مہاتما گاندھی کا تصور امن و آشتی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-10-2022
 مہاتما گاندھی کا تصور امن و آشتی
مہاتما گاندھی کا تصور امن و آشتی

 

 

 ڈاکٹر نیلوفر حفیظ

موہن داس کرم چند گاندھی ہمارے ملک وقوم کی ان عظیم، قدآور اورلافانی شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی جگہ آج تک ہندوستانی سیاست وقیادت کے میدان میں کسی اورکو نصیب نہیں ہو سکی ہے اس بیدار ذہن،عدل پرست اور دوراندیش سیاست دان کو جو زمانہ میسر ہواوہ ہندوستان کے لوگوں کی زندگی کے ہر شعبے میں انتشار،پراگندگی اور بدحالی کا دور تصور کیاجاتاہے.

 عوام و خواص دونوں ہی پریشان اورزبون حال تھے اپنے ہی وطن عزیز کی سیاست ومعیشت کی باگ ڈور غیرا قوام کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی،مذہب،اخلاق،شرافت اور انسانیت جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدارکی کوئی اہمیت وحیثیت باقی نہیں رہ گئی تھی،امن وآشتی،اخوت وانسانیت اور محبت وشرافت جیسی بہترین انسانی صفات محض خواب وخیال کی باتیں بن کر رہ گئیں تھیں انگریزی حکومت کی حیلہ پروریوں، فریب کاریوں،سفاکانہ سازشوں اور جابرانہ فیصلوں نے ہندوستانیوں کی صفات دانشمندانہ اورجرات مردانہ کو گویا سلب کرلیا تھا ایسے نازک اور پر آشوب دور میں مہاتما گاندھی نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کی بیداری کے لیے جو سیاسی حکمت عملیاں اختیار کیں اور کارہائے گرانقدر انجام دیے اس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں کہیں اور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے یوں تو کشور ہند کے عظیم جیالوں نے اس ملک کو آزاد وخود مختار بنانے میں کسی قسم کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیااوراپنے وطن عزیزکی آزادی کے لیے نہ صرف اپنا تمام تر سرمایہ داؤ پر لگا دیا بلکہ اس ملک پر اپنی جانوں کو قربان کردینے میں بھی کبھی کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

گاندھی جی کا نظریہ سیاست وعمل ہمیشہ اپنی آزادی خواہ معاصرین کے طریقہ اظہاروعمل سے قدرے مختلف اور جداگانہ رہا اور ان کے یہ انفرادی نظریات وافکارہی تھے جن کی وجہ سے اس عبقری شخصیت کے سامنے بڑے بڑے سیاست دان اور دانشوران سر تسلیم خم کرتے رہے ہیں ذیل میں ان کے ایک معاصر قومی کارکن مسٹر اندولال یاجنک کی مشہور کتاب ’گاندھی ایز آئی نو ہم‘کے اردو ترجمہ کا ایک اقتباس نقل کیا جا رہا ہے جس کی روشنی میں مہاتماگاندھی کے ایک بہترین سیاسی رہنما ہونے ہی کی نہیں بلکہ شخصی اعتبار سے بھی ایک عظیم انسان ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے اوریہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے عہد میں گاندھی جی کی سیاسی اور عملی زندگی کے متعلق لوگوں کی کیارائے تھی:

’’وہ گاندھی جو بیک وقت درویش بھی تھا اور سیاست دان بھی دیکھنے میں سیدھا سادا اورخاکسارانہ اطوار کا حامل لیکن ایک ایسے عظیم الشان پیغام کا علمبردار جس کے بارے میں ہم سب کا خیال تھاکہ وہ ملک کی سیاسی زندگی میں ایک بہت بڑے انقلاب کا باعث ہوگا۔‘‘1

مہاتماگاندھی ہندوستان کوانگریزی حکومت کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے انقلاب کے زبردست خواہشمند اور حامی تھے لیکن اس انقلاب کے نہیں جس میں غصہ،نفرت، خونریزی، بغاوت، لوٹ مار کو فروغ دیا جاتاہے اور ایک دوسرے کوجانی دشمن،سفاک قاتل اورظالم تصور کیاجاتاہے بلکہ یہ دردمند سیاسی رہنما اور مصلح قوم اس انقلاب عظیم کا منتظرو متمنی تھا جس کی بنیاد سچائی وایمانداری،صلح وآشتی اور انسانیت واخوت پر رکھی گئی ہو۔ گاندھی جی نے ہی اس ملک کی آزادی کے حصول کے لیے صلح وامن اورستیہ گرہ واہنسا کا راستہ اختیار کیا اور بغیر کسی خون خرابے یاقتل وغارت گری کے آزادی حاصل کرنے کی نہ صرف پرزوروپرجوش وکالت کی بلکہ اس ملک کے لوگوں کے دلوں میں اس بات کی تشویق بھی پیدا کی کہ وہ امن وآشتی اور صداقت ودیانت کے راستے پر چل کر اپنے تمام حقوق کو حاصل کریں کیونکہ لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کا خاتمہ صرف اور صرف ستیہ گرہ اور اہنسا کے ناقابل شکست ہتھیاروں کی مدد سے ہی ممکن ہے اور یہی وہ ہتھیارہے جو ہندوستانیوں کو ان کی محکومیت اور تذلیل سے آزاد کرا سکتے ہے۔

یہ درست ہے کہ گاندھی جی انقلاب کو ہندوستانی عوام کا حق سمجھتے ہیں ان کے نزدیک حرکت وعمل، انقلاب کا دوسرا نام ہے لیکن یہ حرکت وعمل کسی کی دل آزاری، بربادی اور خونریزی کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی دل سازی، غمگساری اورملک کی ترقی کے لیے ہونا چاہیے، مہاتماگاندھی کواس بات کابھی پوری طرح احساس تھا کہ جب تک ہندوستان میں رہنے والے لوگ فرقوں اور ذاتوں میں خود کو تقسیم کرتے رہیں گے قومیت،مذہبیت اور وطنیت کی اہمیت کو اس کے حقیقی معنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک اس ملک وقوم کی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے قول وعمل کے ذریعے وہ ملک میں اتحاد پیداکرنے اورآپس میں مل جل کر زندگی گزارنے کی جابہ جا تلقین وتشویق دلاتے نظر آتے ہیں وہ کسی مخصوص فرقے،جماعت یامذہب کی سیاست وقیادت میں یقین نہیں رکھتے بلکہ مایوسی وقنوطیت کے دشمن،امن وسلامتی کے حمایتی اورملک وقوم کے سچے رہنمااور مخلص دوست نظرآتے ہیں اس سلسلے میں گاندھی جی کے متعلق جواہر لال نہرو کی ایک رائے نقل کی جا رہی ہے۔ نہرو جی گاندھی جی کی عظمت واہمیت کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہوئے ا ن کو کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

’’اس نے تمام ملک کو زیروزبر کر کے رکھ دیاجو کسی بڑے سے بڑے انقلابی سے نہ ہو سکا... اس نے اپنے مخصوص اندازمیں بے اندازہ قوتوں کاخزانہ کھول دیاجو سطح سمندرکی ہلکی ہلکی، موجوں کی طرح پھیلتی چلی گئیں اور اپنے ساتھ کروڑوں آدمیوں کو بہا کر لے گئیں وہ رجعت پسند ہو یا انقلابی ہو لیکن یہ اسی کی ذات ہے جس نے ہندوستان کا نقشہ بدل دیاایک پست اوربودی قوم کو عزم ووقار بخشابیداری اور قوت پیداکی اور ہندوستان کے مسئلے کو دنیا کا مسئلہ بنا دیا ‘‘ 2

ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں گاندھی جی پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے آزادی کے حصول کی جدوجہد کے لیے ’ستیہ گرہ‘اور’اہنسا‘ جیسے نظریات کا کافی بڑے پیمانے پر استعمال کیا ان کا ماننا تھاکہ سچ اور اہنسا کو چھوڑ کر اگر ہم کو سوراج جیسی نعمت ملے تو وہ نعمت نہیں بلکہ ایک زحمت ہے اور اس کا حاصل ہو جاناکوئی تعریف کی بات نہیں ہے اور اس طرح سوراج حاصل کرنے کے بجائے اس سے کنارہ کشی ہی زیادہ بہتر ہے’ ستیہ گرہ‘کا مطلب ہے دل سے،زبان سے اور عمل سے ہر حال میں سچائی کی پابندی کرنا اور اس کاحصول اسی وقت ممکن ہے جب انسان نہ صرف یہ کہ خود سچائی کا پابند ہو بلکہ دوسروں کو بھی سچائی کے راستے پر چلنے کی تشویق وترغیب دلائے اور اہنساکی اصل حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر کوئی ایسا کام انجام دینے کی کوشش نہ کی جائے جس کی وجہ سے دوسروں کو کسی قسم کی تکلیف یا رنج پہونچے یا کسی کی زندگی میں کوئی غیرضروری رکاوٹ پیدا ہواور یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں یعنی سچائی کی پابندی بغیر’ اہنسا ‘کے راستے کو اختیار کر پانا ممکن ہی نہیں ہے اوریہ ستیہ واہنساہی وہ نسخہ کیمیا ہیں جن کی مدد سے ناممکن کاموں کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے ان اصولوں کو ہر انسان اپنی زندگی کے عملی اصول بنا لے توپورے دعوے کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کے مختلف انسانوں،جماعتوں اور قوموں کے مابین ہونے والے اختلافات واعتراضات، لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فرو کیا جا سکتا ہے گاندھی جی کے ان امن پسندانہ نظریات وافکارنے نہ جانے کتنے لوگوں کوزندگی جینے کا قرینہ وسلیقہ بخشااور بڑے بڑے سرکشوں،ظالموں،تند خو اور تنفر پھیلانے والے لوگوں کی فکرمیں انقلاب عظیم برپاکر کے رکھ دیا:

’’مہاتماگاندھی نے سچ اور اہنسا دونوں کو اپنی زندگی کااصول بنایاتھاجوصرف منہ سے ہی نہیں بلکہ اپنی ساری زندگی کے ہر ایک کام سے انھوں نے اس کا سبق ہندوستانیوں اور ہر ایک انسان کو سکھایا‘‘3

گاندھی جی کے نزدیک سچائی وایمانداری،صلح وآشتی اورانسانیت وشرافت کی اہمیت وافادیت سب سے بڑھ کرتھی انھوں نے ہندوستانیوں کو صرف انگریزی حکومت سے ہی آزادی دلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ شخصی، معاشرقی اور قومی زندگی کی آزادی کی اہمیت سے بھی لوگوں کو روشناس کیاان کا ماننا تھا کہ شخصی، سماجی اورقومی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو وہ سماج اور قوم کے حق میں بھی غلط ہی ہے جو چیز کسی انسان کے لیے انفرادی طور پر نقصان دہ ہے تو وہ چیز معاشرے اور قوم کے لیے بھی ہرگز فائدے مند نہیں ہو سکتی اس لیے ہر انسان کو پہلے انفرادی طور پر صادق، دیانتداراور صلح جوہونا چاہیے اس کے بعد سماج وملک کی فلاح وبہبود کی جانب توجہ کرنا چاہیے اگر انسان کا عمل خلوص،محبت اور ایمانداری جیسے جذبات سے عاری ہے تو پھر ایک بہترین معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے ان کے نزدیک انسانی محبت وشرافت اور سچائی وعدل کی کتنی اہمیت تھی اس کااندازہ ان کی سوانح عمری ’حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی‘کی اس عبارت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’جب میں مایوس ہوتاتومیں یاد کرتاکہ پوری تاریخ میں سچ اورمحبت کے راستہ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے دنیا میں بڑے بڑے قاتل اورظالم ہوئے ہیں جوایک وقت میں ناقابل شکست لگے لیکن آخر میں وہ ہار گئے‘‘4

ہندوستان کی ناسازگار فضا کو سازگار بنانے کے لیے جو دانشمندانہ،مفکرانہ اورامن پسندانہ حکمت عملیاں مہاتما گاندھی جیسے عظیم مفکر قوم وملت کے سچے رہنماکی طرف سے پیش کی گئیں اس کی مثال ہندوستان تو کیا دیگر اقوام کی تاریخی کتابوں میں بھی شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے گاندھی جی ہراس کام کو کرنے سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں جس کے ذریعے کسی دوسرے کو معمولی سی بھی روحانی یا جسمانی تکلیف پہونچنے کا امکان ہواور حق تو یہ ہے کہ اہنساکا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ انسان کی طرف سے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کی وجہ سے دوسرے رنج وغم میں گرفتار ہوں گاندھی جی نے اس زمانے سے جبکہ وہ سیاست کے میدان میں عملی طور پر داخل بھی نہیں ہوئے تھے،تبھی سے اس پر یقین رکھتے تھے کہ لڑائی جھگڑے اورخون خرابے سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوا ہے اورنہ ہی مستقبل میں کبھی ہوسکتاہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ انسانیت کو تباہ کرنے والی تباہ کاریوں سے خود کو دور رکھا جائے اور سچ وشانتی کے راستے پر چلنے کی نہ صرف کوشش کی جائے بلکہ کسی بھی حال میں اس راستے کو نہ چھوڑا جائے،اور دوسروں کو بھی اس کی افادیت واہمیت کے بارے میں بتایا جائے اور ان کو عمل کرنے کی جانب مائل ومتوجہ کیا جائے گاندھی جی اپنے عدم تشددکے اس فلسفے پر کس حد تک یقین رکھتے تھے اس کا اندازہ ان کی اس گفتگو سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے شمال مغربی سرحد کے جنگجو پٹھانوں کے متعلق کی تھی یہ پٹھان اکثروبیشترہندوستانیوں پر حملہ آورہوتے اور بے دریغ ان کا خون بہاتے تھے ان پٹھانوں کی سرکوبی کرنے یا ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے متعلق جب گاندھی جی سے ان کی رائے دریافت کی گئی تو انھوں نے ان ظالم لوگوں سے مقابلہ کرنے کی جو انوکھی تدبیر پیش کی اس کو سن کر سب لوگ متعجب ہو گئے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا اس طرح بھی دشمنوں سے جنگ جیتنا ممکن ہے ان کی کہی ہوئی یہ باتیں آج کی دنیا کے حکمرانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس انسان کے لیے توجہ وفکر کی متقاضی ہے جو امن وآشتی،ایثار وشرافت اورانسانیت ومحبت کو گزرے ہوئے وقت کی باتیں کہہ کربے فکری بلکہ بے حسی کے ساتھ اپنے شانے جھٹک دیتا ہے وہ ان پٹھانوں کے خلاف بغیر کسی نازیبا کلمات کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’ہمیں عدم تشدد پر عمل ایک ایسی فوج تیار کرنی ہوگی جو رضاکارانہ طور پرپٹھان قبائل کے غیظ وغضب کا نشانہ بننے کے لیے آمادہ رہے اور ہندوستان کی سرزمین میں قدم رکھنے کے لیے ان پٹھانوں کو ان کی لاشوں پر سے ہو کر آنا پڑے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ بہادر لوگ اہنسا پر عامل اور مدافعت نہ کرنے والے ستیہ گروہیوں کو جان سے مارنا اور ان کی لاشوں کو پائمال کرنا پسند نہ کریں گے اور ان کے دل سچائی اور پریم کی زبردست طاقت کے سامنے جھک جائیں گے چنانچہ میری رائے کے مطابق جدید اسلحہ اورمشین گنوں سے مسلح فوج کی بہ نسبت یہی ستیہ گرہ زیادہ بہترطریقہ پر ہندوستان کا بچاؤ کر سکیں گے ‘‘ 5

گاندھی جی حکیمانہ نقطہ نظر سے ملک کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اورمذہبی حالات کامشاہدہ ومحاسبہ کرنے کے عادی تھے اوراس دور اندیش ہمارے سیاسی وقومی رہنما کی دوربین اور دقیق بین نظروں نے بہت جلد یہ محسوس کرلیاتھاکہ کشورہندکوزورزبردستی اورشدت وسختی سے انگریزی حکومت کے ظالم اور بے رحمانہ پنجوں سے نہیں چھڑایاجا سکتاآزادی چاہیے تو تمام ہندوستانیوں کو مل جل کراس کے لیے کام کرنا پڑے گا،گاندھی جی نے انگریزی حکومت کو کمزوربنانے کے لیے ملک کے لوگوں سے غیرملکی سامان کے بائیکاٹ کی خاص طورپربرطانوی اشیا کے استعمال نہ کرنے کی پرزور اپیل کی وہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر تھے کہ کوئی بھی طاقت ور قوم،کسی بھی دوسری قوم پر صرف اسی وقت تک حکومت کر سکتی ہے جب تک کہ محکوم قوم،حاکم قوم کے ساتھ تعاون وہم آہنگی کا جذبہ رکھتی ہے لیکن اگر محکوم قوم حکمرانوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف متحد ومنظم ہو کر صدائے احتجاج بلند کردے اور اس تعاون کو ترک کر دے اور پھر اس پر کتنی بھی سختی اورشدت کیوں نہ کی جائے وہ چپ چاپ ان سب کو برداشت کرتی رہے تو بڑی سے بڑی مضبوط حکومت کو بھی زمین دوز ہونے میں بہت وقت نہیں لگے گا اور واقعی بہت جلد گاندھی کا یہ دعوی سچ بھی ہو گیا عدم تعاون کی اس تحریک نے ہندوستانیوں کے اذہان و دلوں میں برسوں سے قبضہ کیے ہوئے مغلوبیت،قنوطیت اورمحکومیت کے جذبات کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ ساری دنیا کے لوگوں کے سامنے روز روشن کی طرح واضح اورصاف ہے کہ کس طرح اس مہاتما کے امن پسندانہ تصورات نے سرکش اور ظالم انگریزی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہونا پڑااور اس ملک کو چھوڑ کر جاناہی مناسب لگا۔

گاندھی جی نے اپنی تعلیمات وتحریکات کو کسی مخصوص مذہب، ذات یا قوم کے لیے محدود نہیں رکھا انھوں نے ہندوستان میں بسنے والے بہت سے مذہبوں کی تعلیمات کا وسیع النظری اور کشادہ قلبی کے ساتھ مطالعہ کیااور اس نتیجے کو اخذ کیا مذہب کوئی بھی ہو بنیادی تعلیمات تقریباً سب کی ایک ہی جیسی ہیں صرف خالق کائنات کی حمد وثنا کا طریقہ ایک دوسرے سے جدا ہے ان کے نزدیک ہندوستان میں رہنے والا ہر ہندوستانی اپنا دوست اور بھائی تھاان کو اس حقیقت کا بخوبی احساس تھاکہ یہ ملک صرف اسی وقت خودمختار اور آزاد ہو سکتا ہے جب یہاں بسنے والے ہر شخص کوایک ہی گھر اور خاندان کا فرد مان لیا جائے انھوں نے ہندو اور مسلم تہذیب میں یگانگت،ہم آہنگی اور یک رنگی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی انھوں نے دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام مذہب کابھی گہرا ئی وگیرائی سے مطالعہ کیااور آپسی تفریق وتنفر کے جذبات کو مٹانے کے لیے کئی اہم کام کیے انھوں نے کہا کہ دونوں ہی مذاہب کی حقیقی روح بڑی حد تک ایک دوسرے سے مشابہت وہم آہنگی رکھتی ہے اپنے ان خیالات کا اظہارانھوں نے 24جون 1934 میں پونہ میں یوم عیدمیلادالنبی کے موقع پر ایک جلسے میں شرکت کے دوران اپنی ایک تقریرمیں کیا تھاوہ کہتے ہیں:

’’آپ سب لوگ قران کریم کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن تھوڑے ہیں جواس پر عمل کرتے ہیں اگرآپ قران کریم کی تعلیمات پر عمل کریں اور ہندواپنی مذہبی کتابوں کی تعلیم کے عامل ہوں تو فرقہ وارانہ جھگڑے مٹ جائیں‘‘ 6

مہاتما گاندھی مذہبی اعتبار سے بہت وسیع القلب اور صحیح الفکرانسان تھے۔ وہ ہندوستانیوں کے لیے محبت وآشتی اوراخوت وانسانیت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے انھوں نے جو کچھ بھی کہا پہلے اس پر خود عمل کر کے دکھایااس کے بعد لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی تحریک دلائی ان کی شخصیت میں کچھ ایسی سحرانگیزی اورزبان میں ایسی جادو بیانی تھی کہ وہ اپنے حریفوں اور مخالفین کی تلخی ونفرت کو پلک جھپکتے ہی غائب کر دیتے تھے کسی بھی انسان میں چاہے اختلاف،نفرت یا غصہ کتنا بھی شدید کیوں نہ ہو زیادہ وقت تک کے لیے ان سے ناراض نہیں رہ سکتا تھااور یہی انسانیت اور محبت کا سبق وہ تمام ہندوستانیوں کے دلوں میں بھر دینا چاہتے تھے جس میں وہ بہت بڑی حد تک کامیاب بھی تھے چنانچہ آزادی کی لڑائی میں ان کی آواز پر لب بیک کہنے والوں میں بلا تفریق رنگ ونسل ومذہب کے سب لوگ شامل ہوتے تھے۔

گاندھی جی نے مارچ 1930 میں نمک پر ٹیکس لگائے جانے کی شدیدمخالفت کی اورایک تحریک چلائی جس کونمک تحریک کے نام سے یاد کیاجاتاہے اس میں تقریباً 400 کلو میٹراحمدآباد سے گجرات تک کاسفرپیدل طے کیاگیااورہندوستانیوں کواس بات کی تشویق و ترغیب دلائی گئی کہ وہ خودنمک کی پیداوارکریں اس تحریک میں ہزاروں ہندوستانیوں کی طرف سے بڑھ چڑھ کرحصہ لیاگیاانگریزی حکومت کو کمزور بنانے والی تحریکوں میں یہ سب سے زیادہ کامیاب اورطاقتورتحریک تصورکی جاتی ہے۔ گاندھی جی نے ہندوستانیوں کے دل میں جوش وہمت کے ساتھ ساتھ نازک اور پیچیدہ حالات سے مقابلہ کرنے اوراپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں حالانکہ اس تحریک کی شروعات میں لوگوں کی توجہ بہت زیادہ اس طرف مبذول نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ نمک سازی کے قانون کی خلاف ورزی کر کے ملک کی آزادی کے مقصد کو حاصل کر پانا بہت مشکل ہے لیکن گزرتے وقت وحالات نے ان کے معترضین کوبہت جلد یہ احساس کرادیاکہ گاندھی جی کا یہ قدم ایک دم درست اور صحیح تھا جس کو وہ سمجھ نہیں سکے:

’’دوسرے قومی رہنما یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے کہ کہاں قومی جنگ اورکہاں نمک لیکن یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نمک کا لفظ یکا یک جادو کا ایک منتر بن گیا... لوگ اس قومی فوج کے کوچ کے حالات کو روزبروز دیکھ رہے تھے جو گاندھی جی کی رہنمائی میں نمک بنانے کے لیے دھاوا کر رہی تھی ‘‘7

گاندھی جی نے صرف نمک تحریک ہی نہیں بلکہ اپنی ہر تحریک کے ذریعے ملک کے لوگوں کویہی پیغام دیاکہ وہ پرامن طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پوری ہوش مندی اور عقلمندی کے ساتھ ان ابتر حالات پرقابوپانے کی کوشش کریں کیونکہ صرف سمجھداری،محبت اور صلح جوئی کے راستے پر چل کر ہی مشکل جنگوں کو جیتاجاسکتاہے۔

اب میں بیدل عظیم آبادی کے اس فارسی شعر سے اپنے اس عظیم،معتبر اورمفکرقوم کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں ؂

خورشید خرامید فروغی بہ نظر ماند

دریا بہ کنار دگر افتاد گہر ماند

(ترجمہ: آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن اس کی تابانی یادرخشندگی ابھی تک نظروں کو خیرہ کر رہی ہے حالانکہ اب دریا دوسرے کنارے پر پہونچ چکا ہے لیکن ساحل پر گہر چھوڑ گیا ہے)

ماخذ ومنابع

1۔ پیر سابرمتی، مسٹر اندولال۔ کے۔ یاجنک، ترجمعہ محمد ظفر انصاری، دانش محل فیض گنج، دہلی، 1943، صفحہ نمبر4

2۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر365

3۔ باپوکے قدموں میں، راجندرپرشادترجمہ محمد عبدالغفار،انجمن ترقی اردو ہند، 1953،صفحہ نمبر715

4۔ تلاش حق،مہاتما گاندھی مترجم ڈاکٹرعابد حسین،مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ قرولباغ دہلی،صفحہ نمبر40

5۔ پیر سابرمتی، مسٹر اندولال۔کے۔یاجنک، ترجمعہ محمد ظفر انصاری، دانش محل فیض گنج،دہلی،1943، صفحہ نمبر۱۱۔

6۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر419-20

7۔ جواہرلال کی کہانی، محمد رحیم دہلوی، نیاکتاب گھر اردو بازار دہلی، 1942،ص نمبر169