محترمہ محسنہ قدوائی کی سیاست اور زندگی کی سرگزشت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-11-2022
محترمہ محسنہ قدوائی کی سیاست اور زندگی کی سرگزشت
محترمہ محسنہ قدوائی کی سیاست اور زندگی کی سرگزشت

 


awaz

پروفیسر اخترالواسع

        اگر آپ ہندوستانی جمہوریت میں خواتین اور بالخصوص مسلم خواتین کی حصہ داری پر نظر ڈالیں اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کو دیکھیں تو آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ شروع سے اب تک صرف ۲۰مسلم خواتین ہی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہو پائی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم خواتین ہی کیا مسلمان مردوں کو بھی ان کی آبادی کے تناسب سے کہاں اور کب نمائندگی مل پائی ہے لیکن اس پارلیمانی قحط والرجال میں ایک مسلم خاتون نے یہ ریکارڈ قائم کیا کہ وہ ۱۹۷۸، ۱۹۸۰اور ۱۹۸۴میں لوک سبھا کے لیے برابر منتخب ہوئیں۔

۱۹۷۸ء میں ایک ایسے وقت میں وہ اعظم گڑھ سے (مشرقی یوپی) سے کامیاب ہوئیں، جب پاکستان سے بنگلہ دیش کی سرحد تک ۱۹۷۷ء میں کانگریس کو زبردست شکست ہوچکی تھی اور ناگور اور چھندواڑہ کو چھوڑ کر اس کاکوئی امیدوار مع اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی کے جیت نہ پایا تھا۔ یہ کامیابی اس وقت کی اترپردیش کانگریس کمیٹی کی صدر اور اودھ کے ایک قدامت پسند، اشرافیہ مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والی سیاست داں محترمہ محسنہ قدوائی کو ملی اور اس ان کی اس کامیابی نے کانگریس کو نئی زندگی عطا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ۱۹۸۰ء میں ایک دفعہ پھر کانگریس مرکز میں نہ صرف برسر اقتدار آئی بلکہ اس نے اکثر ریاستی اسمبلیوں میں بھی اکثریت حاصل کر لی۔

          محترمہ محسنہ قدوائی نے ۱۹۶۰ء سے ۲۰۱۶ء تک ہندوستانی سیاست کو نہ صرف دیکھا، برتا اور اس کے ہر طرح کے اتار چڑھاؤ کا حصہ بھی رہیں اور ان سب کی تفصیلات کو انہوں نے ہندوستانی سیاست اور میری زندگی کے نام سے اس کو انگریزی اور اردو میں جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس کو مشہور تجربہ کار اور انتہائی متین صحافی اور مختلف تاریخ ساز سیاسی کتابوں کے مصنف رشید قدوائی نے اپنی زبانی وہ ہم تک پوری دیانت کے ساتھ پہنچا دیا گیا ہے۔

          اس کتاب کا آغاز اعظم گڑھ کے الیکشن ہی سے ہوتا ہے اور ایسا ہونا ناگزیر بھی تھا کیوں کہ محترمہ محسنہ قدوائی کا تقسیم شدہ اندرا گاندھی کی سربراہی والی کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ایک غیرمعمولی جرأت مندانہ قدم تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب کانگریس کا سورج بظاہر غروب ہوچکاتھا، یہ محترمہ محسنہ قدوائی تھیں جنہوں نے کانگریسیوں کو یہ عزم و حوصلہ عطا کیا کہ:

اپنے پیدا کئے سورج کی دعائیں مانگو

بھیک مانگی ہوئی کرنوں کا بھروسا کیا ہے

          اور اس کے بعد کانگریس ۱۹۸۹ء تک اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قیادت میں سرگرم عمل رہی اور اندرا گاندھی ہوں یا راجیو گاندھی، دونوں نے محترمہ محسنہ قدوائی کو اپنی وزارتوں میں جگہ دی اور یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ بغیر کسی الزام تراشی کے انتہائی شفافیت اور دیانت کے ساتھ محسنہ قدوائی نے ان وزارتوں کو سنبھالا اور یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں تھا جب وہ کسی وزارت کی ذمہ دار رہی ہوں، اترپردیش میں بھی وہ صوبائی حکومتوں میں وزیر بھی رہیں اور انہوں نے پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریوںکو بھی بخوبی نبھایا۔ چاہے یوپی میں ایک انتہائی مشکل وقت میں کانگریس کی صدارت ہو یا اے آئی سی سی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریوں کو نبھانا۔ انہوں نے کیرالہ سے ہماچل تک، بہار اور چھتیس گڑھ سمیت نہ جانے کتنے صوبوں میں کانگریس کو اقتدار سے قریب رکھنے کے لیے اپنی جیسی ہر ممکن کوشش کی اور اس میں اکثر انہیں کامیابی بھی ملی۔

          محترمہ محسنہ قدوائی صرف ۲۸سال کی عمر میں ۱۹۶۰ء میں اترپردیش لیجس لیٹیو کونسل کی ممبر بن گئی تھیں اور اس سے قبل ان کے خسر جناب جمیل الرحمن قدوائی اترپردیش کی کانگریسی سیاست کے ایک اہم ستون تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ محسنہ قدوائی نے سیاست میں نمایاں ہونے اور اپنی جگہ بنانے کے لیے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے کہ انہیں یا ان کے خاندان کو کسی طرح کی شرمندگی ہو۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان، روشن خیال اور سیکولرزم کی حامی لیڈرکے طور پر آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔ بلاشبہ اس میں انہیں محترمہ اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کی تائید حاصل رہی تو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے خسر جمیل قدوائی صاحب کی حوصلہ افزائی اور سیاسی رہنمائی نے غیر معمولی رول انجام دیا۔ وہ لوگ جو محترمہ محسنہ قدوائی کو بخوبی جانتے ہیں وہ اس بات سے بھلی بھانتی واقف ہیں کہ محسنہ قدوائی صاحبہ کے سیاسی عروج میں ان کے شوہر خلیل الرحمن قدوائی کا سب سے زیادہ ہاتھ رہا ہے۔ عام طور پر کامیاب مردوں کے لیے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت (یعنی ان کی بیوی)کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن محترمہ محسنہ قدوائی کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کامیابی عروج اور ترقی کے پیچھے ایک مرد (یعنی ان کے شوہر) کا ہاتھ رہا ہے۔

