صبا رفتار ملکھا سنگھ نہیں رہے: زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-06-2021
یاد رکھے گی دنیا
یاد رکھے گی دنیا

 

 

awazurdu

پروفیسر اخترالواسع

ملکھا سنگھ جب تک زندہ رہے تو بھی وہ سب کی توجہ کا مرکز رہے اور اب جب کورونا کی قہرسامانی کے نتیجے میں پہلے ان کی بیوی اور پھر وہ خود ہمارے بیچ سے چلے گئے تو اگرچہ عمر طبعی کو پہنچ چکے تھے لیکن وہ ہمارے بیچ سے اس طرح سے اٹھ جائیں گے اس خبر کو سننے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ صدر جمہوریہ ہوں یا نائب صدر جمہوریہ، وزیر اعظم ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین، حکومت کے وزراء ہوں یا کھیل اور فلم سے جڑے ہوئے لوگ جیسے ثانیہ مرزا، فرحان اختر، دِویّا دَتّا، دلیپ تاہل سب پورے ملک کے ساتھ ان کے سوگ میں شریک ہیں۔

ملکھا سنگھ کی زندگی اور شخصیت ہر شخص کے لئے ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کے اس حصے میں جو اب پاکستان کہلاتا ہے، 1929 کو پیدا ہوا تھے لیکن 17 اور 18 سال کی عمر میں تقسیم وطن کے نتیجے میں جو جنون دیکھنے کو ملا اس میں انہوں نے اپنے ماں باپ سمیت خاندان کے کئی لوگوں کو کھو دیا اور خود کسی طرح بچتے بچاتے خوف اور صدمے کے حالت میں وہ دلّی پہنچے۔ وہ دلّی جہاں ان کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ کہاں جائیں؟

انہوں نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے فوجیوں کے جوتے بھی پالش کئے اور تین دفعہ کی ناکامیوں کے باوجود چوتھی دفعہ میں فوج میں بھرتی ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ خود ان کے لفظوں میں ”یہ فوج ہی تھی جس کے میدانوں میں انہیں دوڑنے اور ایک ایتھلیٹ بننے کا موقع ملا۔ وہ سکندرآباد (اب تلنگانہ) میں آرمی کے ای ایم ای وِنگ میں بھرتی کئے گئے اور ملکھا کی عظمت اور بڑائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1952-53 میں جہاں ملکھا نے دوڑ لگائی تھی اور ایک ایتھلیٹ کے طور پر کامیابی کے گُر سیکھے تھے وہ کالونی اور اسٹیڈیم بعد میں ملکھاسنگھ کے نام سے موسوم ہوئے۔

 ملکھا سنگھ نے سب سے پہلے 1956کے اولمپکس کے مقابلے میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے مگر اپنے ملک کے لئے کامیابی حاصل کرنے کا شوق ان کا ایسا تھا کہ وہ اوّل آنے والے امریکی فاتح چارلس جینکنس کے پاس چلے گئے اور کیوں کہ یہ انگریزی نہیں جانتے تھے اس لئے اپنے ایک ساتھی مہیندر سنگھ کو ترجمان کی حیثیت سے لے گئے اور انہیں جینکنس نے اپنی تربیت اور کامیابی کے بارے میں جو نکتے بتائے ان کو انہوں نے اپنی زبان میں نہ صرف لکھ لیا بلکہ ایک طرح سے گانٹھ میں باندھ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1958 میں ٹوکیو کے ایشین گیمس میں 200 اور 400 میٹر کے ڈبل میں ایک یادگار ریکارڈ بنایا۔

ملکھا سنگھ نے 1964 کے جکارتہ کے مقابلوں میں بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ ملکھا سنگھ کی زندگی کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی ایتھلیٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور آزمائشی لمحہ وہ تھا جب 1960 میں روم کے اولمپکس میں 400 میٹر کی دوڑ میں ملکھا سنگھ تمغہ حاصل کرنے سے پلک جھپکتے یا یوں کہیے کہ پل بھر میں محروم رہ گئے اور خود ان کے لفظوں میں ”وہ تمغہ جیتنے سے ہی نہیں چوکے بلکہ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو مایوس کیا“ لیکن سچائی یہ ہے کہ کامیابی چھوٹے لوگوں کو بڑا بناتی ہے۔

