صفحے کو موڑ دیا گویا وہ اسے دوبارہ وہیں سے شروع کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد وہ خوشی خوشی پھانسی پر چڑھ گئے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور سے قریب 100 کلومیٹر دور موجودہ فیصل آباد ضلع میں بھگت سنگھ کا آبائی گاﺅں بنگہ ہے۔یہاں ہرسال ان کے یوم شہادت پر پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ایک پروگرام لاہور کےشادمان چوک میں بھی ہوتاہے جہاں بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور راج گرو کوپھانسی دی گئی تھی۔ ان سبھی پر برطانوی حکومت کے خلاف سازش کرنے کاالزام تھا۔ پاکستان میں بہت دنوں سے مطالبہ کیا جا رہاہے کہ شادماں چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے۔

کون تھے بھگت سنگھ؟

امر شہید سردار بھگت سنگھ کا جنم 28 ستمبر، 1907 کو پنجاب کے لایلپور ضلع کے بنگا گاﺅں میں ہوا۔ یہ علاقہ اب پاکستان میں پڑتا ہے۔ بھگت سنگھ نے ملک کی آزادی کے لئے جس جرات کے ساتھ طاقتور برطانوی حکومت کا مقابلہ کیا، وہ ایک مثال ہے۔وہ ایک محب وطن سکھ خاندان سے تھے۔ان کے والد اور چچا بھی انگریزوں کے مخالف تھے ،لہٰذاان کے جنم کے وقت وہ جیل میں بند تھے۔ جس دن بھگت سنگھ پیدا ہوئے ان کے والد اور چچا کو جیل سے رہا کیا گیا۔ اس شبھ گھڑی کے موقع پر بھگت سنگھ کے گھر میں خوشی اور بھی بڑھ گئی ۔

بھگت سنگھ کی دادی نے بچے کا نام ”بھاگاں والا“ (خوش قسمت) رکھا، بعد میں انہیں بھگت سنگھ کہا جانے لگا۔ وہ 14 سال کی عمر سے ہی پنجاب کے انقلابیوں کے ساتھ کام کرنے لگے تھے۔ ڈی اے وی اسکول سے انہوں نے نویں کا امتحان پاس کیا۔ 1923 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں شادی کے بندھن میں باندھنے کی تیاری ہونے لگی تو وہ لاہور سے بھاگ کر کانپور آ گئے۔ ملک کی آزادی کے لئے کل ہند سطح پر انقلابی ٹیم کی تشکیل نو کرنے کا کریڈٹ سردار بھگت سنگھ کو ہی جاتا ہے۔

انہوں نے کانپور کے اخبار ”پرتاپ“ میں ”بلونت سنگھ“ کے نام سے اور دہلی کے اخبار ” ارجن“ کے ادارتی شعبہ میں ”ارجن سنگھ“ کے نام سے کچھ وقت کام کیا اور اپنے کو ”نوجوان بھارت سبھا“سے بھی منسلک رکھا۔ 1919 میں ملک بھر میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور اسی سال 13 اپریل کو جلیانوالا باغ سانحہ ہوا۔ اس سانحہ کی خبر سن کر بھگت سنگھ لاہور سے امرتسر پہنچے۔ ملک پر مر مٹنے والے شہداءکے تئیں خراج عقیدت پیش کیا اور خون سے بھیگی مٹی کو انہوں نے ایک بوتل میں رکھ لیا، جس سے ہمیشہ یہ یاد رہے کہ انہیں اپنے ملک اور ملک کے باشندوں کی توہین کا بدلہ لینا ہے۔ 1920 میں چلی مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک سے متاثر ہو کر 1921 میں بھگت سنگھ نے اسکول چھوڑ دیا۔

دیش بھکتی کا کالج

عدم تعاون تحریک سے متاثر طالب علموں کے لئے لالہ لاجپت رائے نے لاہور میں ’نیشنل کالج‘ قائم کی تھی۔ اسی کالج میں بھگت سنگھ نے بھی داخلہ لیا۔ نیشنل کالج میں ان کی حب الوطنی کا جذبہ پھلنے پھولنے لگا۔ اسی کالج میں دیگر انقلابیوں کے رابطے میں آئے۔ وہ یہیں چندر شیکھر آزادجیسے عظیم انقلابی کے رابطہ میں آئے اور بعد میں ان کے قریبی دوست بن گئے۔کالج میں ایک نیشنل ڈرامہ کلب بھی تھا۔اسی کلب کے ذریعے بھگت سنگھ نے دیش بھکتی کے ڈرامے میں اداکاری بھی کی۔

عظیم نائک

بھگت سنگھ 1928 کے سانڈرس مرڈر کیس کے اصل ہیرو تھے۔ 8 اپریل، 1929 کو تاریخی ”اسمبلی بم کانڈ“ کے بھی وہ اہم ملزم مانے گئے تھے۔ جیل میں انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔اصل میں تاریخ کا ایک باب ہی بھگت سنگھ کی ہمت، بہادری، عزم وحوصلہ اور قربانیوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل کی مخالفت میں انھوں نے اہم کردار نبھایا تھا۔تبادلہ خیال کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس سارے کام کو بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو انجام دیں گے۔ پنجاب کے بیٹوں نے لاجپت رائے کے خون کا بدلہ خون سے لے لیا.۔سانڈرس اور اس کے کچھ ساتھی گولیوں سے بھون دیئے گئے۔

تختہ دارپر

انہیں دنوں انگریز حکومت دہلی کی اسمبلی میں پبلک سیفٹی بل اور 'ٹریڈ ڈسپیوٹس بل لانے کی تیاری میں تھی۔ یہ بہت ہی جابرانہ قانون تھے اور حکومت انہیں پاس کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ حکمرانوں کا اس بل کو قانون بنانے کے پیچھے مقصد تھا کہ عوام میں انقلاب کا جو بیج پنپ رہا ہے اسے ابھرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔تبادلہ خیال کے بعد 8 اپریل 1929 کا دن اسمبلی میں بم پھینکنے کے لئے طے ہوا اور اس کام کے لئے بھگت سنگھ اور بَٹُوکیشوردت مقرر ہوئے۔ یہ طے ہوا کہ جب وائسرائے پبلک سیفٹی بل پیش کرے، ٹھیک اسی وقت دھماکہ کیا جائے اور ایسا ہی کیا بھی گیا۔ جیسے ہی بل سے متعلق اعلان کیا گیا تبھی بھگت سنگھ نے بم پھینکا۔

اس کے بعد انقلابیوں کو گرفتار کرنے کا دور چلا۔ بھگت سنگھ اور بَٹُوکیشور دت کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر ’لاہور سازش‘ کا مقدمہ بھی جیل میں رہتے ہی چلا۔بھاگے ہوئے انقلابیوں میں اہم راج گرو پونا سے گرفتار کرکے لائے گئے۔ آخر میں عدالت نے وہی فیصلہ دیا، جس کی پہلے ہی توقع تھی۔ بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو کو سزائے موت ملی۔ 23 مارچ 1931 کی رات بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو حب الوطنی کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیے گئے،اوررات کے اندھیرے میں ہی ستلج ندی کے کنارے ان کا انتم سنسکار کردیا گیا۔ پھانسی کے وقت بھگت سنگھ محض 23 سال ،5 ماہ اور 23 دن کے تھے۔ بھگت سنگھ کی موت نے انقلابیوں کے جذبوں کو پست نہیں کیا بلکہ انھیں مزید حوصلہ ملا اور وہ بھگت سنگھ کی چتا کی راکھ اور مٹی کو اپنے ماتھے پر لگاگر آزادی کی قسمیں کھانے لگے۔

پھول تو دودن بہارجاں فزادکھلاگئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے