مدارس: انسانیت کے مینار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
مدارس: محبت، بھائی چارہ اور انسانیت کے مینار
مدارس: محبت، بھائی چارہ اور انسانیت کے مینار

 

 

awazthevoice

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

ان دنوں مدارس اسلام اور اس کے نظریے کے تمسخرکا وسیلہ بن چکے ہیں۔ انہیں بدنام کیا جا رہا ہے اور انہیں آئی ایس آئی کے اڈے کے طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے لیے اسلحہ خانوں کے ساتھ ساتھ تربیت گاہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔

آر ایس ایس اور دیگر ہندوتنظیمیں ان اداروں کے خلاف کینہ پروری کی مہم چلانے میں قائدانہ کردار ادا کررہی ہیں۔ درحقیقت، اس طرح کی غلط فہمیوں نے لوگوں کے ایک طبقے کے ذہنوں میں مدارس کے خلاف تعصب پیدا کر دیا ہے۔ بنیادی توجہ اسلام کی قدر کم کرنا ہے۔

اسلام کی آمد سے ہی مدینہ میں پہلا مدرسہ’’اصحاب صفہ‘‘ یا بعد ازاں بغداد میں مدرسہ نظامیہ، قاہرہ میں الازہر، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ یہ سب درحقیقت ہمیشہ اسلامی تعلیم اور مشرقی زبان وادب کے ساتھ محبت، اخوت اور بھائی چارے کے پیغامات پھیلانے کا ذریعہ رہے ہیں۔

مولانا محمود حسن (جو شیخ الہند کے نام سے جانے جاتے ہیں)، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا عطاء اللہ بخاری، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا عبدالباری، مولانا احمد سعید، مولانا محمد علی مونگیری ، مولانا سید سلیمان ندوی،مولانا ابوالکلام آزاد اور ان جیسے سبھی ان مدارس کے علماء تھے جنہوں نے مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، سردار پٹیلاور بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہندوستان کو غیر ملکی جوئے سے آزاد کرنے کے لیے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ ’’مولانا حسین احمد مدنی کو اتنی مرتبہ جیل بھیجا گیا کہ شایدہی کوئی سیاسی رہنمااتنی بار جیل گیا ہو گا‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں مدرسہ کےفارغین نے جو کردار ادا کیا ہے اسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان مدارس سے بچوں کی اچھی خاصی تعداد مستفید ہوتی ہے جو کوئی فیس نہیں لیتے ورنہ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ تعلیم سے محروم ہو جاتے۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والےا سکول زیادہ تر بدانتظامی کا شکار ہیں۔

ان سکولوں میں اساتذہ بھی باضابطہ نہیں ہوتے ہیں۔ غیر مسلم بھی اکثر اپنے بچوں کو تعلیم اور محبت اور انسانیت کا پیغام حاصل کرنے کے لیے مدرسوں میں کیوں بھیجتے ہیں؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان کے معروف مصلح راجہ رام موہن رائے اور ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد اور منشی پریم چند وغیرہ نے بھی اپنی تعلیم مدرسے ہی میںحاصل کی تھی

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر(پاورہاؤس)ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے،جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے ، جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتاہے، اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، جہاں کا فرمان پورے عالم پر نافذ ہے، عالم کا فرمان اس پرنافذ نہیں، مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن، کسی عہد، کسی کلچر، زبان وادب سے نہیں کہ ا س کی قدامت کا شبہ اور اس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کا تعلق براہ راست نبوتِ محمدی سے ہے، جو عالمگیر بھی ہے، اور زندۂ جاوید بھی، اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواںہے، اس زندگی سے ہے جو ہمہ وقت رواں اور دواں ہے، مدرسہ درحقیقت قدیم وجدید کی بحثوں سے بالاتر ہے، وہ تو ایسی جگہ ہے، جہاں نبوتِ محمدی کی ابدیت اور زندگی کا نمواور حرکت دونوں پائے جاتے ہیں‘‘۔ (پاجا سراغ زندگی از مولاناسید ابو الحسن علی حسنی ندوی،صفحہ ۹۰)

سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بجا طور پر ان لوگوں کی مذمت کی تھی جو مدارس کو دہشت گردی کا مرکز اور نفرت پھیلانے کا ذریعہ قرار دے رہے تھے۔ مدارس ایک اچھے نظم و ضبط اورمؤدب شہریوں کا گروہ پیدا کرنے کا گہوارہ ہیں۔ ان الزامات کے برعکس، سرسوتی شیشو مندر ایسے ادارے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے حامل بچے پیدا کرتے ہیں اور انہیں مسخ شدہ تاریخ کا سبق دیتے ہیں اور انہیں مسلم حکمرانوں اور ہندوؤں پر ان کے مظالم کی جعلی کہانیاں سنا کر ان کے ذہنوں میں زہر گھولتے ہیں۔

ہندوتوا مخالف طاقتوں سے نمٹنے کے لیے لاٹھیوں، ترشولوں اور تلواروں کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام پاٹھ شالوں کو ایک ہ ی خانے یں نہیں رکھ سکتے۔ بہت سی ہندوؤں کے زیر انتظام پاٹھ شالائیں ایسی بھی ہیں جو مہذب انسان بننے کے لیے مذہبی اصول کی تعلیم دیتی ہیں۔

من گھڑت پروپیگنڈے کی بنیاد پر مدارس کے خلاف کچھ غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں، اس لیے ان کا دورہ کرکے ان کے نظم و ضبط، تعلیم کے معیار اور انسانیت کی خدمات کا اندازہ لگانا مناسب ہوگا، تب ہی مدارس کے خلاف الزامات اور غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہے۔