          اس کتاب میں جگہ جگہ آپ کو ہندوستانی سیاست کے ناموروں جن میں سونیا گاندھی،منموہن سنگھ، دگ وجے سنگھ، اے کے انٹونی، بھوپیش بگھیل، ڈاکٹر ششی تھرور، شرمیلا ٹیگور اور شبانہ اعظمی کے محترمہ محسنہ قدوائی کے بارے میں تحسین شناسی کے نقوش نمایاں ملیں گے تو اسی طرح محترمہ محسنہ قدوائی نے بھی اپنے قلم سے سیاست میں اپنے رفقاء اور ہم عصروں کے بارے میں بھی غیرمعمولی توسع اور کسی حد تک صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ان کے بارے میں اپنی رائے اس کتاب میں درج کرا دی ہے۔ ان میں اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی، ارجن سنگھ، این ڈی تیواری، ڈاکٹر منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی، احمد پٹیل، لالو پرسا یادو، چندرشیکھر، دیوگوڑا، آئی کے گجرال اور ان کے ساتھ کام کر چکے مادھو راؤ سندھیا، سچن پائلٹ وغیرہ کا تذکرہ بھی کتاب میں ملتاہے۔ ان کے علاوہ نرسمہا راؤ، جتیندر پرساد اور ملائم سنگھ یادوکا ذکر اور ان کے بارے میں محترمہ محسنہ قدوائی کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔ ان تمام آراء کو جان کر ایک بات کا احساس تو ہوتا ہے کہ محترمہ محسنہ قدوائی کسی حد تک کبیرپنتھی واقع ہوئی ہیں کہ:

ناہو کسی سے دوستی ناہو کسی سے بیر

          انتہائی شرافت، دیانت اور متانت کے ساتھ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے عہد کے بعض اہم واقعات پر روشنی ڈالنے سے بھی اجتناب کیا ہے اور بہت بہتر ہوتا اگر وہ راجیو گاندھی اور نرسمہاراؤ کے زمانے میں جو واقعات اور حادثات پیش آئے اور کانگریس کے لیے بھی کسی حد تک زوال کا سبب بنے ان پر بھی تھوڑی سی سہی روشنی ڈال دیتیں۔

          اس کتاب میں محترمہ محسنہ قدوائی کی ایک باشعور اور ماہر نبّاض سیاست داں کی تصویر جہاں ابھرتی ہے وہاں ایک قابل رشک حد تک مثالی بیوی، مشفق ماں، اچھی بہن اور خاندان میں سب کا خیال رکھنے والی خاتون کے طور پر بھی ان کی شخصیت ابھر کر آتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں اور دامادوں کا تذکرہ جس محبت سے کرتی ہیں وہ خاصہ دلنواز ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کو اپنے شوہر مرحوم خلیل الرحمن قدوائی کے نام جن لفظوں میں معنون کیا ہے وہ ایک وفا شعار اور مثالی بیوی کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:

’’یہ کتاب میں اپنے شوہر، مرحوم خلیل الرحمن قدوائی کے نام وقف کرتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ مجھے اپنے خوابوں کی طرف پرواز کرنے اور معاشرے اور قوم کی خدمت کرنے کی ترغیب دی۔ خلیل، آپ کی روح ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔‘‘

          اس کتاب کی مرکزی شخصیت یعنی محترمہ محسنہ قدوائی اور ان کے راوی رشید قدوائی دونوںنہ صرف بارہ بنکی کے قدوائی خان سے تعلق رکھتے ہیں بلک دونوں کا خاندانی تعلق سچ اور صدق جدید والے مولانا عبدالماجد دریابادی سے ہے جنہیں محترمہ محسنہ قدوائی خاندانی قرابت کی وجہ سے دادا کہتی تھیں اور وہ رشید قدوائی کے سگے نانا تھے اور محترمہ محسنہ قدوائی اگر کانگریس کی ایک اولوالعزم اور بلند قامت قائد رہیں تو رشید قدوائی نے ایک ممتاز صحافی، مصنف، کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ بہرحال محترمہ محسنہ قدوائی کا شکریہ کہ انہوں نے اپنی عمر کے ۹۰ سال پورے ہونے پر ہمیں ہندوستانی سیاست اور اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتانے کا مبارک فیصلہ کیا اور رشید قدوائی کا اس لیے شکریہ کہ انہوں نے جو کچھ محترمہ محسنہ قدوائی سے سنا اسے جوں کا توں پوری ایمانداری اور دیانت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کر دیا۔ انگریزی اور اردو میں تو یہ کتاب آ ہی گئی ہے اب اس کا ہندی میں بھی ترجمہ ہوکر جلد از جلد قارئین کے سامنے پہنچنا چاہیے کیوں کہ پوری ایمانداری اور سادگی کے ساتھ لکھی گئی یہ سوانح صرف ایک سیاست داں کی سرگزشت نہیں بلکہ کسی حد تک ہندوستانی سیاست کے ایک پورے دور کا جائزہ ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)