ادب میں گراوٹ نہیں تبدیلی آئی ہےجو ضروری بھی ہے۔ اصغر وجاہت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-09-2021
اصغر وجاہت
اصغر وجاہت

 

 

awaz

 ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی، نئی دہلی

 پروفیسر اصغر وجاہت ہندی زبان کے معروف کہانی نویس اور ڈرامہ نگار ہیں۔اکیسوی صدی کی چھٹی دہائی کے بعد ہندی کے اہم لکھنے والوں میں ان کا نام اہمیت کا حامل ہے۔

پروفیسر اصغر وجاہت کی پیدائش ریاست اترپردیش کے ضلع فتح پور میں 5 جولائی 1946 کو ہوئی۔

انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہندی زبان میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی، نیز وہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی بھی مکمل کی جب کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق انھوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی(نئی دہلی) سے پوری کی۔

سنہ 1971 میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کے شعبہ ہندی سے وابستہ ہوگئے۔ کچھ ایام کے بعد انہیں شعبہ ہندی کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔

پروفیسر اصغر وجاہت نےاوتوش لورینڈ یونیورسٹی، بوڈاپسٹ اور ہنگری وغیرہ میں 5 برسوں تک ہندی پڑھایا۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں ان کے لیکچر ہوتے رہے ہیں۔

اصغر وجاہت نے ہندی ادب کے مختلف اصناف میں پنجہ آزمائی کی ہے۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو ان کی تحریروں میں نو کہانیوں کے مجموعے، پانچ ناول، ایک ناولٹ، آٹھ ڈرامے، چار سفرنامے، تنقید سے متعلق کتب، سیریلس، مضامین اوراسکرین پلے وغیرہ سبھی کچھ منظر عام پرآچکے ہیں۔

ان کی پہلی کہانی 1964 میں شائع ہوئی اور جب کہ کہانیوں کا پہلا مجموعہ 'اندھیرے سے' پنکج بھشٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر 1976 میں شائع ہوا،یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ تھا۔

ان کی کہانیوں کا انگریزی، اطالوی، روسی، فرانسیسی، ایرانی، ازبیک، ہنگری، پولش وغیرہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

اصغر وجاہت کا پہلا ڈرامہ 'فرنگی لاؤٹ آئے' 1857 کے پس منظر پر مبنی تھا۔ ایمرجنسی کے دوران اسے 'فرمان' کے نام سے ٹیلی پلے کے طور پر فلمایا گیا اورپھر اسے ٹیلی کاسٹ بھی کیا گیا تھا۔

ان کا پنجابی ناٹک 'جس لاہور نئی دیکھیا او جمائے نائی' (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) نے ملک اور بیرون ممالک میں مقبولیت وشہرت کے ایک نئے ریکارڈ قائم کیے۔

حبیب تنویر نے اس ڈرامے کا پہلا شو 27 ستمبر 1990 کو کیا تھا۔ اس کے بعد یہ ڈرامہ اتنا مشہور ہوا کہ اسے کراچی، لاہور، دبئی، واشنگٹن ڈی سی، سڈنی اور دیگر شہروں میں پیش کیا گیا۔

اس پنجابی ڈرامہ کا ہندوستان کی متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا اور اسے اسٹیج پلے بھی کیا گیا۔

 ہنگری کے بوڈاپسٹ میں اس ڈرامے کی تصویری نمائشیں بھی کی گئی۔

اصغر وجاہت اخبارات اور رسائل کے لیے باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں۔ 2007 میں انہوں نے بطور مہمان ایڈیٹر بی بی سی ویب میگزین کے ساتھ کام کیا۔

انہوں نے معروف ہندی میگزین 'ہنس' کے مختلف خصوصی شماروں کی ادارت بھی کی تھی؛ جن میں بطور خاص ہیں'ہندوستانی مسلمان:حال اور مستقبل، موجودہ ادب۔

پروفسیر اصغر وجاہت کو ان کی خدمات کے اعتراف میں مختلف قسم کے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے، ان میں کچھ انعامات کی تفصیل ذیل میں درج کی جا رہی ہے:

شریٹھ ناٹک کار سمان(بذریعہ ہندی اکیڈمی) -2009-10۔

آچاریہ نرنجن ناتھ سمان 2012

سنگیت ناٹک اکادمی سمان -2014۔

ہندی اکیڈمی کا سروچے شلکا سمان 2016 ۔

موجودہ دور کی معروف افسانہ نگار اور کامیاب مصنفہ ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی نے یوم ہندی یعنی 'ہندی دیوس' پر پروفیسر اصغر وجاہت کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے- ذیل اس بات چیت کے متعلقہ حصہ نقل کیے جا رہے ہیں۔

awaz

سوال: آپ کے خیال میں ادبی تحریروں کی گراوٹ کی وجہ کیا ہے؟

جواب: اس قسم کا رد عمل ہر دور میں دیکھا جاتا رہا ہے۔اگر آپ اچھا ادب پڑھیں گے تو آپ اچھا لکھیں گے۔ میری رائے میں ادب میں کوئی گراوٹ نہیں آئی ہے بلکہ اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے ، جو کہ ضروری بھی ہے۔

سوال: ماضی میں ایک مصنف صدیوں تک مشہور رہتا تھا ، اب ایسا کیوں نہیں ہے؟

جواب: اب بیسویں صدی عیسوی کو گزر جانے دیجئے۔ پہلے دور کے لکھنے والوں میں کلاسیکی کام موجود ہے۔ جب کہ موجودہ دور کے کچھ مصنفین کی تحریریں یقیناً لازوال ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گے۔

سوال:معاشرے میں پھیلنے والی برائی کو کم کرنے میں ادب لکھنا کتنا معاون ہے؟

جواب:ادب انسان کو حساس بناتا ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اگر آپ ادب پڑھیں گے اور حساسیت سے کام لیں گے تو جرائم رک جائے گا۔

سوال: پرانے زمانے کی کہانیوں میں اخلاقی پیغام دیا جاتا تھا ، جوانسان کے اندرآگہی پیدا کرتا تھا، اب ایسی کمپوزیشن پڑھنے کونہیں ملتی ہیں؟

جواب:اب قاری زیادہ ذہین ہوگئے ہیں اور کہانی کے ثانوی پیغام کو سمجھتے ہیں، کہانی کارکو بنیادی باتیں یاد دلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ اسے یوں کہا جائے:

اے قاری دیکھ لو، برے کام کا برا نتیجہ 

سوال: پہلے کے مقابلے میں خواتین کے موضوع پر رسائل میں خاص شمارے شائع ہوتے ہیں، کیوں؟

 جواب:نظر انداز کیے گئے طبقے کو آگے آنا چاہیے، خواتین وقت کے ساتھ روشن ہوچکی ہیں، خود آگاہ اور باخبر ہیں، ان کے اندر درست کو صحیح اور غلط کو غلط  لکھنے کی ہمت پیدا ہوچکی ہے، انھوں نے ایک نئے انداز کو ادب کا حصہ بنانا شروع کر دیا ہے، اس لیے خواتین کے لکھنے کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔

سوال: کیا آپ حقوق نسواں کے حق میں ہیں؟

جواب: یہ کوئی ایسا سلسلہ نہیں ہے کہ سب کی ایک جیسی سوچ ہو، میری نظر میں عورت مالی طور پر خود مختار اور قابل ہونی چاہیے، ہر چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لیے مرد کا سہارا تلاش کرنا اسے ذہنی طور پر کمزور بنا دیتا ہے۔ اگر وہ مالی طور پر خود مختار اور قابل ہوں گی تواپنے خاوند کے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کو بھی مدد فراہم کرسکتی ہیں۔

سوال:آج بھی ہم قدیم مصنفین کی یوم پیدائش اور برسی پر بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں تاہم موجودہ لکھنے والوں کو نظر انداز کرتے ہیں؟

جواب:آج بڑی تعداد میں ادبی محفلیں منعقد ہونے لگی ہیں، ان گنت تنظیمیں، مصنفین کی عزت افزائی کرتی ہیں، ان کے کاموں پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ مرحوم ادیبوں کو یاد رکھنا ان کی ادبی شراکت کو خراج تحسین ہے جو لازوال ہے۔  

مصور کی غیر موجودگی صرف بعد از مرگ محسوس کی جاتی ہے، اس کی خدمات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ میری نظر میں فنکار کو اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے اپنی موت کا انتظار کرنا چاہیے۔

سوال:آپ تحریری دنیا میں کن شخصیتوں سے متاثر ہوئے؟

جواب: میرا یہ ماننا ہے کہ چاہے وہ تحریر ہو یا کوئی اور صنف، ایک دوسرے سے متاثر ہونا فطری سی بات ہے۔

میں نے بہت سے مصنفین کو پڑھا ، کہیں کہیں میں ان کی تحریروں سے اور ان کے خیالات سے متاثر ہوا۔

سوال:آپ کی پہلی تحریری کاوش کیا تھی؟

جواب: پہلے میں نے کہانی لکھی۔ اردو میں لکھی گئی پہلی کہانی 'وہ بک گئی' 1962-1963 کے درمیان علی گڑھ کے روزنامہ سحر تمنا میں شائع ہوئی۔ ان دنوں میں اے ایم یو سے بی ایس سی کر رہا تھا۔

میں نے نثر کی بیشتر صنفیں میں کام کیا ہے،مثلاً ڈرامے، سفرنامے، مضامین ، سوانح عمری وغیرہ۔

میں شاعری نہیں کر سکا کیونکہ شاعری بہت ہی مشکل آرٹ ہے۔

سوال: آپ ایک مشہوراور بہترین فنکار بھی ہیں۔ کیا ادب اور فن کو اکٹھا دیکھ کر تعجب نہیں ہوتا؟

جواب:ادب اور فن آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ رنگوں سے جذبات کا اظہار فن ہے اور الفاظ کے ذریعے جذبات کا اظہارادب ہے۔

 سوال:کیا ادب لکھنے میں خاندان کا تعاون ضروری ہے؟

جواب: شوہر کے لیے اپنی بیوی کے لیے لکھنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ ٹالسٹائی جیسے مصنف کو خاندان کا تعاون نہیں ملا ، عملی دنیا اور خیالی دنیا ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ خیالی دنیا میں رہنے والا مصنف حقیقی زندگی کی سخت حقیقت کو آسانی سے قبول نہیں کر پاتا ہے۔

سوال:آپ ادب کی کس صنف میں سب سے زیادہ لکھنا پسند کرتے ہیں اور آپ نے ہندی میں لکھنے کا انتخاب کیوں کیا؟

جواب: تخلیق ایک انتخاب ہے، طریقہ نہیں۔ میں ادب ہر صنف میں کام کرتا ہوں۔ میں نے ہندی زبان کا انتخاب کیا؛ کیونکہ یہ زیادہ لوگوں کی زبان ہے، میں چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے۔

سوال:  آپ کی ہندی کتاب آدھی وانی  معیار معمولی ہے، کیوں؟

جواب: ہاں!ایسا کہا جاتا ہے۔تاہم اسے کم درجے کی زبان کہنا مناسب نہیں ہے۔ کردار کے مطابق زبان کہانی کو زندہ کرتی ہے۔

سوال:ادب میں ترجمہ نگاری کی اہمیت کیا ہے؟

جواب:ترجمہ ایک دوسری دنیا کا دروازہ ہے، نئی جہتیں کھولتا ہے، ہمیں بیرونی ممالک کی ثقافت سے آگاہ کرتا ہے۔

سوال:آپ مستقبل کے قلم کاروں کو یوم ہندی پرکیا پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب: کلاسیکی لٹریچر کا مطالعہ کریں اور کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی قلم پکڑیں۔