اصل بڑے وہ ہوتے ہیں اپنی ناکامیوں کے باوجود لوگوں کے لئے ایک نمونہ بنتے ہیں۔ لوگوں میں مقابلے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ملکھا سنگھ اپنے زمانے کے نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بن گئے۔ اور نوجوان ہی کیا ہندوستان اور پاکستان کے بیچ میں تلخیوں کے بیچ میں اگر دونوں ملکوں کے بیچ میں کوئی ایک شخص ایسا تھا جسے ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر جنرہ محمد ایوب خاں یکساں طور پر پسند کرتے تھے تو وہ ملکھا سنگھ تھے۔

یہ پنڈت جواہر لال نہرو ہی تھے جنہوں نے 1960 میں ملکھا سنگھ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ سرحد پار پاکستان جائیں اور پاکستان کے ایتھلیٹ عبدالخالق کے مقابل دوڑیں۔ اس دوڑ کو دیکھنے والوں میں پاکستان کے صدر جنرل ایوب خاں بھی شامل تھے۔ جنہیں ملکھا سنگھ کی برق رفتاری نے حیرت اور استعجاب میں ڈال دیا اور انہوں نے صبا رفتار ملکھا سنگھ کی مہارت کو دیکھ کر انہیں ”فلائنگ سِکھ“ کا خطاب دیا جو ہمیشہ کے لئے ان کے نام اور مہارت کا گواہ بنا رہے گا۔

ایک ایتھلیٹ کی حیثیت سے جب انہوں نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا تو حکومت پنجاب نے انہیں ریاست کا ڈائریکٹر اسپورٹس بنا دیا اور انہوں نے بھی فوج کی نوکری چھوڑ کر اسے قبول کر لیا۔ ان کی بیوی نرمل کور جو ہندوستان کی خواتین کی والی بال ٹیم کی سابقہ کپتان تھیں، کھیلوں کے اس محکمہ میں پہلے سے نوکری کر رہی تھیں، یہ بھی عجیب اور تکلیف دہ اتفاق ہے کہ اپنے شوہر کے انتقال سے چند دن پہلے بیوی بھی کورونا ہی سے چل بسیں اور ہندوستان کی کھیلوں کی تاریخ کا ایک باب ان دونوں کے ساتھ ختم ہو گیا۔

ملکھا سنگھ کو اَن گنت انعامات ملے۔ انہوں نے بہت سے تمغے حاصل کئے۔ پدم شری کا اعزاز پایا لیکن جب ان کو برسوں بعد ارجُن ایوارڈ دینے کی حکومت نے پیشکش کی تو انہوں نے اسے اپنے لئے اتنی تاخیر سے دیے جانے کو صحیح نہ سمجھا اور قبول کرنے سے ایک غیرت مند اور خوددار انسان کی حیثیت سے انکار کر دیا۔ ملکھا سنگھ کھیل کی دنیا میں آنے والے لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تو مثال اور نمونہ رہیں گے ہی لیکن عام ہندوستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے وہ راکیش اوم پرکاش مہرا کے ذریعے بنائی گئی کامیاب فلم ”بھاگ ملکھا بھاگ“ کے توسط سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔فرحان اختر نے جس طرح اس فلم میں ملکھا سنگھ کا کردار ادا کیا ہے اس میں اصل اور نقل کا فرق مشکل بنا دیا ہے۔

ملکھا سنگھ اور ان کی بیوی نرمل کور کے اٹھ جانے سے کھیل کی دنیا کے دو روشن آفتاب و مہتاب غروب ہو گئے لیکن جب بھی ہندوستان میں کھیلوں کی تاریخ لکھی جائے گی، ملکھا سنگھ اور ان کی بیوی کے نام سرِورق پر ہوں گے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)