سید قمرعباس قنبر نقوی
دنیائے تحریکات میں مہاتما گاندھی کا نام عدمِ تشدد، سچائی، انصاف اور انسانیت کے روشن استعارے کے طور پر زندہ ہے۔ وہ نہ صرف ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے عظیم قائد تھے بلکہ عالمی سطح پر امن و حریت کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔موہن داس کرم چند گاندھی، جنہیں احتراماً ’’راشٹر پتا‘‘ اور ’’باپو‘‘ کہا جاتا ہے، 2 اکتوبر 1869ء کو گجرات کے ساحلی شہر پور بندر میں ایک خوشحال گجراتی ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی ریاستی دیوان تھے اور والدہ پُتلی بائی مذہبی رجحان رکھنے والی خاتون تھیں۔ آج ان کے یومِ ولادت کو ’’گاندھی جینتی‘‘ کے عنوان سے قومی سطح پر منایا جاتا ہے، جو بھارت کے تین قومی تہواروں میں شامل ہے: 26 جنوری یعنی یوم جمہوریہ، 15 اگست یعنی یومِ آزادی اور 2 اکتوبر یومِ ولادت مہاتما گاندھی۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
گاندھی جی نے ابتدائی تعلیم پور بندر اور راج کوٹ میں حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ انگلستان گئے جہاں انہوں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ وکالت کے زمانے میں اُن کی شخصیت میں نظم و ضبط، مطالعہ اور مشاہدے کی عادت پروان چڑھی، جو آگے چل کر ان کی جدوجہد کا سرمایہ ثابت ہوئی۔
خدمتِ خلق کا جذبہ
گاندھی جی کے اندر دوسروں کے لیے کام آنے کا جذبہ بچپن ہی سے موجود تھا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ وہ ٹرین پر سوار ہو رہے تھے کہ ان کا ایک جوتا پٹری پر گر گیا۔ انہوں نے فوراً دوسرا جوتا بھی اُتار کر نیچے پھینک دیا تاکہ دونوں جوتے کسی ضرورت مند کو ایک ساتھ مل جائیں۔ یہ معمولی سا عمل ان کی انسان دوستی اور ایثار پسندی کا روشن استعارہ ہے۔
جنوبی افریقہ کا تلخ تجربہ اور ’’ستیاگرہ‘‘
گاندھی جی نے عملی زندگی کا آغاز جنوبی افریقہ سے کیا، جہاں انہیں نسلی امتیاز اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک واقعہ ان کی زندگی کا موڑ ثابت ہوا، وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ ایک انگریز نے اُنہیں صرف اس لیے ٹرین سے اترنے پر مجبور کیا کہ وہ غیر سفید فام تھے، حالانکہ ان کے پاس بھی وہی ٹکٹ تھا جو اُس انگریز کےپاس تھا۔ انگریز نے انہیں جبراً دھکے دے کر باہر نکال دیا تو یہ تلخ تجربہ ان کے دل پر گہرا نقش چھوڑ گیا۔ یہی لمحہ ان کے لیے نقطۂ انقلاب تھا۔
انہوں نے ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، مگر یہ راستہ طاقت اور تشدد کا نہیں بلکہ اخلاقی جرات، سچائی اور عدمِ تشدد کا تھا۔ اس فلسفے کو انہوں نے ’’ستیاگرہ‘‘ کا نام دیا، جو بعد میں ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا بنیادی ستون بن گیا۔
جدوجہدِ آزادی اور قید و بند
گاندھی جی نے عدمِ تشدد اور سچائی کو ہتھیار بنا کر ہندوستانی عوام کی قیادت کی۔ وہ بارہا قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے اور اپنی زندگی کے تقریباً چھ سال پانچ مہینے جیل میں گزارے۔ اس سب کے باوجود ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ظلم و نا انصافی کے خلاف پُرامن مزاحمت ہی حقیقی کامیابی ہے۔
’’مہاتما‘‘ کا لقب اور عوامی پذیرائی
1915 میں جب گاندھی جی شانتی نکیتن جا رہے تھے تو عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور سے ملاقات ہوئی۔ گاندھی جی نے انہیں ’’گُرو دیو‘‘ کہا تو جواباً ٹیگور نے فرمایا: ’’اگر میں گرو دیو ہوں تو آپ مہاتما ہیں۔‘‘ تب سے گاندھی جی ’’مہاتما‘‘ کہلائے۔ یہ لقب ان کی روحانی عظمت اور عوامی عقیدت کا آئینہ دار بن گیا۔
صحافت اور تصنیف و تالیف
گاندھی جی نہ صرف ایک سیاسی اور قو می رہنما بلکہ ایک عمدہ قلم کار اور صحافی بھی تھے۔ انہوں نے تحریکِ آزادی کی مصروفیات کے باوجود پچاس ہزار سے زائد صفحات تحریر کیے۔ ان کی شہرہ آفاق خود نوشت سچائی کے تجربات گجراتی میں تحریر کی گئی، جس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا۔ اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات، خود احتسابی اور سچائی کی راہ پر چلنے کے عملی طریقے بیان کیے۔
انہوں نے کئی اخبارات کی ادارت کی، جن میں ہریجن، ینگ انڈیا اور انڈین اوپینئن شامل ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم تحریکِ آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح کے قوی پیغام سے لبریز تھے۔
زبان اور قومی یکجہتی
گاندھی جی کا نظریہ تھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی قومی زبان کو نہ اپنائے۔ آزادی کے بعد جب صحافیوں نے انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا: "اب میرا ملک آزاد ہو گیا ہے، میں ہندی میں بات کروں گا۔" گجراتی ہونے کے باوجود وہ ہندی پر زور دیتے تھے، یہ ان کی زبان دوستی اور قومی شعور کا ثبوت ہے۔
گاندھی جی کی شہادت
30 جنوری 1948 کو، ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے، نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو گولی مار دی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم سانحہ تھا جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو سوگوار کر دیا۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے، جو کسی بھی ہندوستانی رہنما کی آخری رسومات میں شریک سب سے بڑا مجمع تھا۔
گاندھی جی کا پیغام اور آج کا دور
گاندھی جی نے اپنی جدوجہد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ طاقت کے بجائے اخلاقی جرات زیادہ مؤثر ہتھیار ہے۔ موجودہ دور میں جب دنیا دہشت گردی، نفرت اور جنگ کے سائے میں لرزاں ہے، ان کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اصل طاقت بندوق یا بارود میں نہیں بلکہ اخلاق، برداشت، محبت اور انصاف میں ہے۔ اگر ہم واقعی باپو کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ان کی تصاویر پر پھول چڑھانے یا رسمی کلمات کہنے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا ہندوستان اور ایک ایسی دنیا تعمیر کرنی ہے جہاں انسانیت، مساوات، خوش حالی اور امن کو مقدم رکھا جائے۔ یہی گاندھی جی کی اصل وراثت ہے۔
مہاتما گاندھی کی زندگی ایک عہد کی داستان ہے۔ وہ نہ صرف ہندوستان کے بلکہ پوری انسانیت کے رہنما تھے۔ ان کی جدوجہد اس حقیقت کی دلیل ہے کہ سچائی اور عدمِ تشدد کے راستے پر چل کر بھی بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔آئیے، گاندھی جینتی کے موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ گاندھی جی کے پیغام کو محض تقریبات تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی عملی زندگی اور قومی کردار کا حصہ بنائیں۔ یہی مہاتما گاندھی کے ساتھ حقیقی وفاداری اور خراجِ عقیدت ہوگا